ڈپٹی کمشنر                        (1)

Oct 07, 2024

محسن گواریہ

 

انگریز حکومت کے دور میں متحدہ ہندوستان میں ہر وہ گر آزمایا گیا،جس کی بدولت برصغیر میں حکومتی رٹ قائم کی جا سکے،یورپ میں نافذالعمل بلدیاتی نظام سے ہٹ کر گوروں نے اس خطے میں کلکٹریٹ کا محکمہ قائم کیا،جس کا بنیادی مقصد لگان،مالیانہ اور آبیانہ اکٹھا کرنااور کاشتکاروں کی اجناس برطانوی ضرورت کے مطابق کسان سے خریدنا تھا، تب پولیس کا محکمہ عدالت کے ماتحت ہوتا لوگ اپنی شکایات لیکر عدالت جاتے اور عدالتی حکم پر ملزم کو عدالتی عملہ عدالت میں پیش کرتا، کلکٹریٹ کے دفتر کو برطانوی حکومت کے استحکام اور عوام سے بہتر رابطہ کے لئے1853ء میں کمشنری نظام میں تبدیل کر دیا گیا،کلکٹریٹ کے نظام میں مقامی لوگوں کی شرکت ماتحت عملہ کے طور پر تھی مگر کمشنری نظام میں مقامی لوگوں کو بھی مقابلے کے امتحان کے بعدشرکت اور عہدے دینے کی ابتدا ہوئی،تا ہم کمشنر کا عہدہ تب بھی انگریزکے لئے مخصوص تھا،اس وقت برطانوی حکومت کے سامنے سرکار کا تسلط بربنائے انصاف اور ترقی تھاتا ہم کمشنر کا دفتر انتہائی طاقتورہوتا تھا جہاں ضابطہ فوجداری کے تحت جرائم کی روک تھا م جیسے دفعہ 144کا نفاذ، لاؤڈ سپیکر کے استعمال،اجتماعات کی اجازت، ڈومیسائل،اسلحہ کے لائسنس، ٹریفک چالان، تجاوزات کا خاتمہ، گراں فروشی،ذخیرہ اندوزی،امن و امان،ترقیاتی منصوبوں اور مقامی سطح پر انصاف کی فراہمی کے معاملات کمشنر کے دفتر کی ذمہ داری تھے،کمشنر ڈویژن کا اور اس کے ماتحت ڈپٹی کمشنر ضلع کا سربراہ ہوتا تھا۔

آزادی کے بعد مملکت خداداد میں بھی اس نظام کو اپنایا گیا اور یہ کامیابی سے چلتا رہا تاہم  ڈپٹی کمشنر کے ادارہ کو آئین کی شق نمبر 175(3) کی رو سے عدلیہ کے انتظامیہ سے جدا کئے جانے کے حوالے سے1993ء سے متنازعہ اور کمزور بنانے کی کوشش کی گئی اور جنرل پرویز مشرف کے دور میں اگست 2001ء میں اس نظام کا خاتمہ کر دیا گیا، اس کی جگہ ضلعی حکومتوں کا ایک نیا نظام سامنے لایا گیا،اس کے پس پردہ ڈی ایم جی والوں میں پایا جانے والا ایک تاثر یہ بھی بہت عام تھا کہ نیشنل ری کنسٹرکشن بیورو کے چیئرمین بہاولنگر کے کسی ڈپٹی کمشنر سے بہت ناراض تھے، وہ انہیں سستے داموں فروخت کی ہوئی زمین نئے مالکان سے واپس دلانے میں ناکام رہے تھے، سو وہ اس دفتر کو برباد کرنے پرآمادہ تھے، اس فیصلے نے پاکستان کی سب سے بڑی اور ایگزیکٹو سروس ڈی ایم جی کا ٹائی ٹینک ڈبو دیا۔

دوسری جانب اس دور میں پولیس افسروں کی ایک موثر تعداد وزارت داخلہ میں تعینات تھی،وہ افسر پولیس کو ایک بااختیار اور جواب دہی سے بالاتر ادارہ دیکھنا چاہتے تھے،یوں ایک کمزور سے پبلک سیفٹی کمیشن اور آئی جی کو بیک وقت پبلک سروس کمیشن، کمانڈر آف دی فورس اور بجٹ کے معاملے میں ہوم ڈیپارٹمنٹ کی نگرانی سے آزاد ادارہ دیکھنے کی خواہش نے یہ دن دکھائے۔اس طرح افضل شگری، آفتاب راٹھور اور شعیب سڈل نے مل کر نئے پولیس آرڈر کو تشکیل دیا،پولیس میں موجودہ بگاڑ کا ایک سبب یہ پولیس آرڈر بھی ہے جس میں اختیارات کو ایک ہی ادارے اور پوسٹ یعنی آئی جی کے دفتر میں جمع کردیا گیا،پولیس انگریزی اصطلاح کے حساب سے Top Heavy ہو گئی،اس سے قبل  پولیس کا کام ایس پی لیول پر ختم ہوجاتا تھا  اس کے بعد تمام کام ہوم ڈیپارٹمنٹ کا ہوتا تھا جو پالیسی ساز دفتر تھا،ڈی ایم جی اور پولیس سروس کی اس دیرینہ باہمی چپقلش سے ہٹ کر دوسری طرف جنرل پرویز مشرف کو یہ باور کرایا گیا تھا کہ ضلعی سطح پر ایک مقامی سیاسی ہیوی ویٹس کی مرضی کے تابع نظام کا خاتمہ ضروری ہے اسی طرح ملک میں ایک عرصے سے سیاست کے میدان میں غالب دو بڑی سیاسی پارٹیوں  کو ضلع ناظم کا ادارہ صوبائی سیاست میں قدم نہیں جمانے دے گا اور اس کے بعد ہر طرف آپ ہی آپ ہوں گے۔

