نیلی حویلی پر چھائے ، آسیب کے سائے ۔۔۔ قسط نمبر 4

نیلی حویلی پر چھائے ، آسیب کے سائے ۔۔۔ قسط نمبر 4
نیلی حویلی پر چھائے ، آسیب کے سائے ۔۔۔ قسط نمبر 4

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

انتہائی خوفناک منظر دیکھ کر اس کا خون خشک ہو گیا۔ اس سے پہلے کہ وہ ہوش کی وادی میں دوبارہ قدم رکھتا، فضا میں یکدم ’دھب‘ کی آوازگونجی اور اکرم کی گردن ایک جھٹکے سے اُڑ کر دور جا گری۔ وارث اندر بیٹھے یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ مشعل کی ہلکی ہلکی روشنی میں اُس نے دیکھا اکرم کا سر دھڑ کے اُوپر سے غائب ہو چکا تھا اور گردن سے خون کا فوارہ اُبل رہا تھا۔ اس کی آواز بھی نہیں نکلی تھی۔ اس کا جثہ دھڑام سے ایک جانب جا گرا، تھوڑی دیر تڑپا اور ساکت ہو گیا۔ اتنا دہشت ناک منظر دیکھ کر وارث کی زوردار چیخ نکلی۔ اس کی گھگھی بندھ گئی۔ وہ بری طرح سے دہشت زدہ ہو چکا تھا۔ اس نے پوری قوت سے چیخیں مارنے کی کوشش کی مگر آواز اس کا ساتھ نہیں دے رہی تھی۔ اس کے حلق سے عجیب و غریب سی غرغراہٹ نکل رہی تھی۔
مرکزی دروازے کے درمیان اکرم کی سرکٹی لاش پڑی تھی۔ گرتے پڑتے وارث نے حویلی کے اُوپر جاتے زینے کی طرف جانے کی کوشش کی مگر لڑکھڑا کر گر پڑا۔ نشے اور خوف سے وارث کی حالت بے حد خراب ہو چکی تھی۔ اکرم کی موت کا دہشت ناک منظر دیکھ کر اس کے رہے سہے اوسان بھی خطا ہو چکے تھے۔ وہ اندھیرے میں ایسے ہاتھ پاﺅں مار رہا تھا جیسے اپنے آپ کو کسی غیرمرئی مخلوق سے بچانے کی کوشش کر رہا ہو مگر وہاں کوئی نہیں تھا۔ وارث نے ایک بار پھر دروازے کی سمت دیکھا۔ دروازے کے بیچ اکرم کی بغیر سر کے لاش پڑی تھی۔ اُس نے ہمت جمع کی اور بمشکل زینے تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا اور سیڑھیاں طے کرنے لگا۔

