سیاسی  توازن  اور گڈ گورننس (بائیسواں حصہ)

Jun 06, 2024 | 11:44 AM

سردار پرویز محمود

اپنی اس تحریر میں راقم ایک  تصور یا اصطلاح کو زیر بحث لاے گا۔ اس اصطلاح کو ہم پروفیشنل مائینڈ سیٹ کہہ سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں  پروفیشنل کے معانی اور مفہوم پیشہ ور انہ کے لیے جاتے ہیں۔ مثلاً  لوگ بات کرتے ہوئے حوالہ دیتے ہیں کہ فلاں ملک کی امیگریشن کیلئے شرط ہے کہ امیدوار  پروفیشنل ہو۔ مزید یہ سمجھا جاتا ہے، ہائی سکلڈ یا ہنر مند ہو  جس چیز کو ہم نے ترقی یافتہ دنیا میں مشاہدہ کیا ہے وہ  پروفیشنل اپروچ یا مائینڈ سیٹ ہے۔جاب یا کام کوئی سا ہو، اسے پوری توجہ، تندہی، لگن اور سوفیصد سے بڑھ کر کرنے کی کوشش کو پروفیشنل  اپروچ کہا جاسکتا ہے۔

اب ہمارے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ جاب کو سوفیصد سے بڑھ کہ کیسے کیا جاسکتا ہے؟ اس ضمن میں عرض یہ  ہے کہ نوکری یا کام کرتے ہوئے انسان کا جسم اور دماغ  استعمال ہورہے ہوتے ہیں۔ دماغ کے کام میں ایک شعبہ نئی تدبیر اور تکنیک  نکالنے اور استعمال کرنے کا بھی ہوتا ہے جسے جدت(innovation) کہہ سکتے ہیں، اسی سے ہی امپرووا ئیزیزیشن ممکن ہے۔ نئی تدبیر لانے سے ہم اپنی ملازمت کو سو  فیصد سے بڑھا سکتے ہیں۔ میری دانست میں راقم نے یہ  رحجان تر قی یافتہ دنیا میں بڑھ چڑھ کر دیکھا ہے۔ کوئی سا بھی کام ہو، پروفیشنل اپروچ اس کام اور ذمہ داری کو چار چاند لگا دیتی ہے۔ اپنی جاب یا کام کو  انجوائے کرنے کی روش بھی ہمارے مشاہدے کا حصہ ہے۔ یہ جاب یا کام کو انجوائے کرنے کی روش یا ماحول ترقی  یافتہ دنیا کا خاصہ ہے۔ سوچیئے تو سہی کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے  اور قانون سازی کرنے والے  ادارے دونوں پروفیشنل اپروچ  رکھتے ہوں تو لا  اینڈ آرڈر کی کیا صورت نظر آئے گی۔
ٓاپنی جاب یا کام مکمل کرنے کے بعد ایک اطمینان اور مسرت کا ہونا کن عناصر پر منحصر ہے؟ ہم نے پڑھا اور سنا ہے کہ حلال روزی کمانا عین  عبادت ہے ۔ ترقی یافتہ دنیا نے مذہب کے بارے میں بتا رکھا ہے کہ  مذہب آپ کا ذاتی معاملہ ہے۔ اسکو جاب ایتھیکس یا  ورک  ایتھیکس کا حصہ بناے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر سوچا جاے تو اپنے خالق  کے ساتھ تعلق واقعی انسان کا ذاتی معاملہ ہی ہونا چاہیے۔ لیکن جاب یا کام کا تعلق باقی عوام اور مخلوق سے ہوتا ہے۔ اس میں ڈنڈی مارنے کا مطلب ہے ہم اپنے ساتھ رہنے والے انسانوں سے۔ اور اپنی سوسائٹی سے دھوکا کررہے ہیں۔ ہم نے عرض کیا کہ جب ترقی یافتہ دنیا  میں مذہب آپ کی جاب  ایتھیکس اور  ورک  ایتھیکس کا حصہ نہیں ہوتا تو کیا چیز لوگوں کو جاب اور کام پر پروفیشنل اپروچ دیتی ہے؟  یا  دیانتدا ر رکھتی ہے؟ 
ایک  بات کا  ہم ذکر کرتے چلیں کہ ترقی  یافتہ دنیا میں کسی کام کو کم تر  اور کسی کام کو اعلیٰ تر سمجھنے کا رحجان نہیں ہے۔ترقی یافتہ دنیا نے ہمیں بتایا ہے کہ کام یا  جابز اکثر چیلنجنگ ہوتے ہیں َ۔ اس بات سے کیا مراد ہے؟ اس سے مراد یہ ہے کہ آپکو اپنے کام یا جاب میں ایسی مشکل پڑسکتی ہے بلکہ اکثر پڑتی ہے۔ جو پہلے نہیں دیکھی ہوتی۔ اگر آپ پوری لگن اور محنت سے یعنی پروفیشنل اپروچ  کے مالک ہیں تو آپ اس مشکل کا بہترین حل ڈھونڈھنے کی کوشش کریں گے  اور آپ کا ورک مورال، آپ کی ہمت اور اپنے کام سے لگن جسے ہم پھر پروفیشنل اپروچ کہیں گے۔ آپ کو  مذکورہ مشکل کا بہترین حل نکالنے میں کارآمد ثابت ہوگی۔
