شہر میں آکر پڑھنے والے بھول گئے
کِس کی ماں نے کِتنا زیور بیچا تھا
یہ اسلم کولسری کا شعر ہے اور آج انہیں یاد کرنے کا دن ہے ، اس دنیا سے جانے سے پہلے تک وہ روزنامہ "دنیا " میں ہمارے ساتھ کام کرتے رہے ۔ایڈیٹوریل سیکشن میں چپ چاپ بیٹھے اپنا کام کرتے رہتے ۔
وہ کیا نہیں تھے ۔۔۔محنتی صحافی ۔۔۔منفرد شاعر ۔۔۔ادب کے خاموش خدمت گار۔۔۔اداکار ۔۔۔۔صدا کار
حساس اور باکمال شاعر تھے ، مثال کے طور پر یہ شعر
میں نے اپنے سارے آنسو بخش دئیے
بچے نے تو ایک ہی پیسہ مانگا تھا
1946ء میں پاکستان کے جنم سے قبل جنم لیا اور 2016ء میں اس دار فانی سے کوچ کر گئے ۔اوکاڑہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں کولسر میں ایک متوسط طبقے کے معزز گھرانے میں پیدا ہونیوالے اسلم کولسری کا طریقِ زندگی صبر و تحمل ،قناعت اور فقیری رہا، خاندان کے معاشی حالات اس قدر مستحکم نہ تھے کہ اعلیٰ تعلیم اپنے گاؤں یا شہر میں ہی حاصل کر پاتے۔ تلاشِ معاش کے لیے لاہور آئے10سال تک ایک فیکٹری میں اس لیے مزدوری کی کہ انکا اور انکے گھر کا خرچہ چلتا رہے اور وہ رات کو اپنا تعلیمی سلسلہ جاری رکھ سکیں ۔ آخر کار ان کی مسلسل محنت اور علم و ادب سے والہانہ محبت رنگ لائی ،وہ وقت آ یا جب ان کے ہاتھ میں ایم اے کی ڈگری تھی ۔انکا اپنا شعر
اسلمؔ بڑے وقار سے ڈگری وصول کی
اور اس کے بعد شہر میں خوانچہ لگا لیا
اب انہوں نے قلمی دنیا میں قدم رکھنے کا فیصلہ کیا ،روزنامہ "مشرق"لاہور میں سب ایڈیٹر کی حیثیت سے نوکری حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئےاور لکھنے کی ٹھان لی ، کھل کر لکھا اور خوب لکھا ان کے کالم" روشنیوں سے دُور"کوبہت پذیرائی ملی۔صحافتی دنیا میں مولانا ظفر علی خان اور شورش کاشمیری کے جذبۂ حریتِ فکر و عمل سے بہت متاثر تھے ان ہستیوں سے محبت کا رنگ ان کی تحریروں میں بخوبی ڈھونڈا جا سکتا ہے۔
اسلم کولسری نے اُردو سائنس بورڈ میں ریسرچ آفیسر کی حیثیت سے بھی کام کیا ، اسی ادارے میں ڈپٹی ڈائریکٹر کے منصب تک ترقی پائی ۔ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف لینگویج آرٹ اینڈ کلچر (PILAC) میں ڈپٹی ڈائریکٹر لسانیات کی حیثیت سےبھی خدمات انجام دیں ، پنجابی زبان میں شائع ہونے والے ادبی مجلے ’’ترنجن ‘‘ کی مجلس ادارت میں شامل رہے ۔ ان کے اندر ایک اداکار اور صداکار بھی تھا جو انہیں ریڈیو اور ٹیلی ویژنتک لے گیا ۔ اشفاق احمدکے لکھے ریڈیو پاکستان سے نشر ہونے والے پروگرام ’’تلقین شاہ ‘‘ میں صداکاری میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ پنجابی ریڈیو FM.95 پنجاب رنگ نے اکتوبر 2007کو اپنی نشریات کا آغاز کیاتو پروگرام ’’ مغلے دی جھوک ‘‘ میں اسلم کولسری نے صداکاری میں دھاک بٹھا دی۔پھر یہ سلسلہ کبھی نہیں تھما۔
انہیں بچوں کے ادب سے گہری دلچسپی تھی روزنامہ "مشرق "میں بچوں کے لیے کئی دلچسپ کہانیاں لکھیں جن میں’’چاند کے اُس پار ‘‘، ’’کھنڈر میں چراغ ‘‘ ، ’’زخمی گلاب ‘‘ ، اور ’’انوکھے شکاری ‘‘ بہت مقبول ہوئیں ۔ سٹیج کے لیے ڈرامے بھی لکھے،ان کے جو ڈرامے ناظرین کی دلچپی کا محور رہے ان میں ’’اور آ نکھ کھل گئی ‘‘ اور ’’ ابھی نہیں تو کبھی نہیں ‘‘ کو بھلایا نہیں جا سکتا ۔ انکی خدمات کے سلسلے میں ڈاکٹر سید شبیہہ الحسن کی کتاب ’’جدید غزل اور اسلم کولسری کا شعری سرمایہ‘‘اپنی مثال آپ ہے ۔
اسلم کولسری کے شعری مجموعوں میں" کوئی ، برسات، کاش،نیند ،جیون،نخلِ جان،ویرانہ،پنچھی اوراِک نظر کافی ہے"شامل ہیں۔ان کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے
یار کو دیدۂ خونبار سے اوجھل کر کے
مجھ کو حالات نے مارا ہے مکمل کر کے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صرف میرے لیے نہیں رہنا
تم مرے بعد بھی حسیں رہنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شام ہوئی اور سورج نے اِک ہچکی لی
بس پِھرکیا تھاکوسوں تک سناٹا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گریۂ خام سے نہیں آیا
چین آرام سے نہیں آیا
کھل کے بیٹھو کہ ملنے آیا ہوں
میں کسی کام سے نہیں آیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسا نہیں کہ دست دعا بے اثر گیا
کشتی کا ڈوبنا تھا کہ دریا اتر گیا
وہ وقت بھی آیا جب وہ اس قدر علیل ہوئےکہ علمی و ادبی محافل سب چھوٹ گئے، روزنامہ "دنیا "کے آفس آنا بھی چھوڑ دیا بستر اور گھر کے ہو رہے ۔ زندگی کے ہر شعبے سے متعلق مسائل پر کھل کرلکھنے والے اسلم کولسری واقعی اپنی زندگی میں بہت کچھ سہا مگر وہ تمام مشکلات اور تمام آنسو بخش گئے ۔وہ بظاہر لوگوں سے کٹے رہتے تھے لیکن اندر سے وہ عام آدمی کے جذبات اس کے مسائل سے جڑے ہوئےتھے اور جس سے بات کرتے جوڑنے کی بات کرتے۔
ان کی تمام تر بے باکی زور آوروں کیلیے تھی اسی لیے انہیں قلم بہ کف مجاہد بھی کہا گیا ۔
سوچ سوالی کر جاتے ہیں
صبحیں کالی کر جاتے ہیں
اسلمؔ چھوڑ کے جانے والے
آنکھیں خالی کر جاتے ہیں
اسلم کولسری ہم سب کی آنکھیں خالی کر گئے مگر ادبی دنیا کا خزانہ اپنی تخلیقات سے بھر گئے، یہ درویش صفت شاعر 8نومبر 2016ء کو ہم سے رخصت ہوا مگر ان کی شاعری سدا ہم سب کیساتھ رہے گی۔