بیرون ملک دوستوں کی کمی نہیں، ایسے میں اب تو دنیا واقعی گلوبل ویلج بن گئی ہے، کوئی بھی شخص اپنے موبائل کی سکرین پر کسی بھی ملک کی سیر کرسکتا ہے۔ پہلے لوگ ملک سے باہر جاتے تھے تو انہیں نذر نیاز دے کر رخصت کیا جاتا تھا، کئی کئی ماہ فون بھی نہیں آتا تھا کہ کال بہت مہنگی تھی، پھر دنیا کو انفرمیشن ٹیکنالوجی نے بدل دیا، اب نہ صرف باہر جانے والے اپنے ایک ایک منٹ کی خبر دیتے ہیں بلکہ ویڈیوکال کے ذریعے سب منظر دکھا بھی دیتے ہیں البتہ اب لوگ اس پر اعتراض کرتے ہیں کہ عمرے پر جانے والے عبادات پر کم اور ویڈیو بنانے پرزیادہ توجہ دیتے ہیں۔ خیر یہ تو ایک سماجی مسئلہ ہے، تاہم جو بات اس کالم میں لکھنا مقصود ہے اس کا تعلق بیرون ملک مقیم پاکستانی کمیونٹی کی بعض ایسی عادات سے ہے، جن کی وجہ سے وہاں پاکستانی تقسیم ہیں اور دیگر قومیں خاص طور پر بھارتی حاوی ہوتے جا رہے ہیں۔ میرے سکول کے زمانے میں ریاضی کے استاد ہوتے تھے، جنہوں نے بعدازاں ایم اے اردو کیا اور لیکچرار بن گئے، اب وہ پروفیسر فیض احمد میانہ ہیں۔ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد امریکہ منتقل ہو گئے اور اب اپنے بیٹوں کے پاس بے فکری کی زندگی گزار رہے ہیں،ان سے گاہے بہ گاہے بات ہوتی رہتی ہے، کچھ عرصہ پہلے ان کا فون آیا تو بہت سی باتیں ہوئیں،وہ چونکہ ایک کشادہ نظر اور کشادہ ذہن بزرگ ہیں، اس نسل سے تعلق رکھتے ہین جس نے حسد کرنا نہیں بلکہ رشک کرنا سیکھا اور دوسروں کو آگے بڑھنے میں راستہ دیا۔ انہوں نے کہا امریکہ میں پاکستانی آپ کو بہت کم ہنستے مسکراتے ملیں گے، اکثر کے چہروں پر ایک غصہ اور مایوسی موجود ہو گی۔ کسی پاکستانی کو آسودہ اور خوشحال دیکھ لیں تو کڑھنے لگتے ہیں، ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کرتے ہیں، کوئی پاکستان سے آ جائے اور یہاں روزگار کی تلاش میں ہو تو اس کی مدد کرنے کی بجائے کوشش یہی کریں گے وہ مایوس ہو کر واپس چلا جائے، اس کے مقابلے میں انڈیا کے لوگ یہاں نہ صرف خوشحال ہیں بلکہ جسے بھی ملتے ہیں مسکرا کے ملتے ہیں۔ خاص طور پر کوئی انڈین یہاں کسی مشکل میں ہو تو سب مل کر اس کی مدد کو آ جائیں گے، نئے آنے والوں کو یہاں آباد کرنے میں بھارتی افراد پیش پیش ہوتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ امریکہ میں بھارتی زیادہ اچھا معاوضہ پاتے ہیں اور انہیں کام بھی اچھا مل جاتا ہے۔ یہ جذبہ آخر پاکستانیوں میں کیوں نہیں، وہ کیوں یہ سمجھتے ہیں کہ ہم اگر امریکہ میں آ گئے ہیں تو اب کسی دوسرے پاکستانی کو نہیں آنا چاہیے، میرے لئے ان کی باتیں بڑی حیران کن تھیں۔ امریکہ کے بارے میں تو کہا جاتا ہے، مواقع کی سرزمین ہے جو یہاں آجائے اپنے لئے دروازے خود کھول لیتا ہے، پھر یہ بھی ہے کہ بطور کمیونٹی جب تک پاکستانیوں میں اتحاد نہیں ہوگا وہ اس سپرپاور میں اپنا وجود نہیں منوا سکیں گے۔ کچھ عرصہ پہلے جب بھارتی وزیراعظم نریندر مودی امریکہ گئے تو انہوں نے وہاں ہزاروں بھارتیوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا، بھارتی امیگرنٹس جلد ہی امریکہ کی ایک بڑی کمیونٹی بن جائیں گے اور پھر یہاں کی سیاست پر بھی ان کا غلبہ ہوگا،انہوں نے بتایا امریکی حکومت سے ان کی بات ہو گئی ہے، اگلے برسوں میں لاکھوں بھارتیوں کو امریکہ میں سیٹل ہونے کا موقع ملے گا۔ پھر انہوں نے لوگوں سے کہا وہ اپنے دروازے بھارت سے آنے والے بہن بھائیوں پر کھول دیں۔ ان کے لئے مواقع پیدا کریں، انہیں یہاں معاشی طور پر خود مختار بنانے میں ان کی مدد کریں۔ اب آپ اندازہ لگائیں بھارتیوں کی اوپر سے نیچے تک سوچ کیا ہے۔ ہم کیا کررہے ہیں، نہ صرف بیرون ملک سیاسی طور پر تقسیم ہیں بلکہ آپس کے سماجی روابط بھی اتنے کمزور کررکھے ہیں کہ بطور کمیونٹی ہمارا تشخص بن ہی نہیں پا رہا۔
