سیاست اور رواداری

Mar 06, 2024

محمد علی یزدانی

  سیاست ہمارے معاشرے کا ایک اہم شعبہ ہے جو ایک معاشرت کی حیات و معیشت پر مشتمل ہوتا ہے اور اسے متاثر بھی کرتا ہے۔ اس میں رواداری کا کردار بہت اہم ہوتا ہے، جو عوام کے مفادات کی حفاظت اور ترقی کے لئے ضروری ہے۔ رواداری کا مطلب ہے کہ سیاستدان اپنے عوام کے مفادات کو پہلے رکھتے ہیں اور ان کے لئے کام کرتے ہیں۔

سیاست میں رواداری کی اہمیت بہت زیادہ ہے اور سیاست دان کی رواداری کا مطلب ہے کہ عوام۔کیلئے کسی حد تک بھی جا سکتا ہے۔ ایک روادار سیاستدان عوام کے مسائل کو سمجھتا ہے اور ان کے حل کے لئے کوشش کرتا ہے۔ وہ عوام کی آواز بنتے ہیں اور ان کی پرواہ کرتے ہیں۔ ایسے سیاستدانوں کا عوام کی نظر میں اعتماد بڑھتا ہے اور معاشرتی امن و امان میں بہتری آتی ہے اور یہی رواداری والا رویہ ان کے کارکنان میں بھی منتقل ہوتا ہے۔

جب سیاست میں رواداری ہوتی ہے تو پھر ملکی مسائل بھی حل ہوتے ہیں اور سیاسی استحکام پیدا ہوتا ہے۔ایک مثالی روادار سیاستدان کا نمونہ وہ ہوتا ہے جو اپنے وعدوں کو پورا کرتا ہے، عوام کی دل جوئی کرتا ہے اپنی انا کو اس میں آڑے نہیں آنے دیتا، اور مختلف طبقات کے لوگوں کو برابری اور انصاف کا سلسلہ فراہم کرنے کیلئے معاشرے کے ہر طبقے سے بات کرتا ہے۔ اس طرح کے سیاستدان عوام کے دلوں میں احترام کا مقام حاصل کرتے ہیں اور ان کا اعتماد جیتتے ہیں۔

سیاست میں روادی اور وضع داری کے فوائد بھی بے حد ہوتے ہیں۔ ایک روادار سیاستدان کی حکومت میں عوام کی خوشحالی اور ترقی کا راز پوشیدہ ہوتا ہے۔ وہ عوام کو انصاف اور مساوات فراہم کرتے ہیں، معاشرتی بنیادوں کو مضبوط بناتے ہیں، اور ملک کی ترقی اور ترقی کے لئے ضروری اقدامات کرتے ہیں۔ مفادات کی سیاست کے نتائج بہتر نہیں ہوتے۔ایسے سیاستدان جو صرف اپنے مفادات کی خاطر کام کرتے ہیں، عوام کی نفرت اور معاشرتی بحران کا باعث بنتے ہیں۔ان کی بے توجہی کے نتائج ملک کو نقصان پہنچاتے ہیں اور عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

 ہم نے گزشتہ دنوں اسمبلی میں سیاست دانوں کو ایک دوسرے پر آوازیں کستے ہوئے سنا، خصوصا پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں نے اپنے حریف سیاست دانوں پر اسمبلی میں حلف اٹھاتے ہوئے چور، ڈاکو کی آوازیں لگائیں اور اسمبلی کا ماحول ایسے بنائے رکھا جو بظاہر لگتا ہے کہ آگے چل کر یہ ایوان کم مچھلی منڈی کا منظر زیادہ پیش کرے گا۔پی ٹی آئی کو سیاست میں وضع داری کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیئے کیونکہ اسی وضع داری کو داغ مفارقت دینے کی وجہ سے ہی ان پر آج مشکلات ہیں کہ ان کے لیڈر پابند سلاسل ہیں اور اس کے علاوہ ان کی پارٹی پر قدغن لگائی گئی ہیں، اگر وضع داری کا دامن نہ چھوڑا جاتا تو نہ ہی ان پر یہ مشکلات آتیں اور نہ ہی ان کی گذشتہ حکومت کو وقت سے قبل رخصت ہونا پڑتا۔اب اگر پی ٹی آئی مولانا فضل الرحمن کے در پر امداد کیلئے گئے، اگر ماضی میں انہوں نے مولانا کے متعلق بیہودہ گفتگو نہ کی ہوتی تو انہیں یوں یہ شرمندگی نہ اٹھانا پڑتی اور نہ ہی انہیں اس پر تنقید کا نشانہ بننا پڑتا۔سیاست تو کچھ لو اور کچھ دو کا ہی نام ہے یہ کوئی ذاتی دشمنی نہیں ہوتی بلکہ عوام کے مفادات کو تحفظ دینے کو ہی سیاست کہتے ہیں۔ ماضی کی مثال دوں تو  نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم کی شخصیت کا کرشمہ تھا کہ اپنے پرائے سب ان کے پاس جا کر ایک ہو جاتے تھے،

ایم آر ڈی یا اے آر ڈی کی تحریک ہو تمام سیاست دان نوابزادہ کی وضع داری کی بدولت جمع ہوتے اور ایسے سیاست دان جو ایک دوسرے کو دیکھنا پسند نہیں کرتے تھے لیکن نوابززاد نصراللہ خان کے پاس جا کر ایک دوسرے سے ہاتھ ملا رہے ہوتے تھے اور حکومت کیخلاف تحریک چلانے کیلئے تدبیریں بنا رہے ہوتے تھے۔اس طرح کے مواقع اور حالات تب ہی پیدا ہو سکتے ہیں اگر ہم حریفوں کی تکریم کریں ان کو عزت دیں گے، بھلے حریف کی سیاست سے اختلاف کریں لیکن حریفوں کے نام مت بگاڑیں، انہیں بیہودہ القابات سے نہ پکاریں ان کی پالیسیوں سے طور طریقوں سے اختلاف کریں لیکن سیاست کو ذاتی دشمنی میں نہ بدلیں اور جس طرح مریم نواز نے وزیراعلٰی بننے کے بعد اپوزیشن لیڈر رانا آفتاب کے پاس جا کر مل کر چلنے کی بات کی ہے یہ احسن اقدام ہے۔سیاست میں رواداری کی اہمیت کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا ضروری ہے کیونکہ اگر لڑائی جھگڑوں کا محول ہماری اسمبلیوں میں رہے گا تو پھر ان اسمبلیوں سے عوام کی فلاح و بہبود کیلئے قانون سازی نہیں  ہو گی بلکہ حریفوں کو قابو کیسے کرنا ہے اس طرح کی سازشیں تیار ہوں گی جو کسی صورت بھی عوام کے مفاد میں نہیں ہے۔

مزیدخبریں