ڈپٹی کمشنر کا عہدہ ہمارے ہاں ہمیشہ سے ہی زیر بحث رہا ہے،انگریز سرکار کے کچھ کام ایسے بھی ہیں جن کی تعریف نہ کرنا ناانصافی ہو گی،انگریز سرکار نے ہندوستان میں مضبوط ادارے بنائے اور اگر ادارے مضبوط ہوں تو ملک کی گاڑی نان سٹاپ چلتی ہے،ماضی کا ڈی سی بہت مضبوط ہوتا تھا،جس کی وجہ سے حکومتی رٹ بھی بہت مضبوط تھی اور آج کا ڈی سی ایک کمزور ادارہ بنا دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے حکومتی رٹ بھی کمزور ہو چکی ہے۔ یہ بات طے ہے کہ ڈپٹی کمشنر ضلع کا صرف حکمران ہی نہیں ہوتا تھا،وہ عام شہری کا ترجمان اور سرکار کا نمائندہ بھی ہوتا تھا،ڈپٹی کمشنر آفس سے ماضی میں عوام کو وہ سب کچھ میسر آتا جو اس کی تمنا ہوتی، مگر مشرف دور میں ڈی سی او کا دفتر متعارف کرا کے ڈپٹی کمشنر کا ادارہ ختم کر دیا گیا، ڈی سی او کو اکثر دوست ڈی سی زیرو بھی کہتے تھے۔ یہ نظام زیادہ دیر تک نہ پنپ سکا،مگر ایک ستم یہ کیا گیا کہ بے لگام اور کرپٹ محکمہ پولیس کو ڈپٹی کمشنر کی کمان سے نکال کر مادر پدر آزاد کر دیا گیا،مجسٹریسی نظام جو مقامی سطح پر عوام کو انصاف دینے اور انتظامی امور سنبھالنے کا ذمہ دار تھا ختم کر دیا گیا،اگر چہ ضلعی نظام جو مشرف دور میں نافذ کیا گیا اس میں بہت سی خوبیاں تھیں، مگر وہ کمشنری نظام کا نعم البدل ثابت نہیں ہو سکا تھا۔

انگریز ایک گورے ڈپٹی کمشنر کے ذریعے میلوں میل پھیلے ضلع کے سرداروں، علماء، امراء کو قابو میں رکھتا تھا، اس زمانے کے ڈی سی اور ایس پی گھروں کے رقبے اور طرز تعمیر دیکھ لیں، پاکستان کے قیام کے بعد بھی اسی نوع کے با اختیار، با بصیرت اور مدبر ڈپٹی کمشنر نظر آتے ہیں،جن میں قدرت اللہ شہاب جیسے بہت تھے، مرکزی حکومت، منتخب یا فوجی حکمران ان کے ذریعے ہی ضلع چلاتے تھے، ان ڈپٹی کمشنروں کو مکمل اختیارات حاصل ہوتے تھے، ڈپٹی کمشنر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ بھی ہوتا تھا،کسی واقعے، احتجاج، جلسے جلوس کے بارے میں اس کا پریس نوٹ، ہینڈ آؤٹ حرفِ آخر ہوتا تھا، قدرت اللہ شہاب کی ڈپٹی کمشنر کی ڈائری تو ہمارے ادب اور تاریخ کا ایک اہم باب ہے،ڈپٹی کمشنر اپنے طور پر شہریوں کی مشاورتی کونسلیں بناتے تھے، ان سے رابطے میں رہتے تھے۔ ان دنوں ہر ضلع کا سالانہ میلہ اسپاں و مویشیاں، کھیلوں کے مقابلے اس ضلع کی توانائی ثقافت و ادب کا مظہر ہوتے تھے، شہید ذوالفقار علی بھٹو ڈپٹی کمشنروں سے رات گئے حال احوال لیتے تھے، جنرل ضیاء الحق نے بھی یہ طریقہ اختیار کیا،ڈپٹی کمشنر اور ضلع کے انچارج بریگیڈیئر یا کرنل سے ہفتے میں ایک بار ضرور فون پر بات کرتے تھے،ایک ڈپٹی کمشنر پورے ضلع کا، نباض، مورخ، ماہر اور درد مند ہوتا تھا،فرقہ وارانہ مسائل کو بھی وہ علماء سے میٹنگوں کے ذریعے حل کرتا تھا، کہیں کرفیو لگانا ہوتا تو یہ اس کا فیصلہ ہوتا تھا،آفات ناگہانی سیلاب،زلزلہ، بڑی آگ یا وباء کے دنوں میں بھی ڈی سی کی معاملہ فہمی ہی چلتی تھی،پنجاب حکومت نے صوبے بھر میں ڈپٹی کمشنر کا نظام دوبارہ متعارف کرا دیا ہے،مگر اسے ایک طاقتور ادارہ بنانا سٹیٹ اور عوام دونوں کے لئے ضروری ہے۔ (جاری ہے)

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

مزیدخبریں