ہم آپ سے ترقی یافتہ دنیا کے قانون ساز  اداروں میں بیٹھنے والے نمائیندوں کے بارے میں بتاتے ہیں۔ ان کے فرائض میں ایک کام یہ  ہے کہ اپنے جدید ترین شہروں کو پرامن رکھیں۔ انہیں ترقی کی راہ پر گامنزن رکھیں۔ قانون سازی کو اپ ڈیٹ رکھیں۔ اگر قانون سازی کا کوئی حصہ بوسیدہ ہوگیا ہے۔ اور  انوویشن کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر میں بہہ گیا ہے تو بر وقت اس قانون سازی میں ترمیم کریں یا اسے  اپ ڈیٹ کریں۔ اس اپ گریڈیشن میں تاخیر آپ کی سٹیٹ، آپ کے ملک اور سوسائٹی کو اپنے ہم عصروں سے پیچھے دھکیل دے گی۔ آپ نے ریس میں رہنا ہے تو بھاگنا ہے۔ بھاگیں گے نہیں تو پیچھے رہ جائیں گے۔ پھر دوسروں کی منت کریں گے کہ آپکو سہارا  دے کہ  فلاں موڑ تک لے جائیں۔ آپکی عزت نفس مجروع ہوگی۔ آپکی محتاجی بڑھتی جاے گی۔ اور آپ آپس میں لڑپڑیں گے۔
دنیا بھر میں آن لائن  روولوشن اس  قدر سرپرائیزنگ ہے کہ سپر پاور  جس کی انٹرنیٹ کمپنیاں،  فیس بک،  ایکس، یوٹیوب، گوگل  وغیرہ  کے سی اوز کو امریکی قانون ساز  ادارے اکثر طلب کرکہ کٹہرے میں کھڑا کرتے ہیں۔ اور  بار  بار ان سے  پوچھتے ہیں کہ یہ جو طوفانی کمپنیاں آپ چلا  رہے ہیں۔ یہ آپ کے کنٹرول میں ہیں کہ نہیں؟  وہ  واپس جواب دیتے ہیں کہ یہ آن لائن کمپنیاں قانون کے مطابق کام کررہی ہیں۔ آپ بتائیں کہاں قانون کی خلاف ورزی ہورہی ہے؟ قانون ساز  ادارے مستقل پریشر میں رہتے ہیں کہ ریگولیٹر اپ ڈیٹ کیے جائیں۔ لیکن  یہ انوویشن کی  ریس گویا قابو میں آ رہی تھی کہ ایک بہت ہی طوفانی تبدیلی اور  روولوشن نے کروٹ لی ہے۔اس کا نام آرٹی فیشل انٹلی جینس ہے۔ اب جو معاشرے اور سٹیٹس آن لائن روولوشن پر قانون سازی کو پہاڑ سمجھتی تھیں وہ اس نئے طوفان کو کیسے سمیٹے گی؟ یاد رہے کہ قانون سازی سے مراد  ہرگز نہیں ہے کہ آپ نئی ٹیکنالوجی  اور  فیچرز  پر پابندی لگادیں اور  ترقی یافتہ دنیا ساری اس پر بیٹھی ہو اور فائدہ اٹھا رہی ہو۔ اسکی مثال ایسے ہی ہے کہ چوہا بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کرلے اور یہ سمجھے کہ بلی اسے اب نہیں دیکھ سکتی۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ سپر پاور  اور  نیم سپر پاورز کی کمپنیوں پر پابندی یا جزوی پابندی کا نام قانون سازی نہیں ہے۔ صدارتی آرڈی نینس ایک عبوری یا عارضی کاوش ہوتی ہے۔ اگر آپ نے اہل نمائیندے منتخب کرکے ایوانوں میں بھیجے ہیں تو وہ  نئی ٹیکنالوجی اور روولوشن کو فلٹر کریں گے؟ اور  انتہائی  باریک بینی سے نقصان دہ حصو ں کو لگا م دیں گے۔بغیر پراپر اور تفصیلی قانون سازی کے جو کہ محنت طلب ا ور  پروفیشنل اپروچ مانگتی ہے۔ قانون  نافذ کرنے والے اداروں پر پریشر ڈالا جاتا ہے کہ انٹر نیٹ کو سلو کردیں یا وقفوں میں بند کرنا شروع کردیں۔بزنسز اور کاروبار  زندگی کو اس کا کتنا نقصان ہوتا ہے؟  اس کا حجم اور سکیل بہت بڑا ہے۔ اس میں بھی ملک اور سٹیٹ کا ہی نقصان ہے۔  
اللہ ہمارا  حامی  اور  ناصر  ہو۔

۔

نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

 ۔

 اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔

مزیدخبریں