تحریر: زینب وحید
16 اکتوبر کی ایک سیاہ رات میں 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری سے سیاسی فوائد یا نقصان ہر طرف زیر بحث ہے۔ اُس تاریک شب سے اُمید کی ایک کرن پھوٹی ہے جب پاکستان نے وہ کارنامہ کر دکھایا جو ترقی پذیر ممالک تو دور کی بات متعدد امیر ممالک بھی نہ کر سکے۔ اُس رات ہم ماحولیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے لئے عملی اقدامات کی طرف بڑھنے والے صف اول کے ممالک میں شامل ہو گئے۔ سیاسی جھگڑے، بیانات، الزامات، جوابات اور دعوے اپنی جگہ، لیکن جدید چیلنج کا مقابلہ کرنے کی کوشش کے طور پر قانون سازی پر حکومت کی شاباش تو بنتی ہے۔ 26 ویں آئینی ترمیم کی شق A 9 کے تحت ماحولیات کے تحفظ کو بنیادی حق تسلیم کر لیا گیا ہے۔ اس آرٹیکل کو "صاف اور صحت مند ماحولیات" کا نام دیا گیا ہے جس کے بعد صاف، صحت مند اور پائیدار ماحول ہر شہری کا بنیادی حق قرار دیا گیا ہے۔ اس کا کریڈٹ بلاشبہ پیپلز پارٹی کی رہنما اور سابق وزیر برائے کلائمٹ چینج شیری رحمان کو جاتا ہے۔
میں نے پاکستان کی یہ پیش رفت یہاں امریکا میں اپنے کارلٹن کالج کے ہم جماعتوں سے شیئر کی تو افریقی ممالک کے طلباء حیران رہ گئے ۔ سینئر بھارتی اسٹوڈنٹس نے بھی کافی پذیرائی کی اور مجموعی طور پر پروفیسرز صاحبان نے بھی تعریف کی ہے۔
ماحولیات کو آئینی تحفظ دینا ہماری پارلیمان کے وسیع النظر ہونے کا ثبوت، آج کی دنیا کے جدید مسائل اور چینلجز کا مقابلہ جدید سوچ سے کرنے کی مثبت سوچ کا عکاس ہے۔ ماحولیات کو بنیادی حق تسلیم کرنے سے یقینی طور پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے، تاہم حکومتی سطح پر ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ متعارف کرائی گئی شق کی ابھی کوئی تعریف نہیں کی گئی، نہ ہی عملدر آمد کا لائحہ عمل اور مستقبل کا روڈ میپ دیا گیا ہے، اس لئے امید ہے کہ جب نئی قانون سازی کی جو گونج سنائی دے رہی ہے تو شیری رحمان جیسی جہاندیدہ شخصیت شق A 9 کی تعریف بھی اس میں شامل کرلیں گی۔
ماہرین، سول سوسائٹی اور کلائمٹ ایکٹوسٹس کافی مطمئن ہیں کہ اب ماحولیاتی عدم تحفظ پر سرکاری اداروں سے عدالتوں کے ذریعے اقدامات اور مستقبل کی حکمت عملی کے بارے میں سوال کیا جا سکےگا جبکہ عدالتوں سے رجوع کرنے میں بھی قدرے آسانی ہوگی۔ عدالتیں بھی حکومت یا متعلقہ اداروں کو طلب کر کے پوچھ سکتی ہیں کہ جب آئین میں صاف، شفاف، صحت مند اور پائیدار ماحول ہر شہری کا حق ہے تو حکومت کیا عملی اقدامات کر رہی ہے؟
ماہرین کا خیال ہے کہ اس آئینی شق کو مزید بہتر بنانے کے لیے ماحولیات کی تعریف میں فضائی آلودگی، شوروغل (وائس پولوشن) ، صاف پانی کی فراہمی اور دیگر مسائل کے مراحل کی تعریف شامل کی جانی چاہیے۔ یعنی اس بات کی تشریح اور وضاحت کی جائے کہ صحت مند ماحول کا درجہ کیا ہو گا؟ مثال کے طور پر اس وقت پنجاب کے مختلف علاقوں کو اسموگ نے جکڑ کر رکھا ہے۔ حکومت نے اسمارٹ فیصلہ کرتے ہوئے اسموگ کے تدارک کے لیے لاہور میں گرین لاک ڈاؤن لگا دیا ہے۔ اس فیصلے کے تحت مخصوص علاقوں میں تعمیراتی کام نہیں ہو سکیں گے، کمرشل جنریٹرز نہیں چلیں گے، چنگچی رکشہ بھی نہیں جا سکیں گے اور رات آٹھ بجے کے بعد اوپن باربی کیو چٹخارہ بھی نہیں ہو گا۔