نیلی حویلی پر چھائے ، آسیب کے سائے ۔۔۔ قسط نمبر 3 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
تھوڑی تھوڑی دیر بعد وہ پیچھے مڑ کر آنکھیں پھاڑ کر اندھیرے میں دیکھتا کہیں اس کے پیچھے کوئی آ تو نہیں رہا۔ ایک کے بعد ایک وہ زینے طے کرتا چلا گیا۔ اوپر پہنچ کر اس نے سیدھا کھڑا ہونے کی کوشش کی مگر لڑکھڑا کر دائیں جانب موجود کمرے کے دروازے سے جاٹکرایا۔ اُس کی ٹکر سے دروازہ ایک جھٹکے سے کھلا اور وہ فرش پر گر پڑا۔ اس نے جلدی سے گھسیٹ کر اپنے آپ کو اندر کیا اور کمرے میں ایک کونے میں جا کر بیٹھ گیا۔
چاند بادلوں کی اوٹ سے نکل آیا تھا اور روشندان سے اس کی نیلگوں روشنی کمرے میں پڑ رہی تھی۔ پسینے سے وارث کے سارے کپڑے بھیگ چکے تھے۔ اُس کا جسم ہولے ہولے کانپ رہا تھا۔ اس نے دونوں بازو گھٹنوں پر بچھا کر سر ان پر رکھ دیا اور گہری گہری سانسیں لے کر اپنے آپ کو پُرسکون رکھنے کی کوشش کی۔
اکرم کی دہشت ناک موت اس کے حواس پر چھائی ہوئی تھی۔ تھوڑی دیر بعد اس نے اپنا سر اوپر اٹھایا تو اسے رُوح جسم سے سرکتی محسوس ہوئی اور اس کا جسم یکدم سرد پڑ گیا۔ اُس کے سامنے سیاہ لباس میں ملبوس لمبے لمبے بالوں والا ایک ہیولا کھڑا تھا۔ بڑے بڑے بالوں کی وجہ سے اس کا پورا چہرہ تو نظر نہیں آ رہا تھا البتہ اس کی شعلے برساتی لال لال آنکھیں اسی پر جمی تھیں۔ ہیولے کے ہاتھ میں ایک بڑا سا کلہاڑا تھا جس سے خون کے قطرے ٹپک رہے تھے۔
وارث نے اُسے دیکھ کر زور سے جھرجھری لی جیسے پرندہ ذبح ہونے سے پہلے آخری بار پھڑپھڑاتا ہے۔ ہیولے نے بھاری بھرکم کلہاڑے کو دونوں ہاتھوں سے تھام کر اپنے سر سے بلند کیا۔ اگلے ہی لمحے فضا میں پھر ’دھب‘ کی آواز گونجی اور وارث کی گردن تن سے جدا ہو گئی۔ اس کا بغیر سر کے بدن کچھ دیر تڑپتا رہا اور پھر ٹھنڈا ہو گیا۔
ہیولے نے وارث کا دھڑ اپنے کندھے پر رکھا۔ جھک کر بالوں سے پکڑ کر اس کا سر اٹھایا اور سیڑھیاں اُترنے لگا۔ صحن سے اکرم کی لاش غائب ہو چکی تھی۔ ہیولا بھاری بھرکم قدموں سے آہستہ آہستہ چلتا ہوا قبر کے پاس پہنچا تو گڑگڑاہٹ کی تیز آواز کیساتھ سل ایک طرف ہٹنے لگی۔
قبر پوری طرح کھل چکی تو ہیولا وارث کے دھڑ اور سر کو لے کر اس میں اُتر گیا۔ اس کے قبر میں غائب ہوتے ہی فضا میں پھر گڑگڑاہٹ کی تیز آواز گونجی۔ سل سرکنے لگی اور قبر آہستہ آہستہ بند ہو گئی۔ قبر بند ہوتے ہی ہواﺅں کا شور بھی رفتہ رفتہ تھم گیا اور موسلادھار بارش شروع ہو گئی۔
موجُو کسان نے فجر کی نماز ادا کی اور مسجد سے باہر آ کر آسمان کی طرف دیکھا۔ سرخ بادلوں نے آسمان کو ڈھانپ رکھا تھا۔ برسات چونکہ دھان کی فصل کاشت کرنے کے لیے بہترین موسم ہوتا ہے اس لیے اسے فکر دامن گیر تھی کہ بوندیں گرنے سے پہلے پہلے بوائی کا بوجھ سر سے اتار لے۔ ایک بار یہ کام نمٹ گیا تو پھر چاہے جتنی مرضی بارش ہوتی رہے اس کی ذرا پروا نہیں کیونکہ بارش کا پانی دھان کی فصل کے لیے آب حیات کی طرح ہوتا ہے۔ بارش کی صورت میں کسان آبپاشی کرنے کی زحمت سے بھی بچ جاتا ہے۔ اس نے تیزتیز قدموں سے کھیتوں کی راہ لی۔ فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد کھیتوں میں جانا اس کا روز کا معمول تھا۔ گاﺅں سے نکل کر اُس نے کھیتوں میں جانے والی پگڈنڈی پر قدم رکھے اور رفتار تیز کر لی۔
