آج ہر انسان اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ بے شمار نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی بجائے دولت کا پجاری، دلدادہ اور اس کے حصول کے لئے بغیر محنت و مشقت کے چند دنوں میں امیر کبیر بن کر زندگی گزارنے کا خواہاں ہے اسے حلال و حرام سے کوئی سروکار نہیں۔ حالانکہ مسلمان ہونے کے ناطے اسے علم ہے ’’کہ رشوت دینے والا اور رشوت لینے والا دونوں جہنمی ہیں‘‘ سرکاری دفاتر میں اہلکاران کا درشت رویہ اپنا کر نذرانہ مٹھائی اور فوری کام کا لالچ دے کر رشوت طلب کرنا، عدم تعمیل پر سرخ فیتہ کی نذر کرنا، طرح طرح کے اعتراضات لگا کر تاخیری حربے اختیار کرکے رسوا کرنا ان کا معمول بن چکا ہے۔ یہ صرف حرام مال ہی نہیں کھاتا بلکہ معصوم، بے گناہ اور غریب لوگوں سے رزق حلال کا لقمہ بھی چھین لیتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں جہاں دیگر عیوب اور برائیاں جنگل کی آگ کی طرح پھیل رہی ہیں وہاں اس متعدی مرض نے بھی اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ احادیث مبارکہ ہیں ’’جو بھی گوشت پوست حرام مال سے پروان چڑھتا ہے اس کے لئے دوزخ کی آگ زیادہ موزوں ہے‘‘ جو شخص رشوت، بدعنوانی، دغا بازی اور کام چوری وغیرہ سے حرام کا روپیہ کماتا ہے۔ وہ بدبخت یہ گناہ کرکے اپنے ہی ماں باپ، بہن بھائی، بیوی بچوں اور احباب پر ظلم کرتا ہے، کیونکہ قانونِ قدرت ہے کہ حرام کا روپیہ زہر بن جاتا ہے اور ہر وہ شخص جس پر بھی حرام کا زہریلا روپیہ خرچ ہوتا ہے اس کا ضمیر مردہ ہو جاتا ہے اس کی شرم و حیا ختم ہو جاتی ہے اور یوں جنت کے دروازے اس پر بند ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تو انسانی زندگی کو پاکیزہ رکھنے کے لئے حلال و طیب رزق کھانے اور کمانے کا حکم دیا ہے اور حرام سے منع فرمایا ہے۔رشوت انسانی معاشرے کے لئے ناسور اور مہلک مرض ہے جو اس کا شکار ہو جاتا ہے۔ لقمہ جہنم بن جاتا ہے،جس معاشرے میں یہ بیماری عام ہو جائے، وہاں عدل و انصاف کا گلا گھونٹ کر حق پرستی اور دیانتداری کا خون ہوتا رہتا ہے، جس کے نتیجے میں وہ معاشرہ اختلاف، انتشار اور خلفشار کا شکار ہو جاتا ہے۔ افراد میں اخوت، محبت، ہمدردی اور بھائی چارگی کے رشتے ٹوٹ جاتے ہیں۔ بغض و عناد، نفرت و کمینگی، عداوت و شقاوت کا شعلہ بھڑکتا رہتا ہے جس کی وجہ سے اخلاقی گراوٹ، اچھے برے کی تمیز کا خاتمہ، لوگ خواہشات کے پجاری اور جائز و ناجائز کی تمیز کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔
موجودہ دور اخلاقی گراوٹ کا بدترین زمانہ ہے جس میں جھوٹے، مکار، دغا باز، رشوت خور، بے ایمان اور اخلاق باختہ لوگ غالب آتے جا رہے ہیں۔ وہ ہر جگہ دندناتے پھر رہے ہیں جبکہ ان کو ترقی پسند، روشن خیال اور لبرل انسان کہا جا رہا ہے(نعوذ باللہ) اے کم ظرف اور نادان ذرا سوچ کہ حرام مال سے تیرے مال میں پستی، بے برکتی اور تنزلی پیدا ہوتی ہے اور تو اس عارضی دنیا کی خوشیوں میں نہ الجھ کر رہ جا بلکہ آئندہ منزل کی خوشحالی اور کامرانی کا سوچ! یہ تمام اشیائے آرام و آسائش اور مال و دولت تو یہیں چھوڑ کر جانا ہے۔ تیرے بعد اولاد رنگ رلیاں منائے گی، جبکہ تو اپنے گناہوں کی سزا بھگت رہا ہو گا۔
رشوت خوری کا بنیادی سبب دنیاوی عیش و عشرت میں خوب سے خوب تر کی دوڑ ہے۔ ماضی میں نیک پرہیز گار صاحب کردار اور سچے مسلمان کو عزت دی جاتی تھی لیکن آج زمانہ بھی بدل گیا اور مغربی تہذیب نے ہمارا بیڑہ ہی غرق کر دیا۔ پاکستان میں اس متعدی مرض کے خاتمے اور سدباب کے لئے ضرب عضب کی طرح کا آپریشن کیا جانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اے میرے عاقبت نااندیش دوست! ذرا ٹھنڈے دل اور مفکرانہ انداز سے سوچ کہ کیوں تو اپنے ہی گھر کو اکھاڑنے پچھاڑنے اور اس کی شکست و ریخت میں لگا ہوا ہے، تجھے تو اس کی بہتری اور بھلائی کی فکر دامن گیر ہونی چاہیے تھی، کیونکہ ترے آباؤ اجداد نے اس کے حصول کے لئے اپنے گھر بار اور پیاروں کو چھوڑنے کے علاوہ اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا۔خودغرضی چھوڑیئے، حب الوطنی کا مظاہرہ کیجئے، تاکہ دونوں جہانوں میں آپ کامیاب و کامران ہوں۔ رشوت ستانی کے قلع قمع اور اس کی بیخ کنی میں حکومت وقت کا ساتھ دیں۔ یہ نیک لوگوں کا ہرگز شیوہ نہیں کہ اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مار کر زخمی کیا جائے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ملک کو دن دگنی رات چوگنی ترقی دے کر امن کا گہوارہ بنائے اور رشوت ستانی سے پاک کر دے۔ آمین!*