ایرک نیوکا مبے میرا سکول کے زمانے کا ساتھی ہے۔ہم دونوں گہرے دوست تھے۔جب ہم بچے تھے تو مل کر باغیوں پر’’حملہ ‘‘کر دیتے۔کبھی رات کو جناتی لباس پہن کر لڑکیوں کو ڈراتے۔
ایرک اس دقت گھا مڑ تھا کہ جس لڑکی سے محبت کرتا تھا،ایک روز دیوار پھلانگ کر اس کے گھر میں جا گھسا۔ نتیجہ یہ کہ اپنی ٹانگ تڑوا بیٹھا اور جب ہم’’جلاہالی کے قاتل‘‘کا تعاقب کررہے تھے تو وہ بری طرح زخمی ہوا۔کچھ عرصے بعد ہم ایک سرکس دیکھنے گئے تو نہ جانے ایرک کو کیا سوجھی،اس نے ایک پنجر میں ہاتھ ڈالا اور لگا چیتے کو چھیڑنے۔جنگلی جانور نے اس مسخرے پن کی سزا صرف اتنی دی کہ ہاتھ نوچ ڈالا۔
پھر ایک رات ہم گلہٹی کے جنگلی سؤر کا شکار کرنے گئے۔بڑے زور کی بارش ہو رہی تھی۔ ہم ایک کھلے کھیت میں گھات لگائے بیٹھے تھے۔ میں نے فارسٹ بنگلے میں واپس جانے کا مشورہ دیا مگر ایرک ناک بھوں چڑھاتے ہوئے بولا:
’’بارش ہی تو ہے۔‘‘
وہ ہر صورت میں سور مارنا چاہتا تھا۔ سور تو خیر کیا مرتا،خود اسے نمونیہ ہو گیا۔
درندوں کے شکاری کی سرگزشت...قسط نمبر 50 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اب اس مرد میدان نے ایک نئی مہم پر نکلنے کا ارادہ کیا۔ وہ چاہتا تھا کہ کسی انتہائی دلچسپ صورت حال کا سامنا ہو،چنانچہ اپنے ساتھ اسلحہ یا کھانے پینے کی کوئی چیز لے جانے کے حق میں نہ تھا۔ میں نے تو کانوں کو ہاتھ لگائے، یہ سراسر خود کشی کے مترادف تھا۔ ذرا سی بے احتیاطی ہماری جان لے سکتی تھی۔
جن لوگوں نے میری کہانیاں’’منچی کا شکار‘‘اور کمپیکارائے کا بھوت‘‘پڑھی ہیں،وہ جانتے ہیں کہ ان میں ایک وادی کا ذکر ہے جسے میں ’’اسپائیڈرویلی‘‘کا نام دیتا ہوں۔ضلع سالم میں ایک نشیبی اور گھنے جنگلوں میں آٹی ہوئی جگہ ہے۔ایک چھوٹے سے گاؤں عیور سے شروع ہو کر جنوب کی طرف بیس میل تک پھیلی ہوئی ہے۔دونوں جانب بلند ترین پہاڑی سلسلے ہیں۔وادی میں ایک ندی بہتی ہے۔جس کے کنارے پگڈنڈی بنی ہوئی ہے۔ندی دائیں بائیں مڑتی ہے تو پگڈنڈی بل کھانے کے بجائے سیدھی نکل جاتی ہے تاکہ کم از کم فاصلہ طے کرنا پڑے۔مشرق اور مغرب کی طرف پہاڑی سلسلے کہیں کہیں اس قدر تنگ ہو جاتے ہیں کہ سرنگ کا گمان ہوتا ہے۔چار ہزار فٹ بلند ان پہاڑی کی ڈھلوانوں پر ایک خوبصورت فارسٹ ریسٹ ہاؤس۔کوڈی کارائے بنگلے۔بنا ہوا ہے۔جہاں سے وادی کا مشرقی منظر دیکھا جا سکتا ہے۔حد نگاہ تک پگڈنڈی اور ندی کی محاذ آرائی جاری رہتی ہے اور یہ سلسلہ دس میل دور دریائے چنار پر ختم ہوتا ہے۔یہ دریا جنوبی ہند کے عظیم ترین دریا کا ویری کا ایک حصہ ہے۔
ہم نے اسپائیڈرویلی میں گھومنے پھرنے کا منصوبہ مختلف وجوہات کی بنا پر بنایا تھا۔یہ علاقہ گھنے جنگلوں سے اٹا پڑا ہے۔ان دنوں یہاں ہاتھی، بسان، شیر، چیتے اور ریچھ کی بہتات تھی۔ سانبھر، جنگلی بھینسے اور دھاری دار ہرن بھی بڑی تعداد میں ملتے تھے۔لمبے لمبے بانس اور جھاڑ جھنکاڑ میں لاھوں زہریلی مکھیوں نے مسکن بنا رکھات ھا اور مجھے یہ بھی علم تھا کہ صرف اسی علاقے میں کنگ کو برا سے ملاقات ہو سکتی ہے۔
آخر مہم کا آغاز ہو گیا۔ فورڈ ماڈل کی ایک پرانی گاڑی میں بیٹھ کر عیور فارسٹ بنگلے میں پہنچے۔دوپہر کا کھانا کھایا اورکندھوں پر تھیلے لٹکائے اسپائیڈر ویلی کی طرف چل پڑے جو ابھی تین میل دور تھی۔ ہم نے ہلکے کپڑے پہن رکھے تھے اور پاؤں میں گھنٹوں تک ربڑ کے جوتے تاکہ سانپ کے حملے سے محفوظ رہ سکیں۔رات کے وقت اتنا خطرہ کہ ہاتھی سے نہیں ہوتا جتنا کھاڑیوں میں رینگتے ہوئے سانپ سے ۔بنگلے سے ایک تنگ سا راستہ جنوب مشرق کی طرف جنگل میں نکلتا ہے۔نصف میل کے بعد یہ ایک چشمے پر پہنچ کر مغربی سمت ہو لیتا ہے اور پھر کچھ فاصلے پر ایک اور راستے میں شامل ہو جاتا ہے جو گلہٹی کے بنگلے تک پہنچا دیتا ہے۔
راستے میں چشمے پر ہماری پہلی ملاقات جنگی جانوروں سے ہوئی۔ رات ہو چکی تھی۔ ٹارچوں کی روشنی میں چشمے کے دوسرے کنارے پر دھاری دار ہرن دکھائی دیے۔وہ اپنی پیاس بجھانے آئے تھے۔میں انہیں غور سے دیکھنے کے لیے زمین پر بیٹھ گیا مگر ایرک راستہ چھوڑ کر پانی کی طرف بڑھا۔ یہ فاش غلطی تھی۔ اس کے کپڑے خاردار جھاڑیوں میں الجھ گئے۔ایک تو خود اسے خراشیں آئیں۔دوسرے جب اس نے کانٹوں سے دامن چھڑانا چاہا تو بہت شور بلند ہوا۔ ہرن برق رفتاری سے غائب ہو گئے۔ساتھ ہی ایک اور خوفناک آواز سنائی دی۔
ایک ریچھ پانی پینے چلا آرہا تھا،چونکہ ریچھ کی ساعت کمزور ہوتی ہے۔اس لیے ہماری خبر نہ ہو سکی مگر جب ہرنوں نے راہ فرار اختیار کی تو اس نے خطرہ کی بوسو نگھ لی۔اب جو اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو اسے روشنی میں ایرک کھڑا نظر آیا۔
ڈیلی پاکستان کے یو ٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کیلئے یہاں کلک کریں
ریچھ کو جب کبھی خطرے کا احساس ہوتا ہے تو وہ کچھ سوچنے کی تکلیف نہیں کرتا، نہ بھاگنے ہی کا خیال آتا ہے بلکہ سیدھا انسان پر چڑھ دوڑتا ہے۔یہی اس نے کیا۔
ایرک اس وقت کانٹوں میں الجھا ہوا تھا۔ اسے اور تو کچھ نہ سوجھا، فوراً اپنی تین سیلوں والی ٹارچ کی روشنی حملہ آور درندے پر پھینکی جو صرف چار فٹ دور تھا۔ روشنی ہتھیار کا کام دے گئی اور ریچھ نے حملہ کرنے کا ارادہ ملتوی کر دیا اور پھر کھپ ،کھپ، کھپ کی آواز کے ساتھ وہ منظر سے غائب ہو چکا تھا۔ ایرک ہکلایا:’’خونخوار ریچھ۔‘‘میں خاموش کھڑا رہا۔
اب ہم چل پڑے۔کچھ دیر مغرب کی جانب سفر کیا،پھر جنوب کی طرف ہو لیے۔راستہ بہت تنگ تھا۔ ہم پڑی سے اترے اور وادی میں داخل ہوگئے۔ہر طرف گھنا جھاڑ جھنکاڑ شروع ہو گیا تھا۔
اچانک ہمیں ہاتھیوں کی آواز سنائی دی۔کسی آفت کے پرکالے نے بانس کے جھنڈ میں شور مچایا، یہ جانور بانس کی نرم ونازک نئی کونپلوں کا رسیا ہے اور چند پتوں کے لیے پورے کا پورا جھنڈ غارت کر کے رکھ دیتا ہے۔کچھ دیر کے لی خاموشی چھا گئی۔ پھر پتے نگلنے کی ہلکی ہلکی آواز آئی اورایک بار پھر سکوت چھا گیا۔بہرحال ہمیں یقین ہو گیا کہ ہمارا سابقہ صرف ایک ہاتھی سے ہے۔وہ بالکل ہمارے سامنے تھا۔ چند سکینڈ کے اندر اندر ہماری بوپا سکتا تھا۔ انسان کی بو سونگھتے ہی ہاتھی یا تو جنگل کی راہ لیتا ہے یا بالکل ساکت و صامت کھڑا ہو جاتا ہے تاکہ انسان اس کی موجودگی کا احساس کیے بغیر آگے نکل جائے۔ہاتھی انسان کی بو لمبی سونڈ سے سونگھ لیتا ہے لیکن اسکے لمبے کان بھی غیر معمولی طور پر معمولی سی آہٹ کو بھی سن لیتے ہیں۔اس لئے جنگلی اور غیر سدھائے ہاتھی پر اعتبار نہیں کرنا چاہئے۔یہ انسان کو اپنا دشمن ہی سمجھتا ہے۔ اگر وہ شرارت پر آمادہ ہو تو آدمی کو اپنے قریب پہنچنے دیتا ہے اور پھرموقع پا کر ٹوٹ پڑتا ہے۔ہاتھی چاہے مستی ہی میں کیوں نہ ہو، فوراً شاذونادر ہی حملہ کرتا ہے۔وہ اکثر کچھ کرنے سے پہلے دو ایک منٹ تک اچھی طرح سوچ بچار کر لیتا ہے۔
میں ایرک کا بازو پکڑ کر ہاتھی کے راستے سے ہٹنے کو تھا کہ ہاتھی کے بچے کی آواز کانوں میں پڑی۔اب زیادہ خطرہ نہ تھا۔انسان جب تک بچے کو نقصان نہ پہنچائے، ہاتھی یا ہتھنی حملے سے گریز کرتی ہے۔میں نے فوراً ٹارچ بجھا ڈی اور ایرک کا بازو پکڑ لیا تاکہ اسے ایک طرف لے جاؤں۔چند لمحوں تک ہماری آنکھوں کے سامنے تاریکی چھائی رہی، پھر ستاروں کی روشنی نے مدد کی اور ہمیں تاریکی میں نظر آنے لگا۔
خاموشی گہری ہو رہی تھی۔ ہمارے اعصاب پر بے پناہ دباؤ تھا۔ پھر دائیں طرف سے ایک ہلکی سی گرج سنائی دی۔
ایرک دائیں طرف آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہا تھا۔ وہی گرج دوبارہ سنائی دی۔ ایرک کچھ سہم سا گیا اور میرے قریب ہو کر سرگوشی کی:
’’سن رہے ہو؟کہیں یہ شیر تو نہیں؟‘‘
میں نے خاموش رہنے کا اشارہ کیا لیکن افسوس تیر کمان سے نکل چکا تھا۔قریب ترین ہاتھی نے ا یرک کی سرگوشی سن لی تھی۔
(جاری ہے)