اپنی بہترین انتظامی صلاحیتوں اور فیصلوں کیلئے مشہور وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے بھی ایک انقلابی اعلان کرتے ہوئے اسموگ پر پاک بھارت ڈپلومیسی کا اشارہ دے دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسموگ سیاسی نہیں بلکہ انسانی مسئلہ ہے اور اس پر پاک بھارت ڈپلومیسی کی ضرورت ہے۔ جب تک دونوں پنجاب مل کر اقدام نہیں کرتے ہم اسموگ سے نہیں لڑ سکتے۔ مریم نواز نے بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ کو خط لکھنے کا اشارہ بھی دیا ہے۔
اسموگ ماحولیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات میں سے ایک ہے، اس کی سنگینی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ 25 اکتوبر کو سابق چیف جسٹس آف پاکستان نے اپنے الوادعی خطاب میں بھی اس پر روشنی ڈالی جس سے اعلیٰ ترین سطح پر معاملے کے ادارک کی عکاسی ہوتی ہے۔ انہوں نے کلائمٹ چینج پر غور و فکر کو وقت کی ضرورت قرار دیا اور کہا کہ قوم اور دنیا کو اس پر توجہ دینی چاہیئے۔ کرہ ارض ماحولیاتی تبدیلی کی زد میں رہا تو یہاں انسانوں اور دیگر حیات کا زندہ رہنا نامکن ہو جائے گا۔ قاضی فائز عیسیٰ کے یہ الفاظ اعلیٰ ترین سطح پر دعوت فکر ہیں کہ عوام اور تمام ادارے مل کر اس بحران کا مقابلہ کریں۔
اس حقیقیت سے آنکھیں چرانا ممکن نہیں کہ ہم ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں کلائمٹ چینج بڑا خطرہ بن چکا۔ پوری دنیا میں درجہ حرارت ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے، بارشوں کے اوقات بدل رہےہیں، سطح سمندر بلند ہوتی جا رہی ہے ۔ قدرتی آفات تمام ہی ممالک میں روزمرہ کی زندگی کا حصہ بن چکی ہیں۔ یہ سب کچھ انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں ہوا ہے۔
انتسیویں عالمی ماحولیاتی کانفرنس (کاپ 29) بھی اب اسی ماہ 11 سے 22 نومبر تک آذربائیجان کے دارالحکومت باکو میں ہو رہی ہے۔ دنیا بھر سے حکومتی نمائندے، سول سوسائٹی، تحقیق کار، سائنسی علوم اور تجارت سمیت مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے افراد متحد ہو کر غور و فکرکریں گےکہ ماحولیاتی تبدیلی کی تباہ کاریاں روکنےکےلئے کیسی مشترکہ حکمت عملی اپنائی جائے۔ پاکستان کی کوششوں سے کاپ 27 میں لاس اینڈ ڈیمج فنڈ قائم ہونا تھا تاہم یہ فنڈ مکمل طور پر اب تک فعال نہیں ہوسکا حالانکہ دبئی میں ہونے والی کوپ 28 میں بھی اس پر کافی بات ہوئی تھی۔ اس فنڈ کے تحت موسمیاتی آفات سے بچاؤ کے لیے ہنگامی امداد کا فنڈ قائم کرنا تھا تاکہ ترقی پذیر اور غریب ممالک میں موسمیاتی آفات سے ہونے والی تباہیوں کا فوری طور پر ازالہ کیا جاسکے۔
