میں اس دفعہ حشر میں دیر تک کھڑا رہا اور لوگوں کا حساب کتاب دیکھتا رہا۔ سچی بات یہ ہے کہ اس سے قبل میں نے چند ہی لوگوں کا حساب کتاب دیکھا تھا۔ مگر اب اندازہ ہورہا تھا کہ اللہ تعالیٰ انتہائی مکمل اور جامع حساب کررہے ہیں۔ ہر شخص کے حالات، اس کے ماحول اور اس کی تربیت اور پرورش کے نتیجے میں بننے والی نفسیات کی روشنی میں اس کے اعمال کا جائزہ لیا جارہا تھا۔ لوگوں نے رائی کے دانے کے برابر بھی عمل کیا تو وہ ان کی کتاب اعمال میں موجود تھا۔ ان کی نیت، محرکات اور اعمال ہر چیز کو پرکھا جارہا تھا۔ فرشتوں کا ریکارڈ، دیگر انسان، در و دیوار اور سب سے بڑھ کر انسان کے اپنے اعضا گواہی میں پیش ہورہے تھے۔ ان سب کی روشنی ہی میں کسی شخص کے ابدی مستقبل کا فیصلہ سنایا جاتا۔ یوں انسان پر رائی کے دانے کے برابر بھی ظلم نہیں ہورہا تھا۔ جس کو معاف کرنے کی ذرا بھی گنجائش ہوتی اسے معاف کردیا جاتا۔ اللہ تعالیٰ کے عدل کامل اور رحمت کامل کا ایسا ظہور تھا کہ الفاظ اسے بیان کرنے سے قاصر ہیں۔
مقبول ترین ، زندگی بدل دینے والا ناول۔۔۔ قسط نمبر 52 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
میں اسی حال میں تھا کہ صالح نے میرے کان میں سرگوشی کی:
’’ناعمہ بڑی شدت سے تمھیں ڈھونڈرہی ہے۔‘‘
’’خیریت؟‘‘، میں نے دریافت کیا۔
’’بڑا دلچسپ معاملہ ہے۔ بہتر ہے تم چلے چلو۔‘‘
یہ کہہ کر صالح نے میرا ہاتھ پکڑا اور تھوڑی ہی دیر میں ہم ناعمہ کے پاس کھڑے تھے۔ مگر مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ ناعمہ کے ساتھ ایک بہت خوبصورت پری پیکر لڑکی کھڑی ہوئی تھی۔ میں نے اپنی یادداشت پر بہت زور ڈالا مگر میں اسے پہچان نہ سکا۔
ناعمہ نے خود ہی اس کا تعارف کرایا:
’’یہ امورہ ہیں۔ ان کا تعلق حضرت نوح کی امت سے ہے۔ یہ مجھے یہیں پر ملی ہیں۔ یہ آخری نبی یا ان کے کسی نمایاں امتی سے ملنے کی خواہشمند تھیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک تو میں انہیں نہیں لے جاسکتی تھی۔ البتہ میں نے سوچا کہ آپ سے انہیں ملوادوں۔ آخر آپ بھی بڑے نمایاں لوگوں میں سے ہیں۔‘‘
یہ کہہ کر وہ امورہ سے میرا تعارف کرانے لگی۔ اس تعارف میں زمین آسمان کے جو قلابے وہ ملاسکتی تھی، اس نے ملائے۔ میں نے بیچ میں مداخلت کرکے ناعمہ کو روکا اور کہا:
’’ناعمہ میری بیوی ہیں۔ اس وجہ سے میرے بارے میں کچھ مبالغہ آمیز گفتگو کررہی ہیں۔ البتہ ان کی یہ بات ٹھیک ہے کہ میں آپ کو اس امت کے نمایاں لوگوں بلکہ اپنے نبی سے بھی ملوادوں گا۔‘‘
ناعمہ کو میری بات کچھ زیادہ پسند نہیں آئی۔ وہ جھلاکر بولی:
’’اگر میں مبالغہ کررہی ہوں تو بتائیں یہ صالح آپ کے ساتھ کیوں رہتے ہیں اور یہ آپ کو کہاں کہاں لے کر جاتے ہیں؟‘‘
میں نے جھگڑا ختم کرنے کے لیے کہا:
’’اچھا چلو میں نے ہار مانی لیکن پہلے امورہ سے تفصیلی تعارف تو ہولینے دو۔‘‘
امورہ ہنستے ہوئے بولی:
’’انسان ہزاروں برس میں بھی نہیں بدلے بلکہ دوبارہ زندہ ہوکر بھی ویسے ہی ہیں۔ آپ دونوں ویسے ہی جھگڑا کررہے ہیں جیسے میرے اماں ابا کرتے تھے۔‘‘
’’ان کے اماں ابا سے بھی میری ملاقات ہوئی ہے۔‘‘