اپنی ہی دُھن میں مگن وہ چلتا جا رہا تھا۔ نیلی حویلی کے قریب پہنچا تو ٹھٹک کر رک گیا۔ اسے ایسے لگا جیسے زمین نے اُس کے پاﺅں پکڑ لیے ہیں۔ نیلی حویلی کے ساتھ موجود پیپل کے درخت کے نیچے خون بکھرا ہوا تھا۔ اس نے سر اٹھا کر اوپر دیکھا تو اس کے رونگٹے کھڑے ہو گئے اور لہو رگوں میں منجمد ہو گیا۔ دو لاشیں درخت پر لٹک رہی تھیں۔ وارث اور اکرم کی سرکٹی لاشیں۔ ان کے سر درخت کے تنے کے ساتھ زمین پر پڑے تھے۔ موجُو کے حلق سے زوردار چیخ نکلی اور وہ وہیں غش کھا کر گر پڑا۔ جیسے تیسے کر کے اس نے اپنے حواس بحال کیے اور واپس گاﺅں کی طرف دوڑ لگا دی۔ گاﺅں میں داخل ہوا تو اسے بدحواسی کے عالم میں یوں بھاگتے دیکھ کر چائے کے کھوکھے پر کھڑے لوگوں نے اسے روک لیا۔
”موجو! کیا ہوا ہے تمہیں؟خیر تو ہے سب۔“
ایک ادھیڑعمر شخص نے اسے اپنے پاس بنچ پر بٹھاتے ہوئے پوچھا اور ہاتھ کے اشارے سے پانی کا گلاس منگوایا۔ خوف کی وجہ سے موجو سے ٹھیک طرح سے بولا نہیں جا رہا تھا۔ الفاظ جیسے اس کے گلے میں پھنس گئے تھے۔ اس کو اتنا خوفزدہ دیکھ کر ماجرا جاننے کے لیے لوگوں کا رش جمع ہونے لگا۔ پانی کا گلاس آیا تو اسی ادھیڑعمر شخص نے اپنے ہاتھوں سے اسے چند گھونٹ پلائے۔ پانی پی کر موجو کے اوسان کچھ بحال ہوئے۔
”وہ .... وہ.... نیلی حویلی۔“
موجو سخت گھبرائی آواز میں چند الفاظ ہی بول پایا، بڑی سے قے کی اور ایک بار پھر غش کھا کر ایک طرف لڑھک گیا۔ اسے اس قدر دہشت زدہ دیکھ کر آس پاس کھڑے لوگ بھی سہم گئے۔ اسے فوری طور پر اسے بنچ پر ہی لٹا دیا گیا، منہ پر پانی کے چھینٹے مارے تو اس نے دوبارہ آنکھیں کھول دیں۔ اس بار اس نے جیسے تیسے سارا واقعہ سنا دیا۔
موجو کی بات جنگل کی آگ کی طرح پھیلی اور پورے گاﺅں میں کہرام مچ گیا۔ لوگ جوق در جوق نیلی حویلی کی طرف جانے لگے۔ چوہدری عمردراز تک بات پہنچی تو وہ بھی دوڑا چلا آیا۔نیلی حویلی کے ساتھ واقع پیپل کے درخت کے اردگرد ایک جم غفیر تھا۔ اس نے فوری طور پر گاو¿ں کے تھانے میں فون کر کے واقعے کی اطلاع دی۔ جس پر پولیس سٹیشن کا انچارج تھانیدار احسان اللہ نفری کے ہمراہ موقع پر پہنچ گیا۔ اتنا دہشت ناک منظر دیکھ کر وہ بھی لرز اٹھا۔
اس نے سب پہلے لوگوں کو جائے حادثہ سے پیچھے ہٹایا اور اس مقام کو سیل کر دیا۔ اس کے ساتھ آئے ماہر تفتیشی شواہد جمع کرنے میں مصروف ہو گئے۔ تھانیدار احسان اللہ کی ہدایت پر لاشوں کو نیچے اتار لیا گیا۔ اس نے بغور لاشوں کا جائزہ لیا۔ لاشوں کے سر درخت کے تنے کے ساتھ پڑے تھے۔ قتل کی اتنی لرزہ خیز واردات اس نے آج تک نہیں دیکھی تھی۔
جائے وقوعہ کا چپہ چپہ چھاننے کے باوجود تھانیدار احسان اللہ اور اس کے تفتیشی کسی بھی قسم کے ثبوت کو ڈھونڈنے میں ناکام رہے جس سے یہ پتہ چل سکے کہ اتنی خوفناک واردات کرنے والا مجرم کون ہے۔ گاﺅں والے کرائم سین سے باہر کھڑے چہ مگوئیوں میں مصروف تھے۔(جاری ہے)

نیلی حویلی پر چھائے ، آسیب کے سائے ۔۔۔ قسط نمبر 5 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں