شرح سود میں کمی ایک خوش آئند اقدام

Nov 06, 2024

ایس ایم تنویر 

حکومت کی جانب سے شرح سود میں 2.5 فیصد کمی کا حالیہ فیصلہ پاکستان کی معیشت کو فروغ دینے کے لیے ایک بروقت اور انتہائی ضروری اقدام ہے، اس کمی سے نجی شعبے کو ریلیف ملے گا، جسے قرض لینے کی بلند شرح سود کا سامنا تھا یہ  اقتصادی ترقی کو تیز کرنے میں معاون ہو گا۔

کم شرح سود کے اثرات کثیر جہتی ہوں گے۔ یہ اخراجات اور سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرے گا، جس سے مجموعی طلب اور اقتصادی ترقی میں اضافہ ہوگا۔ مزید برآں، سود کی کم شرح بچت کی ترغیب کو کم کرے گی، قرض لینے کو مزید دلکش بنائے گی اور صارفین کے اخراجات میں اضافہ کرے گی۔سود کی کم شرح کاروباری اداروں کے لیے کریڈٹ تک رسائی، اپنے کاموں میں سرمایہ کاری اور اپنی پیداوار کو بڑھانے میں آسانی پیدا کرے گی۔جیسے جیسے کاروبار بڑھیں گے، وہ روزگار کے نئے مواقع پیدا کریں گے، بے روزگاری کو کم کرنے میں مدد کریں گے۔تاہم ملکی نجی شعبہ شرح سود میں مزید کمی کا متمنی ہے۔ میرے اندازے مطابق دسمبر 2024 میں بینکوں کی شرح سود گھٹ کر 12.5 فیصد اور جون 2025 تک مزید کم ہو کر 9 فیصد یعنی سنگل ڈیجٹ میں آ جانی چاہیے۔ان شرحوں کو حاصل کرنے کے لیے حکومت اور نجی شعبے کے درمیان مسلسل تعاون کی ضرورت ہوگی۔

شرح سود میں کمی کا حکومتی فیصلہ معاشی ترقی اور ترقی کو فروغ دینے کے عزم کو ظاہر کرتا ہے۔ ہم اس اقدام کو سراہتے ہیں اور مزید سازگار کاروباری ماحول پیدا کرنے کے لیے مل کر کام کرنے کے منتظر ہیں،اس کے ساتھ ساتھ کارکردگی کو بڑھانے اور اخراجات کو کم کرنے کے لیے انفراسٹرکچر کی ترقی میں سرمایہ کاری ضروری ہے۔علاوہ ازیں، ایس ایم ایز کو ٹارگٹ سپورٹ فراہم کی جانی چاہیئے جو پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ حکومتیں مالی مدد کے ذریعے ایس ایم ایز کی مدد کر سکتی ہیں جس میں کم سود والے قرضے اور کریڈٹ گارنٹی، سٹارٹ اپس اور اختراعات کے لیے گرانٹس اور سبسڈیز، ٹیکس میں چھوٹ اور سرمایہ کاری وینچر کیپیٹل فنڈنگ اور مائیکرو فنانس پروگرام کے لیے مراعات شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ، آسان لائسنسنگ اور رجسٹریشن کے عمل، بیوروکریٹک رکاوٹوں کو کم کرنا، ٹیکس کی ہموار تعمیل، لچکدار لیبر قوانین اور صنعت سے متعلق مخصوص ضوابط کچھ دیگر اقدامات ہیں جن کا اختیار کیا جانا ضروری ہے۔ 

کم شرح سود پر قرض کی دستیابی اور اخراجات کو بڑھا کر پاکستان میں معاشی ترقی کو تیز کیا جا سکتا ہے۔کیونکہ کم شرح سود قرض لینے کو سستا بناتی ہے، صارفین اور کاروبار کو قرض لینے، سرمایہ کاری کرنے اور خرچ کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔ اس سے نجی شعبے کی نمو کو بھی فروغ ملتا ہے: سود کی کم شرح سرمائے کی لاگت کو کم کرتی ہے، جس سے کاروبار کو وسعت دینے، جدید بنانے اور کرایہ پر لینے میں مدد ملتی ہے۔ یہ سرمایہ کاری کو بھی متحرک کرتا ہے۔ کم شرح سود غیر ملکی اور مقامی سرمایہ کاری کو راغب کرتی ہے، اقتصادی ترقی کو فروغ دیتی ہے۔ کم شرح سود کسانوں اور چھوٹے کاروباروں کو سستی قرض تک رسائی میں مدد کرتی ہے۔ سود کی کم شرح حکومتوں اور کارپوریشنوں کے لیے قرض کی ادائیگی کے بوجھ کو کم کرتی ہے۔ یہ صارفین کو گھر اور کاروں جیسی بڑی استعمال کی اشیاء خریدنے کے قابل بناتی ہے۔ کم شرح سود اسٹارٹ اپ فنڈنگ اور انٹر پرینیور شپ کو سہولت فراہم کرتی ہے۔ پیسے کی فراہمی میں اضافہ کرکے افراط زر کو کنٹرول کرنے میں مدد کر سکتی ہے، معیشت کی ڈاکومینٹیشن میں معاون ہوتی ہے، اور انفراسٹرکچر کی ترقی یقینی بناتا ہے۔

پاکستان کا کریڈٹ ٹو جی ڈی پی کا تناسب نسبتاً کم ہے، جو کم شرح سود کو موثر بناتا ہے۔ پاکستان میں کم شرح سود کے فوائد میں جی ڈی پی کی ترقی میں تیزی، ملازمتوں کی تخلیق، سرمایہ کاری میں اضافہ، معیار زندگی میں بہتری اور مسابقت میں اضافہ شامل ہے۔

مہنگائی کی شرح 38 فیصد سے کم ہو کر 6.9 فیصد پر آ گئی ہے اس لئے پالیسی ریٹ میں 500 بنیادی پوائنٹس کی کمی کا مطالبہ تسلسل سے ہو رہا تھا۔ پالیسی ریٹ کو 2025 میں آسانی سے 9 فیصد تک لایا جا سکتا ہے کیونکہ معاشی اعشاریوں میں بحیثیت مجموعی بہتری کے ساتھ کاروبار کی آسانی وقت کی ضرورت بن چکی ہے۔جون 2023 سے ستمبر 2024 کے درمیان میکرواکنامک اعشاریوں کے موازنہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ معاشی حالات میں نمایاں بہتری آئی ہے جس کی بدولت آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ نے اپنے اجلاس میں پیکج کی منظوری بھی دے دی ہے۔ اعدادوشمار ملک میں خاطرخواہ معاشی ترقی اور استحکام کو ظاہر کرتے ہیں جو اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت اور خصوصی سرمایہ کاری کونسل (ایس آئی ایف سی) کی کوششیں رنگ لا رہی ہیں۔ تاہم  بند کاروباری سرگرمیوں کی بحالی کے لئے مزید کوششوں کی ضرورت ہے جس کے لئے شرح سود اور انرجی ٹیرف سے متعلق اقدامات کرنا ہوں گے۔ محض معاشی اشارئیے اور آئی ایم ایف پیکج کافی نہیں ہوں گے اور حکومت کو کاروبار دوست ماحول یقینی بنانا ہو گا تاکہ کاروبار اور برآمدات کو فروغ ملے اور ملک میں سرمایہ کاری اور روزگار کے مواقع میں اضافہ ہو۔ اعدادوشمار کے مطابق جی ڈی پی 0.29 فیصد سے بڑھ کر 2.38 فیصد تک پہنچ چکا ہے اور 2025 میں شرح نمو کا تخمینہ 3.9 فیصد ہے۔ اسی طرح تجارتی خسارہ 27.47 ارب ڈالر سے کم ہو کر 24.09 ارب ڈالر تک آ گیا ہے اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں 2.55 ارب ڈالر سے -0.8 ارب ڈالر تک کمی آ گئی ہے۔ برآمدات 27.7 ارب ڈالر سے بڑھ کر 30.6 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں۔ زرعی برآمدات خاص طور پر نمایاں ہیں جو 4.7 ارب ڈالر سے بڑھ کر 7.1 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہیں۔ اس کے علاوہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی برآمدات 2.6 ارب ڈالر سے بڑھ کر 3.2 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں، بیرون ملک سے ترسیل زر میں 27.3 ارب ڈالر سے 30.2 ارب ڈالر تک اضافہ ہوا ہے اور براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری گزشتہ ایک سال کے دوران 1.63 ارب ڈالر سے بڑھ کر 1.9 ارب ڈالر ہو چکی ہے. مزید برآں، مہنگائی کی شرح 38 فیصد سے کم ہو کر 6.9 فیصد رہ گئی ہے، پالیسی شرح سود 22 فیصد سے 17.5 فیصد تک آ گئی ہے اور روپے کی قدر میں بھی بہتری آئی ہے جون 2023 میں ایک ڈالر کی قیمت 333.5 روپے تھی جو اب کم ہو کر 278 روپے رہ گئی ہے۔

مندرجہ بالا تمام مثبت اعشاریے اس بات کی گواہی ہیں کی مل کر کام کر کے ہم پاکستان کی مکمل صلاحیتوں کو بروئے کار لا سکتے ہیں اور پائیدار اقتصادی ترقی حاصل کر سکتے ہیں۔

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی!

مزیدخبریں