قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 102

Nov 06, 2017 | 10:30 PM

 نریش کمار شاد بے حد ذہین آدمی تھے۔ اس نے اپنی زندگی خود ضائع کی اور اگر وہ زندہ رہتا تو اس کا ادب میں بہت بلند مقام ہوتا۔ اتنی چھوٹی عمر میں بھی اس نے جو کچھ لکھا وہ ایسا نہیں ہے کہ اسے نظر انداز کر دیا جائے۔ اس نے غزل ، نظم، قطعات ، خاکے اور لطائف تک مرتب کئے اور ان تمام چیزوں میں اس کا اپنا ایک انداز تھا۔ وہ چھوٹی موٹی ملازمت کرتا تھا اور زیادہ تر مشاعروں پر انحصار تھا۔ دہلی میں کنور مہندر سنگھ بیدی، نریش کی بہت سر پرستی کرتے تھے۔ انہیں اس کی شکایتیں بھی آتی تھیں لیکن وہ جانتے تھے کہ اس کے کچھ COMPLEXES ہیں ۔ اس کی بنا ءپر وہ شراب بھی پیتا تھا اور بے احتیاطیاں بھی کرتا تھا۔ اس لیے وہ اسے بچا لیتے تھے۔ آخر دم تک یہی رہا اور جب وہ مر گیا تو اس کی بیوی اور بچوں کی کفالت کا بھی کنور مہندر سنگھ بیدی نے مناسب انتظام کیا۔
نریش کمار شاد ایک ا چھا شاعر ہی نہیں تھا بلکہ وہ حاضر جواب بھی تھا۔ ایسا جملہ کہتا تھا کہ اس کی کاٹ دیر تک محسوس ہوتی تھی۔ اگر کوئی اس پر جملہ کستا تھا تو وہ اس کا بہت ٹھاٹھ کا جواب دیتا تھا۔ یہ 1955 ءمیں لاہور میں آئے اور بہت دنوں تک میرے پاس ٹھہرے ۔ پھر ہم ایک ساتھ راولپنڈی بھی گئے۔ اس زمانے میں شراب کا چلن تو تھا ہی اور پھر انڈیا کا شاعر آجائے تو خصوصی محفلیں منعقد ہوتی تھیں۔ اب ان کی حاضر دماغی کا ایک واقعہ بتاتا ہوں۔
ہمارے ایک بہت عزیز دوست راولپنڈی میں رہتے ہیں۔ بہت آزاد خیال ، لبرل اور غیر متعصب ہیں۔ اس دن خدا جانے انہیں کیا ہو کہ نریش کمار شاد بیٹھا ہوا کچھ دوستوں کے ساتھ ایک میز پر کھانا کھا رہا تھا کہ میرے اس دوست کو جانے کیا سوجھی اور کہنے لگا کہ نریش کمار جی ! معلوم ہے آپ کیا کھا رہے ہیں۔ سب لوگ پئے ہوئے تھے۔ نریش نے جواب دیا کہ کھانا کھا رہے ہیں۔ کہنے لگے کہ نہیں تمہاری پلیٹ میں کیا ہے۔ نریش نے کہا کہ تم ہی بتا دو۔ کہنے لگا کہ یہ گائے کا گوشت ہے جو تم کھا رہے ہو۔ نریش نے کہا اچھا ۔ یار میں تو اسے سﺅر کا گوشت سمجھ کر کھا رہا تھا۔ چلو کوئی حرج نہیں۔ اگر تم میرے ساتھ مل کر سﺅر کا گوشت کھا سکتے ہو تو میں بھی تمہارے ساتھ مل کر گائے کا گوشت کھا سکتا ہوں۔ آخر ہم دوست ہیں۔ اس کے بعد ہمارا وہ دوست اتنا چپ ہوا کہ اس سے کوئی جواب نہ بن پایا۔
سب لوگ ہی سناٹے میں آگئے تھے۔ یہ اتنا حساس معاملہ تھا کہ اس پر ہندو مسلم فسادات ہو جاتے ہیں ۔ لیکن وہاں امن رہا۔ ویسے بھی نریش کمارے شاد نے یہ جواب ایک ہندو کے طو ر پر نہیں دیا تھا بلکہ ایک جواب کے طور پر دیا تھا۔ جیسا سوال تھا ویسا ہی جواب تھا۔ متعصب دونوں ہی نہیں تھے۔ جب کبھی شراب اس طرح بولتی ہے تو لوگوں کا اعتراض بجادکھائی دیتا ہے۔ چنانچہ اس روز بھی شراب CLIMAX لوگوں نے دیکھا۔
جس طرح میں نے بتایا ہے کہ محمود اختر کیانی علامہ اقبال کے خلاف رائے زنی سے چڑتے تھے۔ اسی طرح ہمارے ایک میوزک ڈائریکٹر رشید عطرے تھے۔ ان کی پینے کے بعد یہ عادت تھی کہ وہ ہیرپھیر کر اپنے والد کا نام بات میں لے آتے تھے اور یونہی ان کے ساتھ کسی واقعہ کو منسلک کر کے بات کرنے والے سے لڑنے لگتے تھے ۔ ایک دن مال روڈ پر ”ونڈر لینڈ “ نامی کھلونوں کی دوکان کے پیچھے منٹو صاحب کے کمرے میں میں، رشید عطرے، منٹو صاحب اور ایک دو اور آدمی موجود تھے۔ شاعرروں اور مصوروں کی باتیں چل نکلیں تو بات گویوں تک جا پہنچی ۔ مولانا ابوالکلام آزاد کا ذکر آیا کہ وہ جس فن پر نظر ڈالتے تھے تو اسے پی جاتے تھے اور اس کے بارے میں اتنی معلومات حاصل کر لیتے تھے کہ پوری گفتگو کر سکتے تھے۔

قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 101


روایت یہ ہے کہ کسی بڑے گویے کے پاس بیٹھے ہوئے انہوں نے کسی فنی نقطہ پر گفتگو کرنا چاہی۔ جیسے کہ صاحب فن لوگ غیر صاحب فن لوگ کی بات کو وقعت نہیں دیتے اور یہ بات خاص طور پر اہل موسیقی میں ہے ۔وہ دوسرے کو عطائی سمجھ کر اس کی تحقیر کرتے ہیں۔ اور سمجھتے ہیں کہ فن موسیقی صرف انہی کی میراث ہے ۔ وہاں ہم سب میں مولانا آزاد کے حوالے سے یہ گفتگو ہو رہی تھی کہ مولانا نے جب کوئی فنی نقطہ بیان کیا تو اس گویے نے کہا کہ مولانا آپ اس معاملے کو چھوڑ یئے۔ آپ عالم دین ہیں آپ کو موسیقی سے کیا تعلق ۔ آپ اس میں کیوں ٹانگ اڑا رہے ہیں۔ مولانا کو یہ بات چبھی ۔ اس کے بعد انہوں نے علم موسیقی کو پڑھا اور اس کے بارے میں بہت حد تک پریکٹیکل بھی کیا۔ اس کے بعد وہ پھر اس شخص کے پاس گئے اور اس سے اس موضوع پر گفتگو کی اور ثابت کیا کہ تم اس بارے میں کچھ نہیں جانتے ہو۔ یہ بات ہو رہی تھی کہ رشید عطرے اچانک بھڑک اٹھے اور کہنے لگے کہ منٹو صاحب ! آپ کو میرے باپ کی توہین کرنے کا کوئی حق نہیں ہے ۔ منٹو صاحب نے کہا کہ ہم ابوالکلام آزاد اور ایک گویے کی بات کر رہے ہیں تمہارا باپ کہاں سے آگیا ۔ کہنے لگے کہ براہ راست تو کوئی تعلق نہیں لیکن جب آپ ابوالکلام آزاد کی تعریف کریں گے تو ظاہر ہے کہ میرے باپ کی بے عزتی ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ ان کی بے عزتی کیسے ہو گی۔کہنے لگے ایسے ہو گی کہ میرا باپ بھی موسیقی سے تعلق رکھتا ہے۔ پھر رشید عطرے کہنے لگے کہ میرا باپ فن میں ابوالکلام آزاد سے بڑا تھا۔ منٹو صاحب نے کہا کہ وہ بڑا ہو گا لیکن اب تم ہم سے کیا چاہتے ہو۔ کہوتو لکھ کر دے دیں۔ عطرے صاحب اب پیچھا چھوڑنے میں نہ آئیں۔ منٹو صاحب پہلے تو ٹالتے رہے۔ اس کے بعد انہوں نے ان کے والد صاحب کے بارے میں صرف ایک ہی جملہ ایسا بیان کیا کہ رشید عطرے چپ ہو گئے۔ لیکن اس چپ ہونے کے بعد عطرے صاحب نے کتنے دنوں تک منٹو صاحب سے بات نہیں کی۔حالانکہ دونوں دوست تھے۔ پھر ایک بار عطرے صاحب کو دیکھا۔ پارٹیشن کے بعد دلیپ کے بھائی ناصر یہاں آئے ہوئے تھے وہ یہاں کچھ دیر رہے اور فلموں میں کام بھی کیا۔ پھر یہاں اپنی ایک فلم بھی بنانے لگے ۔ اس کے میوزک ڈائریکٹر رشید عطرے تھے۔ اور میں اس فلم کا نغمہ نگار مقرر ہوا۔ کچھ کام ہوا۔ لیکن بعد میں انہوں نے فلم بنانے کا ارادہ ترک کر دیا۔ لیکن یہاں ایک ڈیڑھ ماہ خوب محفلیں رہیں۔
یہاں بھی عطرے صاحب کے ساتھ ایک شام اسی طرح کی گزری جس طرح منٹو صاحب کے ساتھ گزری تھی۔ اس شام ناصر خان نے کہیں میوزک ڈائریکٹر سجاد کا ذکر چھیڑ دیا۔ اور کہا کہ وہ بہت باکمال آدمی ہے اور غزل بناتا ہے تو کمال کر دیتا ہے ۔ پھر کہا کہ وہ ایک ساز ”سرود “ اتنا اچھا بجاتا ہے کہ ہندوستان میں اس کے مقابلے کا کوئی آدمی نہیں۔ اس پر رشید عطرے بھڑک اٹھے اور کہنے لگے کہ ناصر خان ! ہر چیز کی کوئی حد ہوتی ہے ۔ آپ میرے باپ کی بے عزتی کر رہے ہیں۔ ناصر خان نے کہا کہ وہ کیسے ۔ کہنے لگے کہ آپ کو معلوم نہیں کہ میرا باپ جو ہارمونیم بھی بجاتا تھا اس جیسا ہارمونیم کوئی ساری دنیا میں نہیں بجا سکتا تھا۔ ناصر نے کہا کہ وہ بجاتے ہوں گے۔ آپ کے باپ ہمارے باپ ہیں لیکن میں سرور کی بات کر رہاں ہوں۔ اگر میں کہوں کہ وہ آپ کے والد سے اچھا سرود بجاتے تھے تو آپ کے والد کی بے عزتی ہو ۔ رشید عطرے کہنے لگے کہ نہیں آخر ساز کی بات ہے۔ میرے والد سے اچھا ساز کوئی نہیں بجاتا تھا۔ وہ اگر سرود بھی بجاتا تو بہت اچھا بجاتا ۔ انہوں نے کہا بھئی اتفاق سے وہ سرود نہیں بجاتے تھے۔ چنانچہ وقتی طور پر ان میں ناراضگی ہو گئی لیکن ممبئی سے جو لوگ آئے تھے ان کے ساتھ ناراضگی بھی جلد ہی صلح میں تبدیل ہو جاتی تھی۔ چنانچہ رشید عطرے کی یہ عادت تھی کہ جب وہ پی کر آﺅٹ ہو جاتے تھے تو انہیں اپنے والد یاد آجاتے تھے۔ والد کا احترام اچھی بات بھی ہے لیکن ضرورت سے زیادہ احترام بھی کبھی کبھی بدمزگی کا باعث بن جاتا ہے۔(جاری ہے)

قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 103 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

مزیدخبریں