میرے دادا صوفی غلام مصطفی تبسم 4 اگست 1899 ء کو امر تسر (انڈیا) میں پیدا ہوئے۔ وہ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے وہ بہت خوش قسمت تھے کہ اُن کے دادا دادی اُس وقت حیات تھے یہی وجہ ہے کہ اُن کی زندگی کا ابتدائی دور اُن کی محبت اور مکمل سرپرستی میں گزرا۔ اُن کے دادا کا نام شیخ احمد صوفی تھا۔ صوفی تبسم کے والد کا نام صوفی غلام رسول اور والدہ کا نام فاطمہ تھا۔ صوفی تبسم کے والد اور دادا انتہائی پر ہیز گار اور عبادت گزار تھے اس کے ساتھ ساتھ وہ علم دوست بھی تھے۔ صوفی تبسم جب اپنے بچپن کے واقعات سناتے تو اپنے دادا کو ضرور یاد کرتے اور جذباتی ہو جاتے آنکھوں میں چمک آجاتی تھی۔ دادا اور دادی کی زندگی میں وہ اپنے دادا کے گھر میں ہی رہے انہوں نے ہی اُن کے لئے بہترین اساتذہ کا انتخاب کیا اور ان اساتذہ نے ہی ان میں علم حاصل کرنے کی تحریک کو اُجاگر کئے رکھا۔
ان کے دادا شیخ احمد صوفی نے انہیں ایک مسجد میں بٹھایا جس کے امام ان کے شاگرد تھے۔ انہوں نے کچھ عرصہ وہاں تعلیم حاصل کی اور پھر دادا دادی کے انتقال کے بعد اپنے والد کے گھر منتقل ہو گئے اور وہاں اپنے گھر کے سامنے مطب میں حکیم مفتی غلام رسول جو ان کے دادا کے دوست بھی تھے سے اُردو قاعدہ اور پہلی کتاب پڑھی۔ حکیم مفتی غلام رسول ایک جید عالم تھے۔ صوفی تبسم نے حساب اور لکھائی اپنی والدہ سے سیکھی جب آپ سکول جانے کے قابل ہوئے تو آپ کے والد نے آپ کو اس وقت کی بہترین درس گاہ چرچ مشن ہائی سکول میں داخل کروا دیا۔ یہ ایک کامیاب درسگاہ تھی۔ وہ اپنے سکول بے حد شوق سے جاتے تھے ان کے اساتذہ کی شفقت و محبت کی وجہ سے اپنے سکول سے بے حد محبت کرتے اور موسم خراب بھی ہوتا تو وہ سکول جانے کے لئے زارو قطار رونے لگتے۔ وہ جب چوتھی جماعت میں تھے تو فارسی اور انگریزی کی تعلیم حاصل کرنے لگے اور پھر وظیفے کے امتحان میں ضلع بھر میں اول پوزیشن حاصل کی۔ صوفی صاحب اپنے استاد ماسٹر شبدت سنگھ کو بہت دعائیں دیتے انہوں نے ایک گفتگو میں بتایا کہ ہائی سکول میں میری ایک ایسے عالم بالغ النظر اُستاد سے ملاقات ہوئی جن کی یاد نصف صدی گزرنے پر بھی ویسی ہی تازہ ہے وہ ریاضی کے ماسٹر تھے مگر فارسی بھی پڑھاتے۔ فارسی کے چند ابتدائی اسباق پڑھنے کے بعد گلستان بوستان کا درس شروع ہوا اور پھر سبا نامہ، سکندر نامہ، مثنوی مولانا روم، حافظ تک نوبت آئی وہ تنگ پاجامہ، سفید اچکن اور ہاشم پگڑی باندھ کر لوہے کی کرسی پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ جاتے اور سبق پڑھاتے۔ ان کے ہاتھ میں کوئی کتاب نہ ہوتی انہیں سب ازبر ہوتا تھا۔ انہوں نے اپنے دو اساتذہ معلم قاضی حفیظ اللہ اور ماسٹر اللہ بخش کا ہر جگہ تذکرہ کیا ہے۔ وہ ان اساتذہ کی محنت و شفقت کو ساری عمر بھلا نہ پائے۔ انہوں نے خالصہ کالج امرتسر سے ایف اے 1917-1920ء میں کیا۔ ایف سی کالج سے بی اے 1921-1922ء میں کیا۔ اسلامیہ کالج لاہور سے ایم اے فارسی کی ڈگری 1923-1924ء میں لی اور بی ٹی سنٹرل ٹریننگ کالج میں 1925-1926ء میں اس کی سند حاصل کی۔ یہ مختصر ان کی تعلیمی زندگی کا احاطہ ہے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ انہوں نے بچپن ہی سے قابل اساتذہ سے فیض حاصل کیا اور اپنی زندگی کو سنوارا ساری زندگی محنت کی اپنا نام پیدا کیا اور اپنے دادا دادی اور اپنے ماں باپ کا نام روشن کیا۔ ہم نے بھی انہیں ساری زندگی بے حد محنت کرتے اور مصروف دیکھا۔ کبھی انہیں فارغ بیٹھے نہ دیکھا تھا ہم رات کو سوتے تو وہ جاگ رہے ہوتے تھے اور جب صبح اُٹھتے تو وہ باہر صحن میں میز لگوا کر مختلف اخبارات پڑھتے اور چائے پیتے تھے۔ جب کبھی ہم پر نظر پڑ جاتی تو اپنے پاس بٹھاتے اور کہتے یہ اخبار پڑھو ہم بس ورک گردانی کرتے رہتے۔ صبح صبح اخبار پڑھنے کا شوق انہی کا مرہون منت ہے۔ آج 4 اگست ہے اور اس دن ہمارے گھر میں شادی کا سامان ہوتا۔ بہت دن پہلے سالگرہ کا پروگرام بننا شروع ہو جاتا تھا چھوٹے بڑے سب بہت شوق و ذوق سے سالگرہ منانے کی تیاریاں کرتے جن میں دادا جان کے دوست، شاگرد رشتے دار اور بچے شامل ہوتے۔ ہم سب بچے اپنے والدین سے پیسے مانگتے بلکہ چچا اور چچی حتی کہ دادا سے بھی پیسے مانگتے شرم محسوس نہ کرتے جب ہم سب پیسے جمع کر لیتے تو پھر ان سے ڈوری اور جھنڈیاں خرید کر لاتے اور گوند سے خود رنگ برنگی جھنڈیاں بناتے اور سارے گھر میں آویزاں کرتے اس کے بعد رنگ برنگے غباروں کی باری آتی سب بچے غباروں میں ہوا بھرتے پھر جھنڈیوں میں سب کو ٹانک دیتے ہمارے جیری چچا اس میں ہماری بہت مدد کرتے تھے۔ یوں ہمارا پورا گھر رات کو روشنیوں سے روشن اور رنگ برنگی جھنڈیوں اور غباروں سے خوب سماں باندھ دیتا۔ شام کو مہمانوں کی آمد شروع ہو جاتی جن میں دادا کے شاگرد سب سے آگے ہوتے کشور ناہید، یوسف کامران، اشفاق احمد، بانو قدسیہ، شہزاد احمد، فیض، اعجاز حسین بٹالوی، محمد علی، زیبا علی، غلام علی، فریدہ خانم جی، نذیر بیگم قریبی دوست اور ہمسائے سید وقار عظیم، سلیم گیلانی، رضا بدخشانی، قریبی رشتہ دار شامل ہوتے اور اس بھرپور محفل سے لطف اندوز ہوتے۔ پر تکلف عشائیہ کے بعد غزل کی محفل سجتی جس میں تمام گلوکار اور موسیقار، اس میں اپنے فن کا مظاہرہ کرتے یوں رات گئے اس خوبصورت محفل کا اختتام ہوتا۔ میرے والد پروفیسر صوفی گلزار احمد دادا ابا کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد بھی ان کی سالگرہ مناتے رہے۔ آج میرے والد بھی جا چکے ہیں مگر میں ہمیشہ اس دن صوفی تبسم اکیڈیمی میں دادا ابا کے چاہنے والوں کو بلا کر سالگرہ مناتی ہوں تاکہ ان کی یادیں ہمیشہ تازہ رہیں۔ ہم سب اور ہماری نئی نسل ان کی یادوں کو سمیٹ کر یونہی آگے بڑھتی رہے۔
مہتاب سے چہرے تھے ستاروں سی نگاہیں
ہم لوگ انہی چاند ستاروں میں پلے ہیں
صوفی تبسم