کوپ 29 اس حوالے سے بہت اہم ہے کہ امیر ممالک کو اُن کے وعدے یاد دلائے جائیں گے۔ امید ہے کہ اس بار کانفرنس میں 100 ارب ڈالر کے کلائمٹ فنانس فنڈ کو سالانہ بنیادوں پر فعال کرنے، گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کی تلافی کے کاربن کریڈٹ کی تجارت کو پوری دنیا میں پھیلانے اور لاس اینڈ ڈیمج فنڈ فوری طور پر فعال کرنے پر پیشرفت ہو گی۔
پوری دنیا اعتراف کرتی ہے کہ پاکستان اُن ممالک میں شامل ہے جن کا گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں حصہ تو ایک فیصد سے بھی کم ہے، لیکن متاثرہ ممالک کی فہرست میں پانچواں نمبر ہے۔ 2022 میں سندھ میں تباہ کن سیلاب سے مالی نقصانات کا تخمینہ تقریباً 3 ارب ڈالر لگایا گیا۔ امیر ممالک نے کاپ 28 اور پھر جینیوا کانفرنس میں وعدے تو بہت کئے، لیکن ابھی تک وعدہ کی گئی رقم کا معمولی حصہ بھی ہمیں نہیں مل سکا۔ اس کی وجہ یہ ہےکہ لاس اینڈ ڈیمج فنڈ میں اب تک چند ملین ڈالر ہی رقم جم ہو سکی ہے، اسی طرح کلائمٹ فنانس کی مد میں بھی اب تک موسمیاتی موافقت کے آٹھ پروجیکٹ پاکستان کو ملے ہیں جن کی مالیت پچیس کروڑ ڈالر ہے اور جو سب کی سب گرانٹ نہیں بلکہ بڑا حصہ آسان شرائط کے قرضوں پر مشتمل ہے۔ پاکستان کو سندھ اور بلوچستان میں ماحولیاتی تبدیلی سے موافقت قائم کرنے کے لیے 10 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔ امید ہے کہ باکو کانفرنس میں یہ مسئلہ حل کرنے کے لئے عملی اقدامات تجویز کئے جائیں گے۔
اس وقت پاکستان سمیت ماحولیاتی تبدیلی سے متاثرہ تمام ممالک کی نظریں کاپ 29 پر لگی ہیں۔ اگر شرکاء اپنے ایجنڈے میں شامل نصف نکات پر بھی کسی واضح لائحہ عمل میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو ماحولیاتی تبدیلی کے ذمہ دار ترقی یافتہ ممالک کے پاس کلائمٹ فنانس اور لاس اینڈ ڈیمج فنڈ میں اپنا مکمل حصہ ڈالنے سے بچنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہے گا۔ کاپ 29 میں بھی پاکستان کو ایک بار پھر پوری سفارتی قوت کے ساتھ اپنا کیس مضبوط بنا کر پیش کرنا ہو گا۔
سائنسدانوں نے خبردار کیا ہے کہ دنیا تباہی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ امیر ممالک کے لئے اب کلائمٹ چینج کا مقابلہ کرنے کےلئے انقلابی اقدامات سے نظریں چرانا ممکن نہیں۔
26 ویں آئینی ترمیم کی صورت میں پاکستان میں ماحولیات سے متعلق قانون سازی تو مثالی ہے، لیکن صرف قانون بنا دینا کافی نہیں بلکہ فوری عملی اقدامات بھی ناگزیر ہیں۔ معاشرے کے ہر فرد کو محض فکر مند ہونے کی کیفیت سے نکل کر سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے تک محدود ہونے کے بجائے عملی طور پر کچھ کر دکھانا ہوگا اور اسی کو کلائمٹ ایکشن کہتے ہیں۔
نوٹ: یہ مصنفہ کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