مصنف:ڈاکٹر وائن ڈبلیو ڈائر
ترجمہ:ریاض محمود انجم
قسط:40
آپ اپنی اہمیت اور قدر کے ساتھ کسی کا تقابل کرنے پر مبنی رویہ اور طرزعمل ترک کر دیں۔ممکن ہے کہ آپ کی ملازمت چلی جائے یا آپ کسی منصوبے میں ناکام ہو جائیں۔ ممکن ہے کہ آپ کو وہ طریقہ پسند نہ ہو جس طریقے کے ذریعے آپ نے ہر کام سرانجام دیا ہو لیکن اس کایہ مطلب نہیں کہ آپ اہم اور قابل قدر نہیں۔ آپ کو لازمی طور پر اس امر کی خبر ہونی چاہیے کہ اپنی کامیابیوں کے قطع نظر آپ کی ذات اہم اور قابل قدر ہے۔ یہ تو ایسے ہی ہے کہ جیسے آپ اپنی ذات کی اہمیت اور قدروقیمت کو کسی بیرونی عنصر کے ساتھ مشروط کر دیں۔ جب آپ اس الجھن سے نجات پا لیں گے تو پھر آپ ہر قسم کی کامیابیاں اور کامرانیاں حاصل کر سکیں گے خواہ آپ کو ان سے دلچسپی ہو نہ ہو کیونکہ یہ کامیابی کسی بھی طرح ایک شخص کے لحاظ سے آپ کی قدروقیمت کا تعین نہیں کر سکتی۔
یہ سب عملی طریقے اور دیگر تراکیب وہ لوگ اختیار کرتے ہیں جنہیں اپنے وجود، اپنی ذات اور بدن سے محبت ہے اور وہ اپنے بدن کی دیکھ بھال اور نگہداشت کرتے ہیں۔ عام طور پر یہ تمام عملی طریقے اور تراکیب ان عادات کے لیے زہرقاتل ہوتے ہیں جنہیں آپ اپنے بچپن میں اپنا چکے ہوتے ہیں۔ ایک زمانے میں آپ حُبِ ذات کا مرقع تھے۔ ایک بچے کی حیثیت سے فطری اور قدرتی طور پر آپ کو علم تھا کہ آپ اہم اور قابل قدر ہیں۔
اب مندرجہ ذیل سوالات پر نظر ڈالیے:
کیا آپ اپنے وجود، ذات اوربدن کو بغیر کسی احساس کمتری اور شکوہ شکایت کے اپناتے ہیں۔
کیا آپ ہر وقت اورہمیشہ اپنے وجود، ذات اوربدن کے لیے محبت و چاہت کا اظہار کرتے ہیں۔
کیا آپ دوسروں کے لیے محبت وچاہت کا اظہار اور دوسروں کی طرف سے محبت وچاہت حاصل کر سکتے ہیں؟
یہ وہ مسائل و معاملات ہیں جن کے حصول کے لیے آپ کوشش اور جدوجہد کر سکتے ہیں۔ آپ بہت ہی خوبصورت، پرکشش اور قابل قدر شخص…… یعنی اپنے آپ سے محبت و چاہت پر مبنی رویہ اورطرزعمل اختیار کرنے کے حوالے سے ذاتی اہداف و مقصد متعین و مقرر کر سکتے ہیں۔
تیسرا باب
آپ کو دوسروں کی خوشنودی کی ضرورت نہیں!
”اپنی ذات کے حوالے سے دوسروں کی خوشنودی سے مرا دیہ ہے کہ اپنی ذات کے متعلق دوسروں کی رائے، آپ کی رائے سے اہم اور بہتر ہے۔“(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