اہرام مصر سے فرار۔۔۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 34

اہرام مصر سے فرار۔۔۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط ...
اہرام مصر سے فرار۔۔۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 34

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اب میرے لئے ان کی شناخت کوئی مشکل نہیں تھی۔ وہ ہاروت ورماروت تھے خدا کے برگزیدہ بندے جن سی ایک کوتاہی سرزد ہوئی اور خدا کے عذاب میں گرفتار ہوئے۔ میں نے ان کی تعظیم کی اور پوچھا کہ وچاہ بابل سے کب فرار ہوئے؟ کیونکہ اس واقعے کو میرے اندازے کے مطابق دو سو برس کا عرصہ گزر چکا تھا۔ ہارو ت نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’ عزیز بھائی ! خدا نے ہمارے گناہ معاف فرما دیئے ار ہمارے سزا معاف کردی۔ اس کی رحمت نے ہمیں بخش دیا ہم نے اپنی کوتاہیوں سے توبہ کی اور سیدھی راہ پر آگئے۔ پھر ہمیں چاہ بابل سے فرار ہونے کی حاجت نہیں تھی۔ جس خداوند برتر نے ہمارے گناہ معاف فرما دیئے تھے وہ ہمیں چاہ بابل سے نکال بھی سکتا تھا۔ ‘‘
میں نے ان سے سوال کیا کہ وہ دو سو برس سے زندہ ہیں؟ یہ سوال براہ راست تھا۔ ماروت نے اپنی خوبصورت آنکھیں آسمان کی طرف اٹھائیں پر ڈوبتے سورج کی سرخی جھلک رہی تھی اور کہا۔
’’ وقت کیا ہے ؟ وقت خدا کی رحمت اور دلیل ہے اور جاری و ساری ہے اس کے نور کی طرح تم ابھی بہت کچھ نہیں جانتے۔ تاریخ اور انسانی تہذیبوں کے نشیب و فراز تمہیں بتہ کچھ سکھا دیں گے۔ تم انسانوں میں سے خوش قسمت ہو کہ آنے والے نیک بندوں کے روشن چہرے دیکھو گے اور انہیں درس انسانیت دیتے سنو گے۔‘‘
ہاروت نے آہستہ سے کہا۔
ؔ ’’ بنی اسرائیل پر اللہ نے بڑی رحمتیں نازل فرمائیں مگر اس قوم نے قوانین خداوندی سے انحراف کیا اور نفاق اور بداعمالیوں میں مبتلا ہو گئی۔ اس قوم پر ایک عبرت انگیز ہلاکت نازل ہونے والی ہے۔ میں تمہیں یہ نہ کہوں گا کہ یہاں سے نکل جاؤ۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ تم اس سبق آموز بربادی کے گواہ بنو گے۔ بخت نصر کی فوجیں اس شہر کی اینٹ سے اینٹ بجانے والی ہیں۔‘‘

اہرام مصر سے فرار۔۔۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 33پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
میں کچھ پوچھنے ہی والا تھا کہ خداوند کریم کے برگزیدہ بندے مسکرائے اور اس کے بعد جو دیکھاتو باغ میں کوئی بھی نہیں تھا۔ لوگ روتے آہ و زاری کرتے ہیکل کے دروازے کی طرف بھاگے چلے آرہے تھے۔ یروشلم میں چاروں طرف ایک افراتفری مچی ہوئی تھی۔ سپاہ خاص کے دستے قلعے کے دروازے سے نکل کر شہر کی فصیل کی جانب دوڑ رہے تھے۔ فصیل کی درزوں اور برجوں میں تیر کمانوں سے مسلح دستے متعین کئے جا رہے تھے۔ کھولتے ہوئے گرم تیل کے مٹکے فصیل کی دیوار پر پہنچائے جا رہے تھے۔ یروشلم پر حملہ ہونے والا تھا بخت نصر کی فوجیں شہر کے قریب پہنچ چکی تھیں۔
بنی اسرائیل کی تاریخ ماضی کے دبیزپردوں میں چھپی پوئی ہے۔ عہد نامہ عتیق میں بنی اسرائیل کی جو تاریخ بیان کی گئی ہے اس کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہاں تین بیویوں سے تین بیٹے ہوئے۔ حضر اسحاق ، حضرت اسمٰعیل اور مدیان ۔ ان میں سے حضرت اسمٰعیل سر زمین حجاز پر ، مدیان بحراحمر کے ساحل کے قریب ارض فلسطین میں مقیم ہوئے۔ حضرت اسحاق کے ایک بیٹے کا نام یعقوب اور لقب اسرائیل (مرد خدا ) تھا۔ آپ نے چار شادیاں کیں اور ان کے بطن سے بارہ بیٹے پیدا ہوئے۔ ان میں سے ایک حضرت یوسف ؑ تھے اور حضرت یوسفؑ کے بعد حکومت مصر نے انہیں ایک اجنبی قوم سمجھ کر ان کی سوشل حیثیت کم تر کر دی اور وہ مصر میں غلاموں کی سی زندگی بسر کرنے لگے۔
چار سو برس کی مدت میں یہ قبیلہ بارہ قبائل میں تقسیم ہوگیا۔ یہ بارہ قبائل اب ایک مستقل قوم بن گئے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اسی قوم کے ایک فرد تھے۔ ان کی طرز بود و باش اور مذہبی رسومات مصریوں سے بہت مختلف تھی۔ جس زمانے میں حضرت موسیٰ ؑ پیدا ہوئے وہ زمانہ بنی اسرائیل کے مصائب کا زمانہ تھا۔ حضرت موسیٰ ؑ منصب بنوت پر فائز ہونے کے بعد بنی اسرائیل کو مصر سے نکال کر وادی سینا میں لے آئے۔ یہاں بنی سرائیل کی ایک نئی نزدگی کا آغاز ہوا۔ حضرت موسیٰ ؑ نے انہیں غلامانہ زندگی سے نجات دلا کر احکام خداوندی پر چلنے کی تلقین فرمائی لیکن بنی اسرائیل کچھ ہی وقت بعدنا فرما نیوں پر اتر آئے اور انہوں نے احکام خداوندی سے انحراف کیا۔ جس کے نتیجے میں یہ قوم چالیس برس تک صحرا میں بھٹکتی رہی۔ پھر حضرت موسیٰ ؑ نے اس قوم کی ترتیب نوکی اور فلسطین کی سرسبز و زرخیز وادی پر اس قوم کی حکمرانی قائم ہوئی۔ بعد میں حضرت داؤد ؑ بادشاہ ہوئے اور انہوں نے بیت المقدس کو دارالحکومت بنایا اور وہاں صیہون کے پہاڑ پر ایک ہیکل تعمیر کرنا چاہا مگر عمر نے وفانہ کی۔ آپ کے بعد حضرت سلیمانؑ تخت نشین ہوئے۔ آپ نے اپنے برگزیدہ والد کی خواہش کے مطابق ایک عظیم الشان ہیکل تعمیر کرایا جو بعد میں ہیکل سلیمانی کے نام سے موسوم ہوا۔ بنی اسرائیل اس ہیکل میں اپنی مذہبی رسوم ادا کرنے لگے۔ حضرت سلیمانؑ برقرار نہ رکھ سکی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سر زمین مصر کے بادشاہ سسیق نے یروشلم پر حملہ کر کے اسے تاراج کیا۔ اس وقت بھی بنی اسرائیل باہمی نفاق کا شکار تھے اور ان کی عظیم الشان سلطنت دو حصوں میں تقسیم ہوچکی تھی۔ یہ دونوں سلطنتیں ایک دوسرے کی دشمن اور حریف بن گئی تھیں۔ ایک سلطنت بنی اسرائیل کے دس قبائل (اسباط) کی تھی اور دوسری سلطنت کا نام اسرائیل تھا۔ اسباط کے لوگ یہودی اور اسرائیل کے لوگ اسرائیلی کہلاتے تھے لیکن بعد میں دونوں کو یہودی کہا جانے لگا۔ روایت کے مطابق ملک صدق کنعان کا بادشاہ تھا اور اسی نے یروشلم کی بنیاد رکھی۔ اس قوم نے جو یبوسی کہلاتی تھی شہر کا نام بیوسالم رکھا جو پہلے یبوسلم اور پھر یروشلم بن گیا۔
اس عظیم تاریخی شہر کی پوری روایت اور اس قوم کی پوری بداعمالیاں میری آنکھوں کے سامنے تھیں اور میں ان کے نتائج کو نمودار ہوتے دیکھ رہا تھا۔ قومیں جب آپس کے نفاق کا شکار ہو کر ایک دوسرے سے قبائل اور صوبوں کی بنیاد پر برسرپیکار ہوجاتی ہیں تو وہ دوسروں کو اپنے ملک پر حملہ کرنے کی دعوت دیتی ہیں اور دشمن کے لئے راہ ہموار کرتی ہیں۔ ارض موعود کی قوم بھی یہی کچھ کر رہی تھی۔ ان کے آپس کے جھگڑوں، مناقشوں اور اور نفاق نے اشوری چنگیز خان بخت نصر کو اپنے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی خود دعوت دی تھی اور اس کے عظیم الشان خونخوار لشکر یروشلم کی سرحدوں کے قریب پہنچ چکا تھا اور پھر ایک روز بخت نصر کے لشکر کی منجنیقوں کے بھاری پتھر شہر کی فصیلوں سے ٹکرا کر ہیبت ناک آوازیں پیدا کرنے لگے۔شہر کی فصیل ایک جگہ سے ٹوٹ کر گر پڑی ۔ دشمن نے اس طرف یلغار کر دی۔ بنی اسرائیل کے سپاہی دشمن پر تیر برسانے لگے۔
شگاف میں گھمسان کی جنگ شروع ہوگئی مگر عیش و عشرت کی دلدادہ اسرائیلی فوج بخت نصر کی فوج کا مقابلہ نہ کر سکی۔ یروشلم فتح ہوگیا۔ بخت نصر کی فوج شہر میں داخل ہوگئی۔ ہر طرف قتل عام شروع ہوگیا۔ ہر طرف آگ اور خون کی ہولی کھیلی جا رہی تھی۔ ہیکل سلیمان کو گرا کر زمین کے ساتھ لادیا گیا۔ یہودی گاجر مولی کی طرح قتل ہو رہے تھے۔ میں اپنی سرائے سے نکل کر عقبی گلی کے ایک مکان کی ڈیوڑھی میں آگیا تھا۔ اگرچہ مجھے دشمن فوج کی تلواروں کا کوئی خوف نہیں تھا لیکن میں یہاں ایک خوبصورت یہودی لڑکی کی خاطر بیٹھا ہوا تھا جس کا نام نفتانی تھا اور جو ایک یہودی تاجر کی اکلوتی بیٹی تھی۔ پہلے ہی حملے میں اس گھر کے تمام افراد قتل کردیئے گئے تھے اور اس نے بھاگ کر سرائے میں پانہ لی تھی ۔ وہ میرے قدموں میں آکر گر پڑی تھی اور اس نے اپنی جان بچانے کے لئے فریاد کی تھی۔ میری جگہ کوئی دوسرا آدمی ہوتا تو وہ اس سے بھی یہی فریاد کرتی میں اسے سرائے سے نکال کر پچھلی گلی کے ایک مکان کی ڈیوڑھی میں لے آیا تھا اور یہاں سے ایک کوٹھری میں چھپا دیا تھا۔ مجھے اس بھولی معصوم صورت یہودی لڑکی نفتانی پر رحم آگیا تھا اور میں نے اس کی جان بچانے کا دل میں فیصلہ کر لیا تھا۔
لیکن اس قتل و غارت گرمی میں ایک حسین صورت لڑکی کو بچا کر نکال لے جانا کوئی معمولی بات نہیں تھی ۔ دو دنوں میں بخت نصر کے ساہیوں نے ہزاروں یہودی مرد ، عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو قتل کر دیا تھا۔ اور مکان کو آگ لگا دی تھی۔ پھر یہ سپاہی اس گلی میں بھی آگئے جہاں میں اس یہودی لڑکی کو ایک مکان میں چھپائے ہوئے تھا۔ اشوری سپاہی منہ زور وحشی جانوروں کی طرح للکارتے ہوئے گلی میں داخل ہوئے۔ ان کی تلواریں یہودیوں کے خون سے سرخ ہو رہی تھیں۔ میں نے ڈیوڑھی کے بند دروازے کے سوراخ میں سے انہیں مکان کی طرف بڑھتے دیکھا تو جلدی سے واپس کوٹھری میں آگیا۔ یہودی لڑکی نفتاتی نے بھی سپاہیوں کے دہشت خیز نعرے سن لئے تھے۔ وہ شاخ گل کی طرح لرز رہی تھی۔ موت کے خوس سے اس کے سرخ و سپید چہرہ زرد ہو رہا تھا۔ اور ہونٹ سوکھ کر سفید ہوگئے تھے۔ میں نے اسے بازو سے پکڑا اور کھینچتا ہوا مکان کے پیچھے کمرے میں لے گیا۔ اسے اندر ڈال کر میں نے دروازہ بند کر دیا اور خود ایک طرف چھپ کر کھڑا ہوگیا۔ میں نے نفتانی کو ہدایت کر دی تھی کہ وہ کوئی آواز نہ نکالے۔
ایک اشوری سپاہی تلوار لئے ڈیوڑھی کا دروازہ پاؤں کی ٹھوکر سے توڑ کر مکان کے اندر داخل ہوگیا۔ میں ستون کے پیچھے چھپ کر اسے دیکھ رہا تھا۔ اس سپاہی کی شکل سے درندگی ٹپک رہی تھی۔ اس کی آنکھوں سے خون ٹپک رہا تھا۔ ڈیوڑھی کی کوٹھری کو خالی پا کر وہ لپک کر عقبی کمرے کے دروازے پر آیا اور اور پاؤں کی ضرب سے دروازہ کھول دیا۔ اندر سے یہودی لڑکی نفتانی کی چیخ بلند ہوئی۔ اشوری سپاہی نے ایک قہقہہ لگایا اور جوں ہی اندر گھسنے لگا میں اس کے سامنے آگیا۔
اشوری سپاہی نے ایک لمحے کے لئے میرے طرف سرخ خونیں آنکھوں سے دیکھا۔ میں تنہا تھا۔ دوسرے ہی لمحے اس کی بھاری بھر کم تیز دھار والی تلوار اوپر کواٹھی اور پھر بجلی کی طرح لہراتی ہوئی میری گردن سے پوری طاقت کے ساتھ ٹکرائی۔ اس کا کیا نتیجہ نکلنے والا تھا؟ میں جانتا تھا مگر وہ اشوری سپاہی نہیں جانتا تھا۔ اس نے ایک ایسا ہوش اڑا دینے والا منظر دیکھا جو اس سے پہلے ا سکی سپاہیانہ زندگی میں کبھی ظاہر نہیں ہوا تھا۔ میں نے اپنی جگہ سے کوئی حرکت نہیں کی تھی۔ اس کی تلوار میں جونہی پوری طاقت کے ساتھ میری گردن سے ٹکرائی تو ایک تیز اور کرخت آواز پیدا ہوئی جیسے تلوار کسی چٹان سے ٹکرا گئی ہو اور بجائے اس کے کہ میری گردن کٹ جاتی اور میرا سر دھڑ سے جدا ہو کر فرش پر گر پڑتا۔ اشوری سپاہی کی مضبوط فولادی تلوار کے دو ٹکڑے ہوگئے۔ ایک ٹکڑا فرش پر جھنجھناتا ہوا گر پڑا اور دوسرے ٹکڑے کا دستہ سپاہی کے ہاتھ میں رہ گیا۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے کبھی مجھے اور کبھی اپنی تلوار کے ٹوٹے ہوئے دستے کو تکنے لگا۔ اس نے سوچا کہ شاید میں نے اپنی گردن کے گرد آہنی گلوبند لپیٹ رکھا ہے۔ اس نے ایک وحشیانہ چیخ کے ساتھ تلوار کا دستہ پھینکا اور پیش قبض کھینچ کر میرے سینے پر وار کر دیا۔ یہ ایک تنومند وحشی سپاہی کا بھرپور وار تھا مگر خنجر کا یہ وار بھی میرے سینے پر ایک خراش تک نہ ڈال سکا۔ میں نے سپاہی کا بازو پکڑ کر اسے زور سے کھینچا۔ یہ میری طاقت کا ایک معمولی سا مظاہرہ تھا۔ قوی ہیکل زرہ پوش سپاہی درخت کی نازک شاخ کی طرف میرے ایک ہی جھٹکے سے فرش پر گر پڑا۔ میرے جھٹکے سے وہ اتنی زور سے پکے فرش سے ٹکرایا کہ اس کا بھیجہ اس کے سر سے نکل کر دور جا پڑا۔ میں نے اس کی گردن پر پاؤں رکھ دیا۔ یہ پاؤں گویا ہاتھی کا پاؤں تھا۔ کیونکہ میں نے اس پر اپنا پورا دباؤ ڈال دیا تھا۔ اشوری سپاہی کی چیخ بھی نہ نکل سکی اور اس کی گردن کے منکے ایک دوسرے سے علیحدہ ہو کر فرش کے ساتھ پچک گئے ۔ اس کا کام تمام ہو چکا تھا۔
(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)