ستائیسویں قسط۔ ۔ ۔بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والی شجاع قوم کی چونکا دینے والی تاریخ

Apr 09, 2017 | 03:33 PM

سامرہ، سومرہ فرمانرواؤں کا آخری بادشاہ کا نام ہمیریا ارمائل تھا۔ سمہ قبیلے اور سومرو میں نہایت ہی ا تفاق و یگانگت تھی لیکن اومائل کے ظلم و ستم کی وجہ سے دونوں قبیلوں کے تعلقات خراب ہونے شروع ہوئے اور اس کا آخری نتیجہ یہ تھا کہ سومرہ خاندان کے ہاتھ سے حکومت نکل کر سمہ خاندان میں منتقل ہوگئی۔ سمہ خاندان ایک سو پچھتر برس کی حکمرانی کے بعد ۹۲۶ھ جام فیروز کے عہد میں شاہ بیگ ارغون تاتاری کے ہاتھوں اس کی حکومت ختم ہوگئی۔
سمہ خاندان جن کا اکابرجام کے لقب سے مشہور تھے۔ ان کا تعلق بقول ان کے اباؤ اجداد (بروئے روایت ٹاڈراجستھان)شام سے ہے اور ان کی اس نسبت سے ان کا مراد شام کے اسرائیلی جلاوطنوں کی اولاد ظاہر ہوتا ہے کیونکہ شامی تو صرف وہی لوگ تھے اور ظاہر ہے کہ اس قسم کے نام سمہ سمو، شمو، افغانوں میں موجود ہیں اور یہ نام پہلے سے شام میں بھی تھے۔ مثلا حضرت داؤد ؑ کے ایک بھائی کا نام سمہ ہے۔ اور نیز اس کے باپ کو افراتی سے یاد کیا گیا ہے۔ اس بارے میں کتاب مقدس صفحہ ۲۷۶ اردو ترجمہ بائبل سوسائٹی انار کلی لاہور۔ ۱۔ اسموئل میں باب ۱۷ اور آیت ۱۲ میں یوں درج ہے :
’’داؤدبیت الحم یہودا کے اس افراتی مرد کا بیٹا تھا جس کا نام یسی تھا۔ اس کے آٹھ بیٹے تھے اور وہ ساؤل کے زمانہ کے لوگوں کے درمیان بڈھا اور عمر رسیدہ تھا اور یسی کے تین بڑے بیٹے ساؤل کے پیچھے پیچھے جنگ میں گئے تھے۔ اس کے تینوں بیٹوں کے نام جو جنگ میں گئے تھے یہ تھے۔ الیاب جو پہلوٹا تھا دوسرا بینداب اور تیسرا سمہ۔ داؤد سب سے چھوٹا تھا۔‘‘

چھبیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
غالب قیاس یہ ہے کہ یہی سمہ لوگ حضرت داؤد ؑ کے بھائی ’’سمہ‘‘ کے نام سے موسوم ہوئے اور یہ ہی ان کی اولاد میں سے ہیں اس کے برعکس ایک اور عرب قبیلی بنو سامہ ہے جو ملتان میں حکمران رہا تھا ان کا سندھ کے اس خاندان سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ تو عرب قریش تھے۔ یہ لوگ ملتان سے لاہور کی طرف پنجاب میں منتقل ہو کر جگہ بجگہ آباد ہوئے اور ارائیں کے نام سے شہرت پائی۔
مصنف آئینہ حقیقت نما سعودی کے حوالہ سے لکھتا ہے :
’’۳۰۳ھ ملتان کے اندر بنو سامہ بن لوئی بن غالب کی حکومت تھی ۔ سامہ بن لوئی بن غالب قبیلہ قریش کا وہ شخص تھا جس نے آنحضرت ؐ کی ولادت سے پہلے بحر عمان کے ساحؒ پر اقامت اختیار کر لی تھی اسی شخص کی نسل سے ملتان کا فرمان روا تھا۔‘‘
لنگاہ خاندان
معلوم رہے کہ سندھ میں سمہ خاندان کے بعد جب ارغون اور ترخان کے تاتاری خاندان ختم ہوا تو کلہوڑہ خاندان جو عرب نسل سے ہیں۔ برسر اقتدار آیا تو ان کے بعد تالپور خاندان برسر اقتدار آیا جو نسلا بلوچی ہے اور ان کا لقب میر تھا جو میران سندھ سے مہشور ہیں۔ واضح رہے کہ قبیلہ سمہ یا جام کی طرح ایک اور افغان قبیلہ لنگا سندھ اور ملتان میں حکمران تھا جیسا کہ تاریخ فرشتہ میں ذکر ہے کہ:
’’لنگاہ افغان: ملتان پر ائے سہرہ جو جمعات افغانان لنگاہ کا سردار تھا حکومت بنائی۔ اور سولہ برس حکومت کرنے کے بعد ۹۷۴ھ میں وفات پائی۔‘‘
واضح ہو کہ رائے سہرہ علاقہ سیوی کا حاکم تھا۔ لنگاہ خاندان کے متعلق تاریخ ’’آئینہ ملتان‘‘ میں درج ہے کہ:
سندھ میں آکر اچانک حملہ کرکے رائے سہرا نے قطب الدین لنگاہ کے لقب سے ملتان میں لنگاہ عملداری کی بنیاد رکھی اور چنیوٹ، شور کوٹ کو فتح کرکے ولایت ملتان کو وسعت دی اور ۴۶۹ا ع تک کامیاب حکومت کی۔ ۱۴۷۰ء میں اس کے بیٹے سلطان حسین لنگاہ(افغان) نے مملکت ملتان کی عنان اقتدار سنبھالی۔ شاہان ملتان میں سطلان حسین لنگا بڑا ذی علم بادشاہ تھا۔ وہ صرف علم دان ہی نہ تھا بلکہ وہ مدبر اور علم پرور بھی تھا۔ اس نے توریج علم کے لئے ملتان میں جگہ جگہ مدرسے کھلوائے۔ نامور علماء کو بڑے بڑے وظائف پر درس و تدریس کے لئے مقرر کیا۔ اس کے وقت میں ملتان میں پہلی بار یونیورسٹی قائم ہوئی جو قلعہ کہنہ پر اس جگہ موجود تھی۔جہاں انگریزوں نے اپنی فتح کا مینار بنایا۔ ملتان کے علمی دورکی تاریخ میں سلطان حسین سر فہرست ہے۔ اس نے ملتان پر تیس سال حکومت کی۔ ویسے اس خاندان کی ملتان پر ستر سال حکومت رہی۔ سندھ کے علاقہ میں بلوچ قبائل کو اس نے آباد کیا تھا۔‘‘
مولانا ابو الحسنات ندوی لکھتے ہیں کہ
سلاطین ملتان میں سے حسین خان لنگاہ علوم و فنون کا بہت بڑا مربی تھا۔ مصنفین اور ارباب فضل و کمال کا سرپرست اور مدد گار تھا۔ ہمیشہ مالی امداد مناسب وظائف سے ان کی ہمت افزائی و قدر کیا کرتاتھا۔ جس کے باعث اس کی حدود سلطنت میں فضلاً اور ارباب علم و فن کی بڑی کثرت و جمعیت ہوگئی تھی اور ملتان علمی حیثیت سے اپنے گردوپیش کی حکومتوں میں ممتاز ہوگیا تھا۔ بحوالہ آئینہ ملتان ص ۹۹
ایک اور افغان قبیلہ جسے حضرت سلیمان کا تعلق دار بتاتے ہوئے مصنف تحفہ الکرام صفحۃ ۹۴ پر لکھتا ہے کہ
لولا: لودھ قوم جسے لولا بھی کہا جاتا ہے تسخیر سندھ کے وقت عربوں کے ساتھ یہاں(سندھ میں ) آباد ہوئی۔
پنجاب کے علاقہ چھچھ میں افغان
قطع نظر ان افرادیا خاندانوں کے جنہوں نے سرحدی افغانی علاقہ سے نکل کر ہندوستان میں اپنی ریاستیں قائم کیں۔ یا وہاں سکونت پذیر ہوئے ایک بڑی تعداد خان گجو کے وقت اور پھر صری خان سالارزئی اور بہا کو خان خدوخیل کی قیادت کے زمانے میں دریائے سندھ کو عبور کرکے علاقہ چھچھ میں جا مقیم ہوئے اور ان کے ناموں کی نسبت سے آبادیاں ظہور میں آئیں اور اس وقت تک علاقہ چھچھ میں افغان مالکانہ حیثیت سے بیشتر حصہ پر آباد نظر آتے ہیں۔ علاقہ کے صاحب ثروت، تاجر پیشہ، زمیندار اور حکومت کے اعلیٰ عہدوں پر سرفراز افرادکی اکثریت انہی افغان خاندانوں سے تعلق رکھتی ہے۔
چھچھ کا علاقہ مقام اتک سے دریائے سندھ کے مشرق کی طرف اور تحصیل صوابی کے بالکل مقابل جنوب میں ہے۔ یہ علاقہ چوراسی دیہاتوں پر مشتمل ہے۔ اس کے نام کی نسبت کا وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا مورخین اپنے اپنے خیال کے مطابق اسے کسی کے ساتھ منسوب کر دیتے ہیں۔ البتہ گزٹیر راولپنڈی ۱۸۶۵ء میں ایک انگریز افسرکرنل کریکرافٹ نے اس کی جو وجہ تسمیہ بیان کی ہے وہ دلچسپ بھی ہے اور معتبر بھی۔ وہ لکھتے ہیں کہ چھچھ کا لفظ اصل میں پشتو کا لفظ ’’چھج‘‘ہے۔ یوسفزیوں نے یہاں آکر یہ نام اس علاقہ کو دیا۔ ’’چھج‘‘ پشتومیں ہاتھ کی بنی ہوئی ایک ایسی چیز کو کہتے ہیں جس سے اناج صاف کیا جاتا ہے۔ اور اس کے تین کنارے محفوظ اور ایک ڈھلان کی شکل کا ہونا ہے ہو بہو یہ شکل علاقہ چھچھ کی بھی ہے بعد میں یہ لفظ ’’چھچ‘‘ سے چھچھ بن گیا۔ کرنل کریکرافٹ مزید لکھتا ہے:
’’چھچھ کے علاقہ میں گنجان آبادی یوسفزئی پٹھانوں کی ہے اور مالکوں میں اکثریت بھی یوسفزئی پٹھانوں کی ہے جو اعلیٰ درجہ کے کاشتکار ہیں۔ افغان جو پٹھان کہلاتے ہیں چھچھ کی وادی اور برہان میں آباد ہیں۔ ان کے آباؤ اجداد نے دلازاک کو یہاں سے باہر نکال دیا تھا اور خود آباد ہوگئے تھے۔ دلازاک کے بقیا کچھ گھرانے دو یا تین گاؤں میں اب بھی موجود ہیں۔ یہ پٹھان اچھی نسل اور بہترین قسم کے کاشتکار ہیں۔ آپس میں پشتو بولتے ہیں اور ملک کی زبان پنجابی سے نا آشنا ہیں۔ ان کے بہت سے قبیلے ہیں مثلاً سرکانی، متنی، علی زئی، وردگ، غرغشت وغیرہ ان کے خاندان آخری لفظ ٹی یا خیل سے معلوم ہوتے ہیں۔ علی زئی علاقہ برہان اور حضرو میں اور ساغری مکھڈ میں آباد ہیں۔ چھچھ اور برہان کے معزز اشخاص یہ ہیں۔ لطیف خان عمر زئی سکنہ ملک مالہ، میر عالم خان غرغشتی، نادر خان علی زئی سکنہ سردانہ، بوستان خان وردگ سکنہ نطوفہ، شیر محمد خان اور فیروز خان علی زئی سکنہ برہان، پٹھانوں کی آبادی پر مشتمل علاقہ چھچ میں ۵۶ گاؤں برہان میں ۹ اور مکھڈ میں ۷ گاؤں ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر دیہات میں بھی حصہ دار ہیں اور سرکار کو ۶۸۱۵۱ روپیہ سالانہ مالیہ ادا کرتے ہیں۔‘‘

جاری ہے

اٹھائیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

  پٹھانوں کی تاریخ پر لکھی گئی کتب میں سے ’’تذکرہ‘‘ ایک منفرد اور جامع مگر سادہ زبان میں مکمل تحقیق کا درجہ رکھتی ہے۔خان روشن خان نے اسکا پہلا ایڈیشن 1980 میں شائع کیا تھا۔یہ کتاب بعد ازاں پٹھانوں میں بے حد مقبول ہوئی جس سے معلوم ہوا کہ پٹھان بنی اسرائیل سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے آباو اجداد اسلام پسند تھے ۔ان کی تحقیق کے مطابق امہات المومنین میں سے حضرت صفیہؓ بھی پٹھان قوم سے تعلق رکھتی تھیں۔ یہودیت سے عیسایت اور پھر دین محمدیﷺ تک ایمان کاسفرکرنے والی اس شجاع ،حریت پسند اور حق گو قوم نے صدیوں تک اپنی شناخت پر آنچ نہیں آنے دی ۔ پٹھانوں کی تاریخ و تمدن پر خان روشن خان کی تحقیقی کتاب تذکرہ کے چیدہ چیدہ ابواب ڈیلی پاکستان آن لائن میں شائع کئے جارہے ہیں تاکہ نئی نسل اور اہل علم کو پٹھانوں کی اصلیت اور انکے مزاج کا ادراک ہوسکے۔

مزیدخبریں