چین کے وزیراعظم لی چیانگ آئندہ ماہ پاکستان کا تین روزہ سرکاری دورہ کریں گے، 2013ء کے بعد چین کے وزیراعظم کا یہ پہلا دورہ ہو گا۔ سفارتی ذرائع کے مطابق چینی وزیراعظم کا دورہ پاکستان 2 حصوں پر مشتمل ہوگا، دورے کے پہلے حصے کے تحت چینی وزیراعظم 14 اکتوبر کو اسلام آبادپہنچیں گے۔ذرائع نے بتایاکہ دو طرفہ دورے میں پاک چین تعلقات اور دیگر امور زیر غور آئیں گے، چینی وزیر اعظم کے دورے کا دوسرا حصہ 15 اکتوبر سے کثیرالجہتی ہوگا، وہ 15 اور16 اکتوبرکو شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) سربراہان حکومت کے اجلاس میں شرکت کریں گے۔اِس دورے کے دوران دونوں ممالک کے درمیان متعدد معاہدوں پر دستخط کے ساتھ ساتھ ایم ایل ون منصوبے کی تعمیر سے متعلق مزید پیشرفت کا قومی امکان ہے، اربوں ڈالر کے کوریڈور منصوبے اور ثقافتی تبادلے کے اقدامات کے ذریعے دو طرفہ تعلقات کو فروغ ملے گا۔ چینی وزیر اعظم کا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کی تجویز بھی زیرِ غور ہے۔ کسی بھی چینی وزیراعظم کا یہ گزشتہ 11 سال کے دوران پہلا دورہ ہے جسے حکومت پاک۔چین تعلقات میں بہتری بالخصوص وزیرِاعظم شہباز شریف کے دورہ چین کے حوالے سے دوطرفہ رابطوں کا تسلسل قرار دے رہی ہے۔واضح رہے کہ رواں سال جون میں پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف نے چین کا دورہ کیا تھا، جس میں قراقرم ہائی وے، ایم ایل ون، خنجراب پاس، گودار پورٹ منصوبوں اور زراعت، انفراسٹرکچر اور صنعتی تعاون سمیت مختلف شعبوں میں 23 معاہدوں اور یادداشتوں پر دستخط کیے گئے تھے۔ چینی وزیر اعظم کا یہ دورہ پیپلز لبریشن آرمی گراؤنڈ فورسز کے کمانڈر جنرل لی چیاؤمنگ کے دورے کے بعد ہو رہا ہے، وہ 26 اگست کو پاکستان کے دورے پر آئے تھے۔ دورے کے دوران صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے اُنہیں نشانِ امتیاز ملٹری سے نوازا تھا۔ واضح رہے کہ لی چیانگ مارچ 2023ء میں چین کے آٹھویں وزیراعظم بنے، اُن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ غیر معمولی قوت ارادی کے مالک ہیں اسی وجہ سے انہیں مضبوط وزیراعظم مانا جاتا ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے منگل کو چینی سفیر جیانگ زیڈانگ سے بھی ملاقات کی جس کے دوران اُنہوں نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور چین کی دوستی ہر آزمائش پر پوری اُتری ہے، یہ خطے کے ساتھ ساتھ نہ صرف عالمی امن بلکہ ترقی کے لیے بھی ناگزیر ہے۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان چین کے ساتھ انفارمیشن ٹیکنالوجی، مصنوعی ذہانت اور جدید زراعت جیسے کلیدی شعبوں میں تعاون بڑھانے کا خواہاں ہے۔
پاکستان اور چین کے سفارتی تعلقات کئی دہائیوں پر محیط ہیں، پاکستان اور چین کے درمیان 21 مئی 1951ء کو سفارتی تعلقات قائم ہوئے۔ پاکستان عوامی جمہوریہ چین کوتسلیم کرنے والے اولین ممالک میں شامل تھا، چینی قیادت اب تک اس بات کی معترف ہے کہ پاکستان چین کو تسلیم کرنے والا پہلا مسلم ملک تھا۔ چیئرمین ماؤزے تنگ نے اسی وقت وزارت خارجہ کو پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی ہدایت کر دی تھی جو دونوں ممالک کے درمیان گہرے تزویراتی تعلقات کا سنگِ بنیاد بنی۔ ماؤ نے 1956ء میں پاکستان میں اپنے دوسرے سفیر کو مقرر کرتے وقت کہا تھا کہ پاکستان چین کا ”جنوب مغربی دروازہ“ ہے۔ سابق وزیر اعظم حسین شہید سہروردی اکتوبر 1956ء میں بیجنگ کا دورہ کرنے والے پہلے پاکستانی رہنما تھے اور اْس کے محض دو ماہ بعد ہی چین کے معروف رہنما چو این لائی 10 روزہ دورے پر پاکستان آئے۔ پاک چین تعلقات کے ابتدائی دنوں میں یہ دورے ”باہمی اعتماد“ کی بنیاد رکھنے میں مددگار ثابت ہوئے جو آج دونوں ممالک کی شراکت داری کا مرکز ہے۔ پاکستان اور چین نے 1963ء میں سرحدی معاہدہ کیا، چین نے 750 مربع میل کا علاقہ پاکستان کے حق میں چھوڑ دیا، یہ سرحدی معاہدہ پاکستان اور چین کے تعلقات میں ایک اہم موڑ تھا،اس کی وجہ سے دونوں ممالک کا باہمی اعتماد بڑھ گیا، پاکستان 1964ء میں چین کے ساتھ پروازیں شروع کرنے والا پہلا غیر کمیونسٹ ملک بن گیا، کئی سالوں تک چینیوں نے بین الاقوامی سفر کے لیے پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کا استعمال کیا۔ 1966ء میں شاہراہ قراقرم کی تعمیر کا فیصلہ دونوں ممالک کے تعلقات میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے، اِسی کی بدولت چین کا سنکیانگ صوبہ پاکستان کے گلگت بلتستان سے جُڑ گیا اور آج اِس راستے نے پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کی شکل اختیار کر لی ہے۔ چین نے پاکستان کو 60 کی دہائی کے آخر میں ٹیکسلا میں قائم بھاری صنعت کی صلاحیت کو بڑھانے میں مدد فراہم کی جبکہ 1971ء کے غیر معمولی حالات میں پاکستان کو نہ صرف سفارتی اور سیاسی حمایت فراہم کی بلکہ فوجی امداد بھی جاری رکھی۔ گزشتہ چند سالوں میں پاکستان اور چین نے اپنے اقتصادی تعاون پر خاص توجہ دی ہے۔ چین کے مشہور زمانہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) میں شامل ہونے والے اولین ممالک میں پاکستان بھی شامل تھا، اِس کے پائلٹ پراجیکٹ کے طور پر سی پیک نے قریباً چھ سالوں کے دوران ٹھوس نتائج حاصل کیے اور اب سی پیک پاکستان کی ترقی کا ضامن بن چکا ہے، یہ نہ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ خطے میں علاقائی تجارت اور توانائی کے مرکز کے طور پر ابھرنے میں مدد فراہم کر سکتا ہے۔سی پیک پاکستان اور چین کے علاوہ جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک کے درمیان ایک پْل کا کردار ادا کرے گا جس سے خطے کے تمام ممالک کو تجارتی فائدہ حاصل ہو سکتا ہے۔ چین کے وزیراعظم کی پاکستان میں تین روزہ سرکاری آمد سفارتی محاذ پر پاکستان کے لیے ایک بڑی کامیابی قرار دی جا رہی ہے، یہ دورہ ہر لحاظ سے بہت اہمیت کا حامل ہے بالخصوص ایسے وقت میں جب بھارت پاکستان میں ایس سی او کے سراہان کے اجلاس میں شرکت کے معاملے پرمکمل خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے، پاکستان اسے شرکت کی دعوت دے چکا ہے لیکن اب تک کوئی بھی جواب موصول نہیں ہوا ہے، بس اس کے بعد بھارتی وزیر خارجہ نے اپنی طرف سے مسئلہ کشمیر حل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے مزید بات چیت کا راستہ بند کر دیا۔ ماہرین کے مطابق یہ دورہ خطے میں استحکام برقرار رکھنے اور جنوبی ایشیا میں دیگر طاقتوں کے اثر و رسوخ کا تعین کرنے میں مدد گار ثابت ہو گا۔
پاکستان اس وقت معاشی عدم استحکام کا شکار ہے، سیاسی محاذ پر بھی مسائل کا سامنا ہے، ایسے میں ملک میں بین الاقوامی سرمایہ کاری اور دوستوں کے تعاون سے ہی آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ موجودہ حالات میں چینی وزیراعظم کا دورہ خوش آئند ہے۔ تمام سیاسی و عسکری قیادت کو مل کر اِس دورے کو مفید تر بنانے کا اہتمام کرنا چاہئے،ماضی کی طرح کسی بھی ایسے اقدام سے گریز کرنا چاہئے جس سے اس دورے کے مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے میں رکاوٹ آئے۔ ملک کی معیشت کو مضبوط کرنے کے لئے ہر ایک کو ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے تاکہ روشن مستقبل کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے۔