مصنف:جسٹس (ر) بشیر اے مجاہد
قسط:79
پاکستان کے سابق چیف جسٹس مسٹر افتخار محمد چودھری کے خلاف جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے جو اقدامات کئے ان تمام اقدامات کے بارے میں غیر جانبدارانہ تجزیہ ہونا چاہئے۔ اس ملک میں کوئی بھی اور کسی بھی سطح کا عہدیدار احتساب سے بالاتر نہیں۔ اگر کسی کو استثناء دیا جائے گا تو اس سطح کے دیگر حکام بھی اس رعایت کے خواہش مند ہو سکتے ہیں۔ وکلاء ملک کی سول سوسائٹی اور عوام سب مل کر بھی کسی گناہ گار کو معافی نہیں دے سکتے۔ وگرنہ بہت سے لوگ معافی حاصل کرنے کے حقدار بن جائیں گے۔
عدلیہ کی آزادی صرف جمہوریت ہی نہیں اسلام میں بھی اہم ترین مقام کی حامل ہے۔ سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کے عہد خلافت کا واقعہ دنیا بھر میں عدلیہ کی آزادی کے لیے ایک مثال کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کی زرہ بکتر ایک یہودی نے لی اور بار بار تقاضہ پر بھی زرہ واپس کی اور نہ ہی اس کی قیمت ادا کی۔ امیر المومنین حضرت علیؓ نے قاضی کی عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا۔ یہودی کو بلایا گیا۔ اس نے ایسے واقعہ سے انکار کر دیا۔ قاضی نے گواہ طلب کئے تو آپ نے اپنے صاحبزادہ حضرت امام حسنؓ اور اپنے غلام کو پیش کیا۔ قاضی نے دونوں کی گواہی قبول کرنے سے انکار کر دیا اور یہودی کو بری کر دیا۔ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ گھر جا رہے تھے کہ وہ یہودی آیا۔ آپ کی زرہ آپ کی خدمت میں پیش کی اور کہا کہ آپ وقت کے حاکم ہیں، مسلمانوں کے بادشاہ ہیں مگر آپ نے انصاف اور قانون کی پابندی کی۔ حالانکہ آپ بہ جبر مجھ سے یہ چھین سکتے تھے اور وہ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کے دست مبارک پر اسلام قبول کرنے کے شرف سے بازیاب ہوا۔ اسلام اور جمہوریت میں انصاف سب کے لئے اور ہمیشہ کے لئے کا اصول کارفرما ہے۔
جوڈیشری کو بہتر بنانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ لائق، قابل اور دیانت دار لوگوں کو جوڈیشری میں لایا جائے۔ سرکاری مداخلت ختم کی جائے۔ سنیارٹی کا دھیان رکھا جائے۔ حکمران اپنی پسند کے جج مقرر کرنے کی بجائے جج کی اہلیت کو مدنظر رکھیں۔
یورپ اور امریکہ میں اعلیٰ عدالتوں کے ججز کی ریٹائرمنٹ کی کوئی عمر مقرر نہیں ہے۔ پاکستان میں بھی اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی ریٹائرمنٹ کی حد زیادہ کر دی جائے اور ججوں کو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی پوری تنخواہ اور مراعات دی جائیں۔ یورپ اور امریکہ میں ریٹائرڈ ججوں کو سرکاری منصب عطا نہیں کئے جاتے۔ ہمارے ملک میں بھی پسندیدہ افراد کو نوازنے کا یہ طریقہ ختم ہونا چاہئے۔
میں نے یہ سب کچھ اپنے وطن اور قانون کے پیشہ کے ساتھ محبت کے لئے لکھا ہے جو اچھی باتیں میں نے لکھی ہیں یہ میری اولین خواہش ہیں۔ اگر کسی کو کہیں میری گذارشات سے دُکھ ہوا ہو تو میں اُس سے معذرت کا خواستگار ہوں۔
میں اور میرا خاندان
میری والدہ 1946ء میں بھدم میں ہی وفات پا گئی تھیں۔ اس وقت میری عمر تین سال تھی۔ میرے بڑے بھائی چودھری فتح محمد اس وقت چھٹی یا ساتویں جماعت میں پڑھتے تھے۔ ہماری بہن مریم اور بھائی سردار محمد شاہد بھی کم عمری میں تھے۔ بڑے بھائی فتح محمد بتایا کرتے تھے کہ والدہ نے مرنے سے قبل اُنہیں تاکید کی تھی کہ تیرے بہن اور بھائی چھوٹے ہیں لہٰذا ان کا خیال رکھنا۔ حقیقتاً بڑے بھائی چودھری فتح محمد نے ساری زندگی ہماری بہت دیکھ بھال کی۔ ان سے اس سلسلہ میں کبھی غفلت نہیں ہوئی۔ وہ قیام پاکستان کے بعد کچھ عرصہ تو دُکانداری کرتے رہے اس کے بعد وہ برطانیہ چلے گئے جہاں 1961ء میں انہوں نے دوسرے بھائی کو بھی بلا لیا۔ دونوں وہاں خوب محنت مزدوری کرتے رہے۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