نو بجے کے قریب میں نے عشاء کی نماز اد اکی ..... اس کے بعد شکار کا لباس زیب تن کیا..... رائفل لوڈ کرلی ..... اور بڑی ٹارچ لے کر دروازہ کھولا ..... باہر گلی میں سناٹا ہوچکا تھا ..... میں ذرا دیروہیں کھڑا رہا ..... تاکہ نظریں باہر کے ملگجے اندھیرے کی عادی ہوجائیں.....
مجھے اچھی طرح اندازہ تھا کہ چیتا کئی بارگاؤں میں آچکا ہے ..... یہ عجیب بات ہے کہ کتا..... چیتے سے بہت ڈرتا ہے ..... اور زیادہ حیرت کی بات یہ کہ شیر کی بو سونگھ کر کتا خوب بھونکتا ..... روتا اور چیختا ہے ..... لیکن چیتے کی بو سونگھ کر کتے کو واقعی سانپ سونگھ جاتا ہے ..... ذرا جو آواز کرے ..... ہاں اگر کوئی انسان کتے کے ساتھ ہو تو یہ کتا شیر ہوجاتا ہے .....
میں نے احتیاط سے قدم باہر رکھا ..... کمرے کا دروازہ اچھی طرح برابر کر دیا ..... اور اس باڑے کی طرف چلا جدھر بھیڑیں رکھی جاتی تھیں ..... چند قدم چل کر ہی مجھے احساس ہوا کہ میرے باہر نکلتے اور میری نامانوس بو سونگھنے کے باوجود گاؤں کے کسی کتے نے احتجاج نہیں کیا..... کیا کتے دبک گئے تھے ..... ؟
شکار۔۔۔ آدم خوروں کے شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان...قسط نمبر 54
کیا چیتا گاؤں میں کسی گوشے ..... کسی آڑ میں گھات لگائے ہے .....؟! میں فوراً ہٹ کر ایک دیوار سے پشت لگا کر رک گیا ..... یہاں سے دونوں جانب تقریباً بیس گز کے فاصلے تک مجھے نظر آتا تھا ..... رات کا اندھیرا اتنا شدید نہیں تھا..... تاروں کی روشنی میں ماحول پر ایک دھندلا سا اجالا پھیلا رکھا تھا ..... سامنے بھی پانچ سات گز تک میدان صاف ہی تھا .....
دراصل ..... رات کے وقت شیر یا چیتے کے شکار کے لیے اس طرح نکل کھڑے ہونا قطعاً مناسب نہیں ..... میں نہ جانے کیوں اس رات باہر آگیا ..... عام طور سے میں اسے پسند نہیں کرتا ..... رات کو مچان پر بیٹھنا ہی مناسب ہے . ...
مجھے سخت خطرے کااحساس ہوا ..... ایک ٹھنڈی لہر پشت پر دوڑ گئی اور گردن پر رونگٹے کھڑے ہوگئے .....چیتا ..... ؟ !
میں اندھیرے میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا ..... خطرے کا احساس اور شدید ہوگیا .....
میں جس دیوار سے پشت لگائے کھڑا تھا ..... وہ کوئی سات فٹ اونچی رہی ہو گی ..... کسی کے گھر کی چھت اس دیوار پر ہی رکھی تھی ..... خطرے کا احساس زیادہ ہوا تو میں نے اوپر کی طرف دیکھا .....
دیوار پر چیتا ..... ؟!
مجھ سے کوئی چار پانچ گز پر ..... اور بلی کی طرح دبکا ہوا ..... غالباً وہ مجھ پر کودنے ہی کو تھا ..... میں نے ایک لمحے کا توقف کئے بغیر رائفل اٹھائی ..... میرے رائفل اٹھاتے اٹھاتے وہ موذٰ کھڑا ہوا اور بھاگنے کے لیے گھوما .....اسی وقت میں نے فائر کیا ..... اتنے قریب سے چار سو پچاس ایکسپریس کی پانچسو گرین کی گولی نے اس کو دیوار پر سے پھینکا اور وہ بلی کی طرح چیختا زمین پر گرا ..... قبل اس کے کہ میں دوسرا فائر کروں وہ اندھیرے میں غائب ہوگیا ..... لیکن مجھے یقین تھا گولی اس کے لگی ہے ..... !
کتے بھی بھونکنے لگے ..... لوگ باتیں کرنے لگے..... بچے رونے لگے ..... سب سے پہلے جو شخص وہاں نمودار ہوا وہ گھماں تھا..... ایک ہاتھ میں لالٹین.....دوسرے میں کلہاڑی لئے میرے قریب آگیا..... میں اس ٹارچ کی روشنی سے وہ جگہ دیکھ رہا تھا جہاں چیتا تھا ..... خون کا ایک بڑا سادھبہ موجود تھا ..... اور جدھر وہ موذی گیا تھا اس طرف خون کے قطرے ٹپکتے گئے تھے ..... وہ زخمی ہوا تھا ..... خون کی مقدار بتاتی تھی زخم گہرا ہے اور گولی پیٹ یا سینے پر نہیں لگی ..... غالباً شانے یا ران پر لگی ہوگی ..... تب ہی خون نکل رہا تھا ..... پیٹ یا سینے کی گولی سے اتنا خون نہیں نکلتا ..... ’’زخمی ہوا ہے ..... ‘‘ وہ بولا
’’ہاں ..... یہی کہیں ہوگا ..... ‘‘وہ گھبرا کر ادھر ادھر دیکھنے لگا ..... اب اور کوئی لوگ نکل آئے تھے ..... ممتاز اور لالن اور جنگی بھی آگئے تھے ..... اور سب چہ میگوئیاں کر رہے تھے .....
’’اچھا ..... تم لوگ گھروں میں جاؤ..... صبح جو شخص گھر سے نکلے وہ اچھی طرح دیکھ بھال کر نکلے ..... چینے کو گہرا زخم آیا ہے ..... وہ آس پاس ہی ہوگا ..... ‘‘
میں واپس آگیا ..... اور سب بھی گھروں میں گھس گئے ..... صبح فجر کے لیے اٹھا تو باہر نہیں نکلا ..... تیمم سے نماز پڑھی اس کے بعد روشنی ہونے تک تلاوت کرتا رہا ..... گاؤں والے بھی روشنی ہوتے نکلے .....
میں نے جہاں خون دیکھا تھا وہیں تلاش کا سلسلہ شروع کیا ..... زمین پر جہاں خون تھا وہ خشک ہوگیا تھا اور گاؤں والوں نے یہ احتیاط کی کہ اس پر پاؤں نہیں رکھا ..... وہاں سے چیتا جس طرف گیا تھا اس کے نشان اس وجہ سے بھی واضح تھے کہ اس کا سیدھی جانب کا ایک پچھلا پیر ..... یا ٹانگ ..... زمین پر گھسٹ رہی تھی یقیناًگولی کولھے ..... یار ان پر لگی ہوگی اور ٹانگ ٹوٹ کر لٹک گئی ..... خون کے دھبے بھی ملتے رہے .....
میرے ساتھ اس وقت چھ آدمی تھے ..... جو زخمی شیر یا چیتے کی تلاش کے لیے بہت کم تھے ..... لہٰذا بہترین طریقہ یہ معلوم ہوا کہ میں تنہا ہی یہ کام کروں ..... البتہ گھماں کو میں نے ساتھ لیا ..... اور اس کو اپنی بندوق لوڈ کر کے دی .....
گھماں حسب معمول میرے آگے آگے میں قدم پر چلتا تھا اس کا کام یہ تھا کہ خون کے دھبے یا ٹانگ کے گھسیٹے جانے کے نشانات تلاش کرتا چلے ..... اور اس نے یہ کام نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دیا ..... چیتا گاؤں سے نکل کر سیدھا ندی میں اترا ..... خشک سطح کے سفید پتھروں پر اس کے خون کے واضح نشانات مل رہے تھے ..... ندی پار کر کے وہ اسی جگہ بیٹھا رہا تھا ..... وہاں اس کا خون کافی مقدار میں جمع ہوا تھا ..... اس کے بعد وہ پہاڑ پر چڑھنے کے ارادے سے سیدھا گیا ..... لیکن غالباً زخم کی تکلیف نے ادھر نہیں جانے دیا اور وہ رخ بدل کر اس گھاٹی ما تنگ وادی کی طرف گیا جو میں پچھلے دن دیکھ چکا تھا ..... البتہ مجھے یقین تھا کہ چودہ پندرہ گھنٹے کا عرصہ گزر جانے کے بعد اس کا زخم زیادہ تکلیف دہ ہوگیا ہوگا ..... اور اب ہ شاید ہی اس قابل ہو کہ زیادہ بھاگ سکے یا حملہ کر سکے ..... اور ..... اگر ایسا ہوا بھی ..... تو بہت سریع نہیں ہوسکتا .....
(جاری ہے... اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)