مصنف : عمران الحق چوہان
قسط:151
نکلنا خلد سے ہمارا:
باہرنکلنے سے پہلے قلعے کے ”خا باسی کیفے“ (kha basi cafe) میں چائے پینے کا فیصلہ ہوا۔ یہ ریستوران جس باغیچے کے ایک کونے پر بنا ہوا تھا وہ با غیچہ جنت کے با غوں میں سے ایک باغ تھا۔دبیز گھاس کا ایک ایسا فرش جو کسی حو ض میں اٹھنے والی چھو ٹی لہروں یا ریت کے ننھے ٹیلوں کی طرح اونچا نیچا تھا۔ اس خوبصورت گھاس کے فرش پر خو بانی کے گھنے پیڑوں کا سایا تھا جس نے ہرے رنگ کو اور بھی گہرا کر دیا تھا۔ اس گہرے ہرے قالین پر شاخوں سے جھڑی سوکھی سنہری پتےاں اور سرخ خو بانیاں بکھری تھیں جو زمردیں فرش ِگیاہ پر قیمتی نگینوں کی طرح چمکتی تھیں۔ریستوران کے پاس ہی ایک تالاب تھا جس میں سفیدبطخیں تیر تے ہوئے باتونی عورتوں کی طرح مسلسل ”کَیں کَیں“ کر رہی تھیں۔ یو ں لگتا تھا ہم کسی چینی یا جاپانی پینٹنگ میں زندہ ہو گئے ہیں۔کافی پرے دو تین بو ڑھی عورتیں ٹپکی ہوئی خوبا نیا ں چن رہی تھیں،ان سے قریب ہی ایک بوڑھا سوکھے پتّے سمیٹ رہا تھا جو ہوا نے شا خوں سے اتار کر گھاس پر اس طرح بکھیر دئیے تھے جیسے کوئی بچہ کھیلنے کے بعد اپنے کھلونے بکھرے چھو ڑ دیتا ہے۔میں نے دل میں اترجانے والے اس منظر کی تصویر لینے کے لیے کیمرہ کھولا تو پتّے سمیٹتے بوڑھے نے اپنا ترنگلا پھینک کر وہیں سے بلند آواز میں کچھ کہنا شروع کر دیا۔ وہ بروشسکی بول رہا تھا جس کی مجھے با لکل سمجھ نہیں آ رہی تھی لیکن آواز کی بلندی، لہجے کی سختی اور ہاتھوں کی حرکت سے اندازہ ہوا کہ اسے شک تھا کہ میں ان ”ماہ جبین“ بوڑھی مائیوں کی تصویر کھینچنے لگا ہوں اور اس نے بغیر تصدیق کیے فضائی حملہ شروع کر دیا تھا۔اجنبی زبان کا ایک فائدہ یہ تھا کہ اگر وہ ہمیں گا لیاں دے بھی رہا تھا تو سمجھ میں نہ آ نے کی وجہ سے ہمیں برا نہیں لگ رہا تھا۔ جاوید نے اس بو ڑھے کو سمجھانے کی بہت کوشش کی لیکن اس کی خودی بہت بلند تھی اور اس کا غصہ کم نہیں ہورہا تھا۔میں نے اخلاقاً کیمرا بند کر دیا اور ہم کافی پینے کا خیال ترک کر کے کان لپیٹ کر قلعے سے نکل آ ئے۔
ہمارے باقی ہم سفر جانے کدھر مونھ کر گئے تھے۔ التیت میں گھومنا ایک خوش کن کام تھا۔ یہاں کی عورتیں واقعی بہت خوب صورت تھےں ہر چہرہ نظر افروز اور عیشِ نگاہ تھا۔ ہم التیت کی گلیوں میں گھومتے ہوئے ایک گرلزسکول کے سامنے واقع چھو ٹی سی دکان کے باہر پہنچے تو اندر ایک بزرگ عورت سمو سے تلتی نظر آئی۔ گرم گرم سموسے دیکھ کر فورا ً سموسے کھانے کا فیصلہ ہوا اور ہم دکان میں دا خل ہوگئے۔