نوجوان مصری لڑکیاں مسافروں کو کھانے پینے کی اشیاء اور پھلوں کا رس پیش کرتی جہاز میں تتلیوں کی طرح اِدھر سے اُدھر آ جا رہی تھیں، لوگ سنبھل کر بیٹھ گئے

Nov 07, 2024 | 09:46 PM

مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:54
الأقصر  
کوئی اتنی لمبی چوڑی پروازبھی نہیں تھی، قاہرہ سے الأقصر تک کوئی گھنٹے سوا گھنٹے کی مسافت تھی۔ میں اپنے اس سفر کو لے کر زیادہ فکر مند بھی نہیں تھا،کیونکہ ایک تو قاہرہ میں اتنے روز قیام کرنے کے بعد میرے اندر اب کافی اعتماد آگیا تھا، دوسرا ایک معاہدے کے تحت قاہرہ کے ہوٹل والوں نے الأقصر میں میرے لئے اچھے  ہوٹل اور ایک گائیڈ کا بندوبست کیا ہوا تھا، جس نے مجھے ایئرپورٹ سے وصول کرکے سب کچھ دکھا کر مجھے اگلی منزل کے لئے روانہ کرنا تھا۔
ہرچند کہ یہ ایک اندرون ملک پرواز تھی تاہم اس میں زیادہ تر مسافر غیر ملکی سیاح تھے۔ اس کے علاوہ متمول مصری باشندے بھی شریک سفر تھے۔ مالی طور پر پہنچ سے دور ہونے کی وجہ سے ابھی عام لوگ اس سہولت سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے تھے اور وہ بسوں اور ریل گاڑی کے سفر کو ہی ترجیح دیتے تھے۔
مجھے یقین  تھا کہ جہاز کا سارا سفر دریائے نیل کے اوپر سے ہونا تھا اور یہ سوچ کر میں نے کھڑکی والی نشست حاصل کی تھی۔ یہ بڑا ہی دلنشیں منظر ہوتا ہے جب ایک بڑے سانپ کی طرح بل کھاتا ہوا دریا جہاز کے نیچے نیچے چلتا ہے۔ ریاض سے آتے ہوئے ہمارا جہاز اسی طرح ہی گزر کر قاہرہ آیا تھا۔
مگر افسوس ا یسانہ ہوا۔ قاہرہ سے باہر نکلتے ہی پائلٹ نے ڈنڈی ماری اور دریائے نیل کے اوپر سے سفر کرنے کے بجائے جہاز کی نکیل صحرا کی طرف موڑ لی۔ میں کافی دیر تک اِس آس پر بیٹھا چپ چاپ نیچے دیکھتا رہا کہ کسی بھی وقت یہ دوبارہ اپنا رخ بدلے گا اور اِدھر اُدھر بھٹکنے کے بجائے اپنے اصلی راستے پر واپس آ جائے گا مگر ایسا ہوا نہیں۔ہر طرف صحرا اور چھوٹی بڑی پہاڑیاں ہی پھیلی ہوئی تھیں۔ میں نے تنگ آکر کھڑکی ہی بند کر دی۔ غالباً ایئر لائن کمپنیاں ایندھن بچانے کی خاطر یہ صراطِ مستقیم اختیار کرتی تھیں۔
نوجوان مصری میزبان لڑکیاں مسافروں کو کھانے پینے کی ہلکی پھلکی اشیاء اور پھلوں کا رس پیش کرتی جہاز میں تتلیوں کی طرح اِدھر سے اُدھر آ جا رہی تھیں۔
ابھی وہ برتن سمیٹ ہی رہی تھیں کہ سپیکر پر الأقصر کے آنے کا شور و غوغا اٹھا اور لوگ سنبھل کر بیٹھ گئے۔ میں نے بھی کھڑکی کھول کر باہر جھانکا تو مجھے بچھڑا ہوا دریائے نیل ایک بار پھرنظر آگیا،جس کے کنارے کے آس پاس پہاڑیوں کے دامن ایک چھوٹا سا شہر آباد نظر آیا اور یہی ہماری منزل تھی۔ قریب ہی تھوڑے تھوڑ ے فاصلے پر چھوٹے بڑے گاؤں بسے ہوئے تھے۔ چاروں طرف دور دور تک ہرے بھرے کھیت اور باغات دکھائی دے رہے تھے، جن میں کھڑا ہوا پانی دور سے کسی آئینے کی طرح روشنی منعکس کر رہا تھا۔
جیساکہ پہلے کہیں لکھا کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اسوان کے مقام پر ایک عظیم بند باندھ کر اس منہ زور اور سرکش دریا کو روکا گیا، جو پہلے بپھر کر کنارے توڑتا ہوا باہر نکل جایا کرتا تھا اور ہر طرف تباہی پھیلا دیتا تھا۔ اب اس کا سارا پانی جھیل ناصر میں روک کر وہاں سے ضروریات کے مطابق ہی پانی نشیبی مصر کی طرف چھوڑا جاتا ہے۔ اس لئے اب مقامی لوگ سیلاب کے خطروں سے بے نیاز بارہ مہینے اپنے کھیتوں میں موسمی پھل، سبزیاں، کپاس اور مکئی وغیرہ کاشت کرتے ہیں۔ 
 (جاری ہے) 
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں 

مزیدخبریں