’نیلی حویلی پر چھائے ، آسیب کے سائے ۔۔۔۔ ‘قسط نمبر 5
کچھ لوگوں کے خیال میں نیلی حویلی پرانے وقتوں میں ایک انگریز افسر کی رہائش ہوا کرتی تھی جو بڑا ظالم تھا۔ وہ اپنے مخالفوں کو طرح طرح کی اذیتیں دے کر قتل کرتا اور حویلی کے اندر موجود کنویں میں پھینک دیتا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کنویں میں سے پیپل کا درخت نکل آیا۔ اب اس کنویں کی بدروحیں چمگادڑوں کی شکل میں اس پر بسیرا کیے ہوئے ہیں۔ کچھ لوگ نیلی حویلی کے آسیب کے پیچھے چوہدری عمردراز کی ماں اور بیوی کی پراسرار موت کو قرار دیتے جو اب بھوت بن چکی ہیں اور آس پاس بھٹکنے والے انسانوں کو پریشان کرتی ہیں اور جو ان کے قریب جاتا ہے اسے مار ڈالتی ہیں جیسا کہ اکرم اور وارث کے ساتھ ہوا۔
نیلی حویلی پر چھائے ، آسیب کے سائے ۔۔۔ قسط نمبر 4 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
چوہدری عمردراز نے اپنے تئیں گاﺅں والوں کو نیلی حویلی کے آسیب سے محفوظ رکھنے کیلئے اس کے چاروں طرف عمل کروا کر لال تعویذ کا حصار قائم کروا رکھا تھا۔ اس مقصد کیلئے اس نے خصوصی طور پر کہیں سے کسی سفلی عامل کو بلایا تھا۔ عامل نے نیلی حویلی کے چاروں طرف لکڑیاں ٹھونک کر لال تعویذ باندھ دیا اور تاکید کی تھی کہ کوئی بھی اس تعویذ کی حدود میں داخل ہونے کی کوشش نہ کرے۔
اس نے تنبیہ کی تھی کہ اگرچہ اس نے لال تعویذ کے حصار میں ان بدروحوں کو قید کر دیا ہے لیکن اگر کسی نے اس حصار کو پھلانگ کر حویلی کے اندر داخل ہونے کی کوشش کی تو پھر انجام ٹھیک نہیں ہو گا۔ کچھ لوگ اس واقعے کو عامل کی تاکید کی خلاف ورزی کا نتیجہ بھی قرار دے رہے تھے۔ غرض جتنا منہ اتنی باتیں کے مصداق اکرم اور وارث کی دہشت ناک موت کی ہر کوئی اپنی اپنی توجیہہ پیش کرنے میں مصروف تھا۔
ادھر گاؤں والوں کی چہ مگوئیوں کے برعکس تھانیدار احسان اللہ اپنی ہی سوچوں میں گم تھا۔ اس نے تفتیشی ٹیم کے چہروں پر شواہد تلاش کرنے میں ناکامی کے آثار دیکھے تو اس کے ماتھے پر فکرمندی کی شکنیں نمودار ہو گئیں۔ اس نے موجو کسان کو بلایا اور اس کا بیان قلم بند کر لیا۔ اس کے حواس اب کافی حد تک بحال ہو چکے تھے۔ چونکہ اس نے سب سے پہلے لاشوں کو دیکھا تھا اس لیے سب سے پہلے اسی کا بیان ریکارڈ کیا گیا۔ کچھ لوگوں نے یہ گواہی بھی دی کہ انہوں نے وارث اور اکرم کو رات کے وقت گاﺅں سے باہر جاتے دیکھا تھا۔
چونکہ وہ دونوں نشئی تھے اس لئے اس بات کو تقویت ملنے لگی کہ وہ دونوں یقینا نشہ کرنے کے لیے ہی نیلی حویلی میں گئے تھے جہاں موت منہ کھولے ان کی منتظر تھی۔ موجو کسان سے لے کر چوہدری عمردراز تک سب نے یہی بیان دیا کہ یہ کارستانی نیلی حویلی کی بدروحوں کی ہے تاہم حقائق جاننے کے لیے تھانیدار احسان اللہ نے لاشوں کو پوسٹ مارٹم کے لیے بھجوا دیا۔ لوگوں کے بیانات وہ پہلے ہی قلم بند کر چکا تھا۔ اس نے چوہدری عمردراز سے نیلی حویلی کے اندر جانے کی خواہش کا اظہار کیا۔
وہ اس حویلی کو ایک نظر دیکھنا چاہتا تھا جس سے گاﺅں والے اتنے دہشت زدہ تھے اور جہاں ان کے بقول بھوتوں اور بدروحوں نے بسیرا کر رکھا ہے۔ چوہدری عمردراز اسے حویلی کے اندر لے گیا۔ وہاں نشہ آور سگریٹوں کے ادھ جلے ٹوٹوں کو دیکھ کر اسے یہ سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ وہ دونوں واقعی رات کو یہاں نشہ کرنے آئے تھے۔ منشیات کی بدبو کے اثرات ابھی تک حویلی کی فضا میں موجود تھے۔ لیکن سب سے زیادہ حیران کن بات یہ تھی کہ جس حویلی میں ایک رات پہلے موت کا رقص ہوا تھا وہاں اب خون کا ایک قطرہ بھی نظرنہیں آ رہا تھا۔
رات کو ہونے والی شدید بارش کی وجہ سے حویلی کی چھت ابھی تک ٹپک رہی تھی اور بارشی پانی نے اس کے صحن کو بھی گیلا کر دیا تھا۔ دروازے کے باہر جس جگہ اکرم کی لاش پڑی تھی وہاں پر بھی بارش سے خون کے قطرے دھل چکے تھے۔ چوہدری عمردراز کے بقول حویلی چونکہ عرصہ دراز سے بند تھی اس لیے اس نے سیڑھیاں چڑھ کر اوپر جانا مناسب نہ سمجھا۔ یہاں بھی ثبوتوں کی تلاش میں اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا تھا۔ وہ اپنے آپ کو بند گلی میں کھڑا تصور کر رہا تھا۔ اس نے جانے سے پہلے نیلی حویلی پر ایک نظر ڈالی۔ اس کی پراسراریت اور وحشت ناکی کو اس نے بھی محسوس کیا۔ لیکن وہ اس بات پر یقین کرنے کے لیے تیار نہیں تھا کہ یہ سب بدروحوں کی کارستانی ہے۔ گاﺅں والوں کی زبانی سنے حویلی کے واقعات اور گواہیوں نے اسے مخمصے میں ڈال دیا تھا۔
چونکہ حویلی کا مالک چوہدری عمردراز تھا اس لیے تھانیدار احسان اللہ نے دریافت کیا کہ اس نے یہ حویلی کیوں چھوڑی۔ چوہدری عمردراز نے بھی اسے حویلی کی تاریخ اور اس سے جڑے بدروحوں کے واقعات بڑی تفصیل سے بتائے۔ اس نے اسے خود پر اور اپنے خاندان پر بیتنے والے مصائب سے بھی آگاہ کیا۔ تھانیدار تمام واقعات خاموشی سے سنتا رہا۔
جب چوہدری عمردراز چپ ہوا تو تھانیدار احسان اللہ کی پیشانی پر حیرت اور پریشانی کی ملی جلی شکنیں مزید گہری ہو چکی تھیں۔ اس کے لیے ان تمام باتوں پر یقین کرنا مشکل تھا لیکن چوہدری عمردراز اور گاﺅں والوں نے جتنے وثوق سے یہ باتیں بتائی تھیں انہیں نظرانداز کرنا بھی اس کے لیے آسان نہ تھا۔ چونکہ وہ اپنا کام مکمل کر چکا تھا اس لئے اب یہاں مزید ٹھہرنے کی اس کے پاس کوئی وجہ نہیں تھی۔ اُس نے چوہدری عمردراز سے الوداعی مصافحہ کیا اور پولیس ٹیم کے ساتھ واپس چلا گیا۔
’نیلی حویلی پر چھائے ، آسیب کے سائے ۔۔۔۔ ‘قسط نمبر 6 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں