ٹیڑھی راہیں اور ملکی مفادات

Feb 08, 2024

مقبول احمد قریشی، ایڈووکیٹ

  بدقسمتی سے ملک میں بدعنوانی، قانون شکنی، کام چوری اور اقربا پروری کے حالات وقت گزرنے کے ساتھ کم ہونے کی بجائے بڑھتے جا رہے ہیں۔ اس بارے میں مختلف شعبہئ زندگی کے بیشتر افراد اپنی کارکردگی درست کرنے کی بجائے ذاتی اغراض کے حصول کو ترجیح دینے کی ڈگر اپنا رہے ہیں لیکن ان حضرات کا انداز تکلم اور خطابت زیادہ تر غلط کاریوں سے اجتناب کرنے پر مبنی زور دینے پر ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ لوگ اپنے معاملات کی کامیابی کے لئے مروجہ قوانین و ضوابط کی پابندی کرنے اور ان کے احترام سے گریز کر کے آگے بڑھنے کی خاطر مختلف اور متضاد انداز کے دلائل پیش کرنے لگتے ہیں۔ حالانکہ کسی ذاتی یا اجتماعی کام یا پالیسی پر عمل کے لئے متعلقہ قانونی طریقوں اور لوازمات سے کسی طور انحراف نہیں کیا جا سکتا۔ اس لئے ذرائع ابلاغ میں آئے روز اس امر کے الفاظ و جملے پڑھنے اور سننے میں آتے ہیں کہ اپنے مفادات کی خاطر وہ متعلقہ افراد آئین و قانون کی پاسداری کو نظر انداز کر کے آگے بڑھنے کی کوششیں کرتے ہیں۔ جبکہ یہ طرز عمل قانون سے روگردانی کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ انداز فکر و عمل ذمہ دار اکثریتی حضرات کی جانب سے جاری رہنے سے ملک کے دیگر لوگوں پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں جو یہاں کج روی اور بد عملی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ کیونکہ آئین و قانون اور شائستہ اقدار و روایات کے احترام اور ترویج کی ذمہ داری بلا شبہ مقتدر اور با اثر حضرات و خواتین پر عائد ہوتی ہے جو کسی ملک اور معاشرے کے اطوار و آداب کو پروان چڑھانے میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔ ایسی کئی مثالیں دیگر ترقی یافتہ ممالک اور براعظم ایشیا کے بعض ملکوں میں بھی سالہا سال سے رائج اور موثر ہیں۔ یوں ان ممالک کے بیشتر لوگ ترقی اور خوشحالی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ 

سطور بالا سے واضح طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ وطن عزیز میں آئین و قانون کے مروجہ اصول و ضوابط کی پاسداری کو بہر صورت ضروری توجہ اور ترجیح میں ہی ہماری بہتر اور جلد تعمیر و ترقی کے پر منصوبوں کی تشکیل و تکمیل لازم عوامل ہیں۔ جبکہ بعض بڑے ناموں کے افراد اپنی برتری کے لئے من مرضی کے بیانات جاری کرکے بالادستی کے دعوے کرتے رہتے ہیں۔ ان کا یہ رویہ بعض اوقات ملکی آئین اور قوانین کے اصولوں کے منافی ہوتا ہے لیکن وہ ان الفاظ و کلمات کو بار بار دہرا کر یہ تاثر بنانے کی روش اپناتے ہیں۔ جیسے وہ سب کچھ مروجہ اصول و ضوابط کے مطابق بتا اور دہرا رہے ہیں۔ ان کی ایسی نا مناسب انداز کی بیان بازی ملک و قوم کے مفادات کے سراسر، منافی ہے جبکہ جھوٹی اور بے بنیاد الزام تراشی کو حریف نمائندوں اور امیدواروں کے خلاف ذرائع ابلاغ میں نشر اور شائع کرانا بھی منفی حرکات ہیں۔ ذمہ دار افراد سیاسی رہنماؤں اور انتخابی مہم میں حصہ لینے والے حضرات سے ہرگز یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ من گھڑت قصے کہانیوں کے واقعات، اختراع کر کے مد مقابل امیدواروں کی عزت و شہرت کو پامال اور برباد کرنے کا کردار ادا کریں۔ یاد رہے کہ کج روی اور بد دیانتی کے الزامات پر مبنی سیاسی بیانات اور تقریریں معاشرے میں افسوس ناک نوعیت کے منفی رجحانات کو تقویت دیتے ہیں۔ اگر بعض سیاسی رہنما ایسی غیر ذمہ داری اور بد زبانی کی ترویج کر کے معاشرے میں زہر گھولنے کی کارروائیوں پر فخر و ناز محسوس کر کے اتراتے رہیں گے تو ان کی منفی حرکات بلا شبہ ہر طبقہ فکر کی جانب سے قابل ملامت اور مذمت کی متقاضی اور مستحق ہیں۔ حریفوں کی بلا جواز پگڑیاں اچھالنے کی روش، پست ذہنیت کی علامت ہے۔ 

یاد رہے کہ کج روی یا ٹیڑھی راہوں پر چلنے سے زندگی میں نظم و ضبط کے اصولوں سے پہلوتہی اختیار کرنے کا رویہ انسان کی مشکلات میں اضافہ کا سبب بنتا ہے۔ یہ مہذب معاشروں میں قانونی حدود سے تجاوز کرنے کا وتیرہ ہے۔ انسانی زندگی میں تعلیم و تربیت کی بنیادی ضرورت ملکی اور صوبائی آئین و قوانین پر خلوص نیت سے عمل داری اشد ضروری لائحہ عمل قرار دیا جاتا ہے۔ اہل وطن پر بھی ان اصولوں پر مختلف امور میں اپنے فرائض اور ذمہ داریاں نبھانا لازمی تقاضہ ہے۔ ان اصولوں سے  اختلاف کر کے اصلاحی تدابیر اور اقدامات تو اختیار کئے جا سکتے ہیں لیکن ان پر عمل کرنے سے صریحاً انکار یا منافرت کا اندازِ کار قانون شکنی کے زمرے میں آتا ہے جس کے تحت مختلف انداز کے جرائم کے ارتکاب پر تادیبی سزائیں متعلقہ عدالتوں سے دینے کی قانون سازی مہذب ملکوں کے معاشروں میں سینکڑوں سال سے نافذ اور رائج ہے۔ وطن عزیز میں ان ملکوں کے مثبت اقدامات اور اصلاحاتی طریقوں کا جائزہ لے کر ہماری مختلف بدلتے حالات کے تحت گاہے بگاہے تعمیری اور ترمیمی تجاویز کی قانون سازی کی جاتی ہے۔ لیکن بد قسمتی سے یہ بات یہاں وضاحت سے عرض کرنا ضروری لگتی ہے کہ یہاں کے اکثر لوگ آئین اور قانون کے احترام پر مطلوبہ عزم و عمل سے توجہ دینے پر گریز کرنے سے پشیمان ہونے کی بجائے فخر محسوس کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ رویہ غیر مہذب اور قانون کے احترام کے تقاضوں کے سراسر منافی ہے جب بعض سیاسی رہنما ایسا طرز عمل اختیار کر کے اس وتیرے کی ذرائع ابلاغ میں ترویج اور تشہیر کرنے کو جاری رکھیں گے تو ظاہر ہے کہ عام لوگ بھی ان کی پیروی میں ایسے انداز فکر و عمل کو اپنانے اور بڑھانے میں بلا روک ٹوک کردار ادا کرتے رہیں گے۔ اس طرح ملک اور معاشرے میں قانون شکنی کے منفی رجحانات کو پھیلانے کے رجحان اور دائرہ اثر وسیع ہو جاتا ہے اور تخریب کاری کے واقعات آئے روز وقوع پذیر ہو سکتے ہیں۔ ملک بھر کے علاقوں اور انتخابی حلقوں میں بلا کسی خوف اور رکاوٹ آزادی اور جرأت کے اظہار کی ضرورت ہے۔

مزیدخبریں