ایک چھو ٹا سا کمرا جس میں ایک طرف باورچی خانہ اور دوسری طرف دو تین بنچ جن کے سامنے لکڑی کے میز۔ پرانی چوبی پرچھتیاں جن پر چند بھرے اور خالی ڈبے۔چولھے کی حرارت نے باہر کی ٹھنڈ کی نسبت اندر نِگھ کر رکھاتھا۔ سموسے تلنے والی بوڑھی اماں اپنی جوانی میں یقیناً انہی عورتوں میں سے ایک رہی ہوگی جن کا حسن التیت کی وجہ ِ شہرت ہے۔ اماں کا بو ڑھا شوہر ایک نہایت بِیبا بندہ تھا۔اس نے کڑاہی سے نکلے دو دو تازہ سمو سوں کی پلیٹیں ہمارے سامنے رکھنی شروع کیں۔ ان سمو سوں کے ساتھ ہمارے پنجاب کی روایتی چٹنیاں اور لوازمات نہیں تھے یہ خا لص سمو سے تھے لیکن پھر بھی ان کا مزہ کمال تھا۔ سمیع نے فورا ً 2 مزید سموسوںکا آرڈر دے دیا۔ ہم سموسے کھاتے ہوئے گلی میں آتے جاتے چہروں کو بھی دیکھتے تھے۔ سکول کی وردی میں ملبوس کچھ طالب ِ علم بھی آ گئے اور وہ سموسوں کے ساتھ سوپ بھی پینے لگے۔ اس پر میرے دوستوں نے بھی سوپ کا آرڈر دے دیا۔نوجوانوں کے آتے ہی چھوٹی سی دکان یا ریستوران میں ہل چل اور گہما گہمی پیدا ہو گئی۔ نوجوان طالب ِ علم ویسے ہی تھے جیسے نوجوانی میں سب ہوتے ہیں۔ بال پریشان، گریبان کھلے، بے فکر اور زندگی سے چھلکتے ہوئے۔ آوازیں بلند، باتیں کم، قہقہے زیادہ۔وہی حرکتیںجنھیں دیکھ کر بزرگوں کو بہت غصہ آتا ہے۔ بزرگوں کا غصہ در اصل نوجوانوں پر نہیں اپنے اس گزرے وقت پر ہوتا ہے ۔ جو گزر چکا ہوتا ہے ،جو ہمیشہ گزر جاتا ہے اور کبھی لوٹ کر نہیں آتا۔جوانی مستا نی کاوہ طغیان جو اپنے پیچھے بڑھاپے کا ملبا چھوڑ کر یادوں بھرے ما ضی کے تلخ اندھے ساگر میں اتر جاتا ہے۔ کچھ ہی دیر میں وہ لڑکے جو آندھی کی طرح آئے تھے پلیٹیں اورپیالے خالی کرکے بگولے کی طرح باہر نکل گئے۔ وہ صرف سمو سے کھانے اور سوپ پینے آئے تھے یا یہ سب گرلز سکول کے باہر وقت گزارنے کا ایک بہانہ تھا؟
باہر آسمان سے برستی بوندوں میں بھاپ نکلتے سوپ کے ساتھ گرم سمو سوں کے کمبی نیشن کاپہلی دفعہ تجربہ کیا تھا اورجو لطف ان سمو سوں کا آیا وہ کبھی نہیں بھولے گا۔ اس روز جب خنک ہوا کے جھونکوں اور ہلکی بوندوں کی رفاقت میں ہم التیت سے نکلتے تھے تو ذہن میں ما ضی کی دل چسپ اور پر اسرار حکایتوں کے ساتھ ان سمو سوں کی لذت بھی زبان پر تھی۔
”داور واقعی ٹھیک کہتا تھا۔“ طاہر نے سر گوشی میں مجھ سے کہا ۔۔۔
میں نے چونک کر قریب سے گزرتی لڑکی کو دیکھا ۔۔۔
طاہر بھی ٹھیک کہتا تھا۔(جاری ہے )
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