ہم اپنی ہر صبح کا آغاز چائے کی پیالی سے کرتے، پچھلے سارے دن کی کارگزاری پر نظر ڈالتے، مسئلے مسائل سنتے، ایک دوسرے کو مشورہ دیتے، نئے پروگرام بناتے

Jul 06, 2024 | 01:12 AM

مصنف:محمد سعید جاوید
قسط:322
خوش قسمتی سے مجھے بہت ہی اچھے ساتھی مل گئے تھے۔ میرے دو اور ساتھی ایڈمنسٹریٹر تھے جن میں سے ایک مسز عائشہ ملک،جو امریکہ سے تعلیم یافتہ تھیں اور بہت ہی سلجھی ہوئی، محنتی اور ذہین خاتون تھیں۔ اچھے خاندان سے تعلق رکھنے کے باوجود ان پر غرور کا شائبہ تک نہ تھا، اتنی با اخلاق تھیں کہ کسی کو ڈانٹنا بھی ہوتا تھا تو ایسا لگتا تھا کہ وہ اسے کھانا کھا کر جلدی سو جانے کا کہہ رہی ہیں۔انہیں اپنے کام پر بڑا عبور تھا۔عملے میں بھی وہ بہت مقبول تھیں۔
دوسرا ساتھی ڈاکٹرخان تھا جو ابھی جوان ہی تھا، لیکن اس عمر میں وہ بے حد محنتی، ذہین اور زبردست منتظم تھا۔ ہسپتال سے متعلق ہر قسم کے علم پر اسے عبور حاصل تھا اور وہ گھنٹوں اس پر سیر حاصل گفتگو کر سکتا تھا۔ عموماً بہت کم ڈاکٹر ایسے ہوتے ہیں جو اپنے پیشے کے علاوہ کسی دوسرے موضوع میں دلچسپی لیں، لیکن ڈاکٹر خان کو جتنا شعور اپنے میدان عمل میں تھا اتنا ہی عبور اس کو ملکی سیاست، تاریخ، جغرافیہ اور اردو یا انگریزی ادب پر بھی تھا۔فارغ وقت میں اس کے ہاتھ میں کتاب رہتی تھی۔ ایک اور بھی ساتھی تھے، لیکن ان کی کام میں دلچسپی برائے نام تھی اور وہ مختلف سر گرمیوں میں مبتلا رہے۔
ہم اپنی ہر صبح کا آغاز چائے کی ایک پیالی سے کرتے، اس دوران پچھلے سارے دن کی کارگزاری پر نظر ڈالتے اور مسئلے مسائل سنتے، ایک دوسرے کو مشورہ دیتے، نئے دن کے پروگرام بناتے، اور پھر اپنے اپنے کام میں جٹ جاتے۔سیاسی داؤ پیچ پر ہم یقین نہیں رکھتے تھے، میں اور عائشہ توبیرون ملک میں رہنے کی وجہ سے وطن کی مقامی سیاست کو سمجھ ہی نہ سکتے تھے اور ڈاکٹر خان یہ سب کچھ سمجھتا تھا لیکن اس کے پاس ان فضول کاموں کے لیے اتنا وقت ہی نہیں تھا۔ ہم تینوں نے اپنے آپ کو ہر قسم کی بداعمالیوں اور مالیاتی بد عنوانیوں سے پوری طرح محفوظ رکھا ہوا تھا اس لیے جو بھی فیصلے کرتے سراسر ہسپتال کے مفاد میں ہی ہوتے تھے، ذاتی فائدے کا کبھی کسی نے سوچا بھی نہیں تھا۔ ہم اپنے کام اور ترقی کی رفتار سے بے حد مطمئن تھے۔ ہسپتال میں سب جگہ موزوں ملازمین آ گئے تھے جو اچھا علم اور نظم و نسق اپنے ساتھ لائے تھے۔ تھکے ہوئے اور غیر موزوں لوگوں سے ہم نے ایک خاص حکمت عملی کے تحت آہستہ آہستہ نجات حاصل کر لی۔ اس دوران اعلیٰ انتظامیہ کو بے تحاشا مہنگائی کا احساس دلا کر ہسپتال کے ملازمین کی تنخواہوں میں خاطر خواہ اضافہ بھی کرا لیاگیا، اور اچھی کارکردگی دکھانے والے ملازموں کو سالانہ اور خصوصی ترقیاں دینے کا سلسلہ بھی شروع کیا گیا۔ جس سے ان کا رویہ بہت بدلا اور ان کی کار گزاری قدرے بہتر ہو گئی۔
ہسپتال اپنی ترقی کی منزلیں تیزی سے طے کر رہا تھا، جس کا بڑا سبب ہسپتال کے قابل ترین ڈاکٹروں، مؤثرانتظامیہ اور ماتحت عملے کی انتھک محنت تھی، اعلیٰ انتظامیہ نے بھی قدم قدم پر بہت تعاون کیا اور ہماری مسلسل رہنمائی کی۔ان کی طرف سے اپنی اہمیت کا اعتراف ہوتے ہی سب نے بہت محنت، لگن اور ایمانداری سے اپنا کام کیا اور اعلیٰ معیار کی خدمات کو عروج تک پہنچا دیا۔ ہم نے بھی ہمیشہ عملے کی ان کاوشوں پر داد و تحسین دینے میں فراخدلی سے کام لیا۔ گو کچھ ساتھی سمجھانے کے انداز میں کہتے رہتے تھے کہ آپ ان ملازمین کو زیادہ سر پر نہ چڑھائیں کل کو یہ آپ کے لیے مسئلہ بن سکتے ہیں۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا، یہ بھی ہمیں مینجمنٹ کی تعلیم کے دوران بتایا گیاتھا کہ جب تک ماتحت عملے کے افراد اپنی ملازمت اورمستقبل کے حوالے سے ذہنی طور پر مطمئن نہیں ہوں گے، آپ ان سے کام تولے سکتے ہیں لیکن وہ کوئی معجزے نہیں دکھا سکیں گے۔ہماری کوشش ہوتی تھی کہ جہاں کہیں بھی ممکن ہو ان کے سرکاری اور ذاتی مسائل فوری طور پر حل ہو جائیں۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزیدخبریں