مینگورہ(ڈیلی پاکستان آن لائن)دریائے سوات میں اب تک کتنے افراد دریا کی لہروں کی نذر ہو چکے ہیں ۔۔؟ اس حوالے سے افسوسناک تفصیلات سامنے آئی ہیں ۔
مقامی سینئر صحافی عبیداللہ عابد کی رپورٹ کے مطابق سوات میں وقفے وقفے سے تیز بارشوں کا سلسلہ جاری ہے دریاۓ سوات میں تیز ریلہ آنے سے 25 افراد پانی میں بہہ گۓ اب تک 20افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور کئی افراد تاحال لاپتہ ہیں 10لاشیں جن میں3 بچے 2 خواتین اور 5 مرد شامل ہیں کی لاشیں سیدوشریف ہسپتال پہنچادی گئی ہیں باقی افراد کی تلاش جاری ہے ۔
کل رات سے سوات میں شدید بارشوں کا سلسلہ جاری ہے۔ چند روز قبل دریاۓ سوات میں شدید سیلابی ریلا آنے سے مینگورہ بائی پاس میں دریا کے کنارے پر مختلف مقامات پر لوگ پیکنک منارہے تھے کہ انکے اردگرد پانی جمع ہونا شروع ہو گیا لیکن ایک بدقسمت خاندان جس میں 15 افراد خواتین مرد اور بچے شامل تھے سیلابی پانی کے نذر ہوگۓ۔ ہلاک شدگان میں 10افراد سیالکوٹ سے تھے جن میں 4مرد 3خواتین اور 3بچے تھے ۔ 6افراد کاتعلق مردان سے بتایا جاتا ہے جس میں 3 مرد اور 3خواتین شامل ایک شخص کاتعلق کراچی سے بتایا جاتا ہے۔
اب تک کی غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق کالام سے لیکر مینگورہ تک 75 افراد کی سیلابی پانی میں بہہ جانے کی اطلاعات آرہی ہے لیکن سرکاری ذرائع کے مطابق 25 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہوچکی ہے اور 10 کی لاشیں مل گئی ہیں.
دریاۓ سوات کے کنارے پر جو بدقسمت خاندان پانی میں بہہ چکا ہے اس پر عوام نے ضلع انتظامیہ اور ریسکیو 1122کے خلاف شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہےکہ 2 گھنٹوں سے بد قسمت خاندان پانی میں گھرا تھا اور ایک اونچی جگہ پر کھڑا تھا لیکن 2گھنٹوں سے کوئی بھی ادارہ ان کو بچانے کیلئے نہیں آیا جب سارے افراد پانی میں بہہ گۓ پھر انتظامہ آئی۔عوام نے ان اداروں کے خلاف شدید غم و غصے کا اظہار کیا۔
الخدمت فاؤنڈیشن کی صوبائی نائب صدر ڈاکٹر خالد فاروق ضلعی صدر ضیا ءاللہ اپنی ٹیم کے ساتھ پہنچے اور بہہ جانے والے افراد کی تلاش میں دریاۓ سوات میں کیمپ قائم کیا ۔ لاشوں کو انکےآبائی علاقوں تک پہنچانے کے لیے ایمبولینس سروس کا بندوبست بھی کیا گیا ۔
مقامی سینئر صحافی عبیداللہ عابد کی رپورٹ کے مطابق اس وقت سوات میں ضلعی انتظامیہ اپنے کوتاہیوں پر پردہ ڈالنے کےلیے غریب عوام کے ہوٹلوں دکانوں اور تندوروں کو انکروچمنٹ کے نام پرگرا رہی ہے اور ابھی تک 70سے زائد مقامات پر کارروائی کی ہے ۔کمشنر مالاکنڈ ڈویژن نے اپنی رپورٹ میں سارا ملبہ سیاحوں پر ڈال دیا ہے اور انکا کہنا ہے کہ ہوٹل کے سیکیورٹی گارڈ نے ان 18افراد کو ادھر جانے سے منع کردیا تھا مگر افسوس اس وقت انتظامیہ سورہی تھی جب یہ لوگ پکنک منانے چلے گئے ۔
عبیداللہ عابد نے آنکھوں دیکھا حال بیان کرتے ہوئے کہا کہ دریائے سوات کی موجوں کی نذر ہونیوالا خاندان 3 گھنٹے تک امداد کامنتظر رہا ،سب سے درد ناک لمحہ اس وقت تھا جب باپ بے چارہ دیکھتا رہا کہ اس کا بچہ، بیٹی، بیوی، بہن اور سالی دریا کے نذرہورہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ یہ منظر کسی کو بھی نہ دکھائے۔ میں خود اس کا چشم دید گواہوں اور اب بھی جب وہ منظر آنکھوں کے سا منے آجاتاہے دل خون کی آنسو روتاہے سوات کے عوام غمزدہ ہیں۔