یہی حال برطانیہ کا بھی ہے۔نہ صرف مذہبی تفرقات نے وہاں پاکستانیوں کو تقسیم کر رکھا ہے بلکہ علاقائی تعصبات بھی وہاں موجود ہیں۔ ایک خاص علاقے سے گئے ہوئے افراد یا ایک خاص ذات سے تعلق رکھنے والے لوگ دوسروں کو آگے بڑھتا دیکھنا نہیں چاہتے، حالانکہ بیرون ملک تو شناخت صرف پاکستان ہونا چاہیے مگر پاکستان وہاں کہیں پیچھے رہ جاتا ہے۔ پاکستان سے آج کل بڑی تعداد میں پڑھے لکھے نوجوان بیرون ملک جا رہے ہیں۔ زیادہ تر تعلیمی ویزے پر جاتے ہیں اور قانون کے مطابق انہیں وہاں کچھ گھنٹے کام کی اجازت ہوتی ہے، اب ظاہر ہے کہیں ملازمت کے لئے انہیں کسی ریفرنس کی ضرورت ہوتی ہے مگر کوئی پاکستانی ان کی مدد کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔ یہ سب سنی سنائی بات نہیں کررہا خود میرا بھتیجا برطانیہ گیا تو میں نے وہاں موجود اپنے دوستوں سے بات کی، میں یہ سن کر حیران رہ گیا کہ یہاں زیادہ تر متمول کاروباری پاکستانی بھی بھارتیوں، بنگلہ دیشیوں یا سری لنکا کے افراد کو ملازم رکھنا پسند کرتے ہیں، وجہ اس کی یہ بتائی گئی کہ پاکستانی نوجوانوں کے مقابلے میں یہ لوگ زیادہ محنت سے کام کرتے ہیں اور سازش بھی نہیں کرتے۔ میرے بھتیجے کو تین ماہ تک کوئی کام نہیں ملا، پھر ایک دن اس کے برطانوی کلاس فیلو نے اپنی ضمانت پر اسے ایک برطانوی فرم میں ملازمت دلوائی۔ بہت سے محب وطن پاکستانیوں کی سوچ یہ ہے تقسیم کا عمل پاکستانی کمیونٹی کے اندر نہیں ہونا چاہیے۔ تقسیم پاکستانی کمیونٹی اور دیگر ملکوں کی کمیونٹی کے درمیان ہونی چاہیے، اس حوالے سے بھارتی کمیونٹی بہت متحد ہے۔ بھارتی چاہے کلکتہ کا ہو یا دہلی کا، بہار کا ہو یا ممبئی کا، بیرون ملک اسے بھارتی ہی سمجھا جاتا ہے، یہی وجہ ہے امریکی سیاست میں بھارتیوں کا اثر و نفوذ زیادہ ہے۔ اس کمیونٹی کے اثر کا نتیجہ ہے کہ ہر امریکی صدر اپنے دورِ اقتدار میں کئی بار بھارت کا دورہ کرتا ہے۔ بھارتیوں کے لئے جتنی مراعات مودی سرکار نے امریکہ سے حاصل کی ہیں، ہمارے کسی وزیراعظم نے وہاں جا کر اس موضوع پر بات تک نہیں کی۔ اعدادوشمار کے مطابق بھارت کے شہریوں کی امریکی ویزے کے لئے انکار کی شرح دس فیصد ہے جبکہ پاکستان کے لئے یہ شرح پچاس سے اسی فیصد تک چلی جاتی ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت امریکہ کے لئے بہت بڑی تجارتی منڈی بھی ہے تاہم بھارت کی اصل اہمیت اب امریکیوں کی نظرمیں یہ ہے کہ وہ امریکی سماج اور سیاست میں اپنی شناخت بنا چکے ہیں۔
ایک دن میں نے معروف شاعرہ، دانشور اور بلاگربینا گوئندی سے پوچھا، جو امریکہ میں مقیم ہیں اور وہاں کی سیاسی و سماجی زندگی میں بہت اہم کردار ادا کررہی ہیں، کیا امریکہ میں پاکستانی اہلِ قلم کی کمیونٹی متحد ہو کر اردو اور پاکستان کی شناخت کے لئے کام کررہی ہے؟ کہنے لگیں، آپ اتنے بھولے تو نہیں جتنا تاثر دے رہے ہیں۔ آپ کو سب معلوم ہے یہاں کیا صورت حال ہے۔ میں نے کہا میری معلومات صرف دور سے اور سنی سنائی ہیں، آپ وہاں موجود ہیں زیادہ مستند معلومات دے سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا بدقسمتی سے یہاں گروپ بندی اور انتشار بہت زیادہ ہے۔ ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنا معمول ہے۔ سب کو پتہ ہے کون کس گروپ سے ہے۔ اس لئے ایک دوسرے کی تقریب میں نہیں جاتے، نہ ہی بلایا جاتا ہے۔ میں نے کہا یہ چیزیں تو پاکستان میں ہوتی ہیں، وہاں کیسے پہنچ گئیں، بیناگوئندی نے بے ساختہ جواب دیا”پاکستانی تو یہاں پہنچ گئے ہیں ناں“…… یہ کالم لکھنے کا مقصد صرف یہی ہے کہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے پاکستانی وہاں اپنے اجتماعی تشخص کو پروان چڑھائیں اور ایک دوسرے کے لئے اپنے دامن کشا رکھیں تاکہ بطور قوم وہاں ہماری قدرو منزلت میں اضافہ ہو کمی نہ آئے۔