ناعمہ بیچ میں بولی، مگر یہ اس کا اگلا خوشی سے بھرپور جملہ تھا جس سے مجھے اندازہ ہوا کہ وہ امورہ سے مل کر اتنا خوش کیوں ہے اور کیوں اس نے مجھے میدان حشر سے واپس بلوایا ہے۔
’’امورہ کے شوہر نہیں ہیں۔‘‘
میرے اندازے کی تصدیق صالح نے کردی ۔وہ میرے کان میں بولا:
’’ناعمہ نے تمھاری ہونے والی بہو سے ملوانے کے لیے تمھیں بلایا ہے۔‘‘
میرا اندازہ بالکل درست تھا۔ ناعمہ جمشید کے لیے دلہن ڈھونڈ رہی تھی اور آخرکار اسے اس کوشش میں اس حد تک کامیابی ہوچکی تھی کہ لڑکی اسے پسند آگئی تھی۔ مگر لڑکے لڑکی نے ایک دوسرے کو پسند کیا یا دیکھا بھی ہے یہ مجھے علم نہیں تھا۔ مگر ناعمہ کو اس سے کوئی زیادہ فرق بھی نہیں پڑتا تھا۔ اس کے خیال میں اس کا راضی ہوجانا ہی اس رشتے کے لیے کافی تھا۔
میں نے دریافت کیا:
’’امورہ آپ کے شوہر کہاں ہیں؟‘‘
امورہ نے شرماکر کہا:
’’دنیا میں صرف 15 سال کی عمر میں میرا انتقال ہوگیا تھا۔ میں بچپن ہی سے بہت بیمار رہتی تھی۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت نے اس کا یہ بدلہ دیا کہ بغیر کسی حساب کتاب کے شروع ہی میں میرے لیے جنت کا فیصلہ ہوگیا۔‘‘
’’اور باقی فیصلے تمھاری ہونے والی ساس کررہی ہیں۔‘‘، میں نے دل ہی دل میں سوچا۔
صالح کے چہرے پر بھی مسکراہٹ آگئی۔ پھر امورہ بولی:
’’مجھے آپ لوگوں سے مل کر بہت خوشی ہوئی ہے۔ جنت میں بھی ہم ملتے رہا کریں گے۔ اچھا اب میں چلتی ہوں۔ میرے اماں ابا مجھے ڈھونڈرہے ہوں گے۔‘‘
ناعمہ بھی اس کے ساتھ جانے کے لیے مڑی تو میں نے کہا:
’’ٹھہرو مجھے تم سے کچھ کام ہے۔‘‘
ناعمہ نے امورہ سے کہا:
’’تم وہیں رکو جہاں ہم ملے تھے۔ میں ابھی آتی ہوں۔‘‘
میں نے مذاق میں ناعمہ سے کہا:
’’امورہ سے اس کا موبائل نمبر لے لو، اس رش میں کہاں ڈھونڈتی پھرو گی۔‘‘
’’یہ موبائل کیا ہوتا ہے؟‘‘، امورہ نے قدرے حیرانی سے پوچھا۔
’’یہ ایک ایسی بلا کا نام ہے جس کے بعد تم ناعمہ سے بچ نہیں سکتیں۔‘‘، میں نے جواب دیا۔ صالح نے بیچ میں دخل دیتے ہوئے کہا:
’’میرا خیال ہے کہ امورہ اپنی منزل تک پہنچ نہیں سکے گی، میں اسے پہنچاکر آتا ہوں۔‘‘(جاری ہے)
مقبول ترین ، زندگی بدل دینے والا ناول۔۔۔ قسط نمبر 54 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
(ابویحییٰ کی تصنیف ’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ دور جدید میں اردو زبان کی سب زیادہ پڑھی جانے والی کتاب بن چکی ہے۔ کئی ملکی اور غیر ملکی زبانوں میں اس کتاب کے تراجم ہوچکے ہیں۔ابو یحییٰ نے علوم اسلامیہ اور کمپیوٹر سائنس میں فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن کے ساتھ آنرز اور ماسٹرز کی ڈگریاں حاصل کی ہیں جبکہ ان کا ایم فل سوشل سائنسز میں ہے۔ ابویحییٰ نے درجن سے اوپر مختصر تصانیف اور اصلاحی کتابچے بھی لکھے اور سفر نامے بھی جو اپنی افادیت کے باعث مقبولیت حاصل کرچکے ہیں ۔ پچھلے پندرہ برسوں سے وہ قرآن مجید پر ایک تحقیقی کام کررہے ہیں جس کا مقصد قرآن مجید کے آفاقی پیغام، استدلال، مطالبات کو منظم و مرتب انداز میں پیش کرنا ہے۔ ان سے براہ راست رابطے کے لیے ان کے ای میل abuyahya267@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔)