انہوں نے آنکھیں پھاڑپھاڑ کر اندر جھانکا لیکن ان کے سامنے اندھیرے کی دیوار حائل تھی۔ باہر کا منظر بھی اس سے جدا نہ تھا۔ چاند بھی بادلوں سے آنکھ مچولی کھیلتا کہیں چھپ گیا تھا۔ نیلی حویلی کے ویرانے اور تاریکی سے خوفزدہ وارث کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ اکرم قدم بڑھا کر حویلی کے اندر داخل ہوا اور جیب سے ماچس نکال کر ایک تیلی جلائی تاکہ اسے کوئی ایسی چیز دکھائی دے جسے روشن کر کے وہ اندر آرام سے بیٹھ سکیں لیکن اس کا ننھا شعلہ جتنی جگہ منور کر سکا اس میں اسے کچھ دکھائی نہ دیا۔ اس نے دوسری تیلی جلائی اور تیزی سے اسے ادھرادھر گھمایا۔ اس بار اسے کامیابی نصیب ہوئی۔ آس پاس کوئی سوئچ بورڈ تو نہ ملا البتہ دیوار پر ٹنگی ایک مشعل نظر آ گئی۔ اس نے آﺅ دیکھا نہ تاﺅ، تیزی سے آگے بڑھ کر جلتی ہوئی ماچس کی تیلی اس میں پھینک دی۔ تیلی اس میں گری اور بجھ گئی۔
مشعل روشن نہ ہونے سے پسینے میں شرابور اکرم کو کچھ مایوسی ہوئی۔ ماچس چونکہ اس کے ہاتھ میں ہی تھی۔ اس لیے اس نے تیسری تیلی نکالی اور اسے ماچس کے ساتھ رگڑنے ہی والا تھا کہ اچانک مشعل میں ایک جھپاکے سے آگ کا شعلہ بلند ہوا۔ کچھ پھڑپھڑایا اور ٹھہر گیا۔
مشعل روشن ہوچکی تھی۔ نیلی حویلی کا وسیع و عریض ہال ان کے سامنے تھا۔ اکرم اور وارث مشعل کے نیچے ہی دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔ مشعل کی روشنی میں اب انہیں دروازے کے باہری مناظر بھی دھندلے دھندلے دکھائی دینے لگے تھے۔ وارث اگرچہ ڈرا ہوا تھا مگر یہ بات اسے اطمینان دلا رہی تھی کہ یہ اس کی زندگی کا آخری نشہ ہے۔ اکرم بھی اسی قسم کے خیالات میں گم تھا۔
نیلی حویلی پر چھائے ،آسیب کے سائے ۔۔۔ قسط نمبر 2 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
اکرم نے جیب سے نشہ آور سگریٹوں کی ڈِبیا نکالی۔ ایک سگریٹ سلگا کر وارث کو تھما دیا جب کہ ایک خود پینے لگا۔ دونوں دوست کش پہ کش لگا رہے تھے۔ تمباکو کے ساتھ جل کر راکھ ہونے والی منشیات کی بُو ہوا میں تحلیل ہو رہی تھی۔ آہستہ آہستہ اُن پر خمار طاری ہونے لگا اور وہ مدہوش ہونے لگے۔ یکے بعد دیگرے سگریٹ پھونک کر انہوں نے پوری ڈِبیا خالی کر دی۔
دونوں اپنے گردوپیش سے بے خبر نشے میں دُھت ہو گئے۔ سگریٹوں کا بدبودار دُھواں آہستہ آہستہ پوری حویلی میں پھیل گیا۔ دونوں اب اس اِنتظار میں تھے کہ نشے کی شدت کم ہوتے ہی وہ چپکے سے گھر جا کر سو جائیں گے اور جب تک صبح کو سب اٹھیں گے وہ نشے کی حالت سے باہر نکل چکے ہوں گے۔ اس طرح ان کے گھر والوں کو شک نہیں ہو گا کہ انہوں نے نشہ کیا تھا۔ بہرحال نشے نے جلد ہی انہیں اپنی گرفت میں لے لیا اور وہ اُونگھنے لگے۔ اگرچہ اس سرور سے وہ پہلی بار آشنا نہیں ہو رہے تھے مگر آج ایک تو انہیں ہیروئن مفت ملی تھی دوسرے وہ اتنی زیادہ تعداد میں تھی کہ اس سے انہوں نے ڈبی میں موجود تمام سگریٹ بھر لیے تھے۔ اس لیے آج وہ جی بھر کر نشہ آور سگریٹ پی رہے تھے جس سے ان کا سرور دوبالا ہو گیا تھا۔
دفعتاً ایک کھٹکے سے اُن کی آنکھوں کے پپوٹوں میں جنبش ہوئی مگر نشہ اس قدر ان کے حواسوں پر چھایا ہوا تھا کہ وہ پھر خمار کی وادی میں اتر گئے اور ان کی گردنیں ایک جانب ڈھلک گئیں۔ چند لمحے گزرنے کے بعد پھر کھٹکا ہوا جو اس بار قدرے زوردار تھا۔ انہوں نے اَدھ کھلی آنکھیں گھما کر دیکھا مگر انہیں کچھ نظر نہ آیا۔ کچھ دیر بعد اُن کی آنکھیں پھر بند ہونے لگیں۔ تیسری بار اچانک پھر زوردار کھٹکا ہوا اور دونوں نے ہڑبڑا کر آنکھیں کھول دیں۔ چاروں طرف چہرہ گھمایا لیکن وہاں کوئی نہیں تھا۔
”کک .... کک ....کون ....کون ہے؟“
وارث نے نشے سے لڑکھڑاتی آواز میں پوچھا۔ آواز اُس کے حلق سے ٹھیک طرح سے نہیں نکل رہی تھی۔ تاہم انہیں جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ آواز حویلی کے اندر سے نہیں بلکہ باہر سے آ رہی تھی۔ مشعل کی ہلکی ہلکی روشنی ہوا کی مزاحمت کے باوجود دروازے کے باہر بھی گر رہی تھی۔ کھٹکے کی آواز سے انہیں اتنا تو محسوس ہو ہی گیا تھا کہ حویلی میں ان کے علاوہ بھی کوئی ہے مگر وہ کون ہے یہ انہیں معلوم نہیں تھا۔
اچانک انہیں حویلی کے صحن میں کسی کے تیزتیز چلنے کی آواز سنائی دی تو نشے میں ہونے کے باوجود دونوں گھبرا گئے۔
”کک۔۔۔ کون ہے وہاں ؟“
وارث نے لڑکھڑاتی مگر قدرے اونچی آواز میں پوچھا تو قدموں کی آواز بند ہو گئی۔ ہر طرف گہری خاموشی چھاگئی۔
”اکرم ! رات کافی بیت چکی ہے۔“
وارث نے نشے سے لڑکھڑاتی آواز میں کہا۔
”اب ہمیں چلنا چاہیے۔“
”بس کچھ دیر یار۔“ اکرم نے بھی جواباً مدہوش آواز میں کہا۔
”نشہ کچھ اُتر جائے۔ بس تھوڑی دیر اور۔“
دونوں باتوں میں مصروف تھے کہ صحن سے آنے والی گڑگڑاہٹ کی تیز آواز سن کر دہل گئے۔ سناٹے میں آواز ایسی تھی جیسے کوئی سِل سرک رہی ہو۔ انہیں اچھی طرح معلوم تھا نیلی حویلی کے صحن میں دو قبریں ہیں۔ سِل سرکنے کی آواز اُدھر سے ہی آ رہی تھی۔
ماحول کی پراسراریت نے دونوں کو اپنے شکنجے میں جکڑ لیا اور ان کے روئیں روئیں سے پسینہ بہنے لگا۔ وارث اور اکرم کے کان آواز کا مسلسل تعاقب کر رہے تھے۔ چند لمحوں بعد گڑگڑاہٹ کی آواز آنا بند ہو گئی۔ اور انہیںبھاری بھرکم قدموں کی چاپ سنائی دینے لگی۔ آواز سے محسوس ہو رہا تھا چلنے والا اب ایک نہیں بلکہ زیادہ ہیں لیکن اس سب کے ساتھ ایک اور آواز بھی رات کے سناٹے میں گونج رہی تھی۔ آواز ایسی تھی جیسے کوئی کسی لوہے سے بنی بھاری بھرکم چیز کو کھینچ رہا ہو۔ زمین پر اس آہنی شے کی رگڑ سے پیدا ہونے والی عجیب و غریب آواز نے ماحول کو مزید دہشت ناک بنا دیا۔ اکرم اور ریاست کے حواسوں پر طاری نشے میں اب اَن جانے اَن دیکھے خوف کی کیفیت کی بھی آمیزش ہو چکی تھی۔
”کک.... کک.... کون ہے باہر؟“
وارث نے ہکلاتے ہوئے پوچھا۔
”جو کوئی بھی ہے سامنے کیوں نہیں آتا؟ “
مگر کوئی جواب نہیں آیا۔ البتہ بھاری بھرکم قدموں اور آہنی شے کے زمین سے رگڑنے کی آواز اچانک تھم گئی۔ وارث نے ہاتھ گھٹنوں پر رکھ کر دیوار کے سہارے اُٹھنے کی کوشش کی مگر لڑکھڑا گیا۔ نشہ ابھی اترا نہیں تھا۔
”وارث ! تت .... تُو .... یہیں ٹھہر۔ میں جا کے دیکھتا ہوں کون ہے باہر؟“
اکرم آہستہ آہستہ ہمت کر کے کھڑا ہوا اور لڑکھڑاتے قدموں سے دروازے کی جانب بڑھنے لگا۔
”کون؟ کون ہوتم ؟ دفع ہو جاﺅ یہاں سے۔“
وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑائے جا رہا تھا۔
”سامنے کیوں نہیں آتے؟ میرا نام اکرم ہے اکرم۔“
بالآخر وہ دروازے تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔ دروازے کو پکڑ کر اس نے کچھ دیر سانس بحال کی اور پھر قدم باہر رکھ دیا۔ تیز ہوا کے تھپیڑے سے اس کے قدم لڑکھڑا گئے اور وہ گرتے گرتے بچا۔ باہر خس و خاشاک کا طوفان برپا تھا۔ اُس نے گردوغبار سے بچنے کے لیے اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھا اور اپنی بائیں جانب دیکھا۔ تنہائی اور تاریکی اس کو منہ چڑھا رہی تھی۔ پھر اُس نے بائیں جانب گردن گھمائی۔ اس کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا سانس نیچے رہ گیا۔(جاری ہے)
نیلی حویلی پر چھائے ، آسیب کے سائے ۔۔۔ قسط نمبر 4 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں