اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن )شہباز شریف کی قیادت میں حکومت نے آئی ایم ایف سٹاف مشن کے ساتھ اہم مذاکرات کی تیاریوں کا آغاز کردیا ہے اور اس ہفتے کے آخر میں حکمت عملی کو حتمی شکل دینے کے لئے تیار ہے۔
منی بجٹ کی صورت میں آگے بڑھنے کے لئے 7 تجاویز موجود ہیں جن کے تحت مشینری، صنعتی خام مال اور تجارتی خام مال کی درآمد پر پیشگی انکم ٹیکس میں ایک فیصد اضافہ، سپلائی ،سروسز اور معاہدوں پر ود ہولڈنگ ٹیکس میں ایک فیصد اور مشروبات پر ڈیوٹی میں 5 فیصد اضافہ تجویز کیا گیا ہے۔مختلف شعبوں پر ٹیکس کی شرح میں اضافہ کیا جا سکتا ہے لیکن ایف بی آر حکومت کو اقتصادی سرگرمیوں کی سست روی سے بحالی اور افراط زر کے دباﺅ میں کمی کے آثار کی وجہ سے ٹیکس کی شرحوں میں اضافہ نہ کرنے کی سفارش کرنے کے لئے تیار ہے۔
’حکومت آئندہ ہفتے کے آخر میں آئی ایم ایف سٹاف مشن کے سربراہ نیتھن پورٹر کی قیادت میں ہونے والے مذاکرات کے لئے اپنی حکمت عملی کو مستحکم کرنے جا رہی ہے جو 11 نومبر سے 15 نومبر تک اسلام آباد کا دورہ کرنے والے ہیں۔‘
اعلیٰ حکام نے دی نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے تصدیق کی کہ پاکستانی حکام کے پاس غور کرنے کے دو آپشنز ہیں یا تو ایک منی بجٹ پیش کریں یا اخراجات میں کمی کریں تاکہ متفقہ مالیاتی خسارہ اور بنیادی بیلنس کے اہداف حاصل کئے جا سکیں۔
اب یہ اقتصادی منتظمین کا امتحان ہے کہ وہ حکومت کو اخراجات میں کمی پر کس طرح قائل کرتے ہیں تاکہ معیشت پر مزید بوجھ ڈالے بغیر منی بجٹ کا اعلان کئے بغیر اس کو آگے بڑھایا جا سکے۔
ایف بی آر کو موجودہ مالی سال کے پہلے 4 ماہ میں 189 ارب روپے کی آمدنی کی کمی کا سامنا کرنا پڑا ہے، یہ تخمینہ لگایا جا رہا ہے کہ موجودہ مالی سال کی پہلی ششماہی میں یہ آمدنی کی کمی 321 ارب روپے تک بڑھ جائے گی۔
ایف بی آر کا ماننا ہے کہ حکومت کو آئی ایم ایف کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے کہ 12913 ارب روپے کی آمدنی کے ہدف میں کمی کی جائے جو آئی ایم ایف کے ساتھ طے پایا تھا جس کو دیکھتے ہوئے نامیاتی نمو میں تبدیلیاں اور دیگر عوامل جیسے کہ بڑی صنعتوں کی نمو اور درآمدات میں کمی شامل ہیں تاہم آئی ایم ایف شاید ایف بی آر کے ہدف میں کمی کی حمایت نہ کرے۔