نئی دہلی (ویب ڈیسک) ایک خاتون نے دعویٰ کیا ہے کہ’میں حواس میں نہیں تھی کیونکہ میرے سامنے میرے شوہر کی لاش پڑی تھی۔ میرے سُسر اور جیٹھ بھی مر چکے تھے اور ایک دیور خون میں لت پت پڑا تھا اور اسی صورتحال کے درمیان مجھ سے ہسپتال کا خون آلود بستر صاف کروایا گیا۔‘
بی بی سی اردو کے مطابق وائرل ہونے والی اس ویڈیو میں وہ ہسپتال کے بیڈ پر لگے خون کے بڑے دھبے صاف کرتی نظر آ رہی ہیں۔اس واقعے کی ابتدا دیوالی کے روز (31 اکتوبر) کو ہوئی تھی جب زمین کے تنازع پر ایک ہی خاندان سے تعلق رکھنے والے دو گروہوں کے درمیان تشدد کا واقعہ پیش آیا۔
اس واقعے میں روشنی کے 65 سالہ سسُر دھرم سنگھ، اُن کے شوہر شیوراج اور جیٹھ شدید زخمی ہو گئے تھے۔روشنی اور اُن کے اہلخانہ واقعے کے فوراً بعد تینوں زخمیوں کو مقامی ہسپتال لے کر پہنچے جہاں تینوں افراد ہلاک ہو گئے جبکہ اسی دوران ہسپتال کے عملے نے مبینہ طور پر روشنی (جو کہ حاملہ بھی تھیں) سے ہسپتال کے بستر کی صفائی کروائی تھی۔
اس ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد لوگ ہسپتال انتظامیہ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اُن پر غیر انسانی سلوک کا الزام لگا رہے ہیں۔بی بی سی سے بات کرتے ہوئے روشنی نے کہا کہ ’اُس وقت میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گيا تھا، میرے سامنے تین لاشیں پڑی تھیں اور میں کچھ سمجھ نہیں پا رہی تھی۔‘
’اسی دوران ہسپتال کی ایک نرس نے مجھے بلایا اور بستر پر پڑا رومال اٹھانے کو کہا جس پر میرے دیور پڑے تھے۔‘وہ کہتی ہیں: ’میں نے وہ رومال اٹھایا۔ اس کے بعد ہسپتال کے عملے نے بستر پر پانی ڈالا اور مجھے ٹشو پیپر سے بستر صاف کرنے کو کہا۔‘
روشنیوں کا تہوار دیوالی اس سال روشنی کے لیے سیاہ رہا۔ دیوالی کے تقریباً ایک ہفتہ بعد آج روشنی اپنے بچوں کے ساتھ گھر کے اندر خاموش بیٹھی ہے۔ وہ فکرمند ہیں کہ اب ان کے بچوں کا کیا ہو گا۔روشنی کے 40 سالہ شوہر شیوراج پیشہ سے آٹو رکشہ ڈرائیور تھے اور دیوالی کے دن کچھ مسافروں کو لے کر بازار گئے ہوئے تھے۔
روشنی رندھے ہوئے گلے کے ساتھ کہتی ہیں کہ ’اگر میرے شوہر تھوڑی دیر بعد آتے تو زیادہ اچھا ہوتا۔ ہم پوجا کے لیے ان کے آنے کا ہی انتظار کر رہے تھے۔ اسی دوران ہمیں معلوم ہوا کہ عدالت نے جس زمین کے تنازع کا فیصلہ ہمارے حق میں دیا تھا، اُس زمین پر اگنے والی فصل ہمارے مخالفین کاٹ رہے ہیں۔‘
اُن کا دعویٰ ہے کہ ’میرے شوہر ابھی بازار سے واپس آئے تھے اور انھوں نے اس حرکت کی ویڈیو بنانے کی کوشش کی تاکہ پولیس کے آنے پر یہ دکھایا جا سکے کہ وہاں کیا ہو رہا تھا، لیکن اسی دوران انھوں نے ان پر حملہ کر دیا۔‘
روشنی کے دیور اور گھر میں زندہ بچ جانے والے واحد مرد رام راج ماراوی نے بی بی سی کو بتایا: ’خاندان اب بھی خطرہ محسوس کر رہا ہے اور اسی وجہ سے وہ گھر سے باہر نہیں نکل رہے ہیں، ہم سُن رہے ہیں کہ ہمیں ابھی تک خطرہ ہے، میرے بھائی اور والد کو قتل کرنے والے اب یہ معاملہ منظر عام پر آنے کے بعد غصے میں ہیں اور یہ سب سوچ کر مجھے ڈر لگتا ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’ہم گھر سے باہر نہیں نکل رہے ہیں، ہمیں نہیں معلوم کہ اب کیا ہو گا۔۔۔ ہم کیسے رہیں گے، اس وقت میں گھر سے نکلتے ہوئے بھی ڈرتا ہوں۔‘
جبکہ گھر کے صحن میں بیٹھی روشنی بتاتی ہیں کہ اُن کے بچوں کے لیے دیوالی کے لیے لائے گئے کپڑے ابھی تک شاپروں میں ہی پڑے ہیں، بچے اپنے والد کے بارے میں پوچھتے رہتے ہیں، لیکن میں ابھی تک ان سے بات کرنے کی ہمت نہیں کر پا رہی۔ والد کا چہرہ اس قدر بری طرح زخمی تھا کہ بچے اس دن انھیں پہچان بھی نہیں سکے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’اب جب میں بچوں کو دیکھتی ہوں تو سوچتی ہوں کہ ان کا کیا بنے گا، اگر حکومت میری مدد کرے تو شاید میں ان کی پرورش کر سکوں، ورنہ مجھے نہیں معلوم کہ کیا ہو گا۔‘
وائرل ویڈیو سامنے آنے اور ہسپتال انتظامیہ پر الزامات لگنے کے بعد ہسپتال کے چیف میڈیکل آفیسر رمیش ماراوی نے میڈیکل آفیسر چندر شیکھر سنگھ کا تبادلہ کر دیا ہے جبکہ دو نرسنگ سٹاف کو معطل کر دیا گیا ہے۔
چندر شیکھر سنگھ نے اپنے دفاع میں صحافیوں کو بتایا کہ خاتون (روشنی) کو ہسپتال میں بستر صاف کرنے کے لیے نہیں کہا گیا تھا، بلکہ انھوں نے خود ایسا کیا تھا۔