شکار۔۔۔ آدم خوروں کے شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان...قسط نمبر 54
میں نے ایک بار ایبٹ آباد سے کاغان تک سفر کیا ..... سارا راستہ ..... اپنی دلکشی اور شادابی کے باوجود مجھے ایک ہرن یا ہڑیال نظر نہیں آیا ..... لیکن جانور ہیں ..... کم ہیں ..... پاکستان میں بھی بعض مقامات پر SANCTUARYبنائی گئی تھیں ..... لیکن میں یہ تیس سال پہلے کی بات کر رہا ہوں جب میں پاکستان میں تھا ..... اس کے بعد تو لاقانونیت اور عدم تحفظ کی حالت روز بروز ترقی پذیر رہی ..... جو لوگ جنگلی جانوروں کی نگرانی اور حفاظت کرنے والے تھے انہوں نے ہی کشتوں کے پشتے لگا دیئے ..... قابل شکار جانور کہاں رہتے گیم واچر کی حیثیت اس قدر حقیر کی اس کے پاس کسی کو روکنے کی اہلیت مفقود ..... او اگر کوئی گیم و اچر ایسا ارادہ کر بھی سکے تو چند روپے اس کو خوش کرنے اور منھ بند کرنے کے لیے کافی ہوتے تھے ..... اب تو رشوت خوری کی گرم بازاری ہے (1990ء(آجکل گیم واچر کو خریدنا کیا دشوار ہوگا .....
دراصل گیم واچر ..... یا نگرانی کی بات نہیں ..... پہلی بات تو خود لوگوں کے ذہن میں نہ صرف قانون کے احترام کا تو تصور پیدا ہونا ہے بلکہ حب الوطنی کے تحت ؟؟؟ و قوم کی قدرتی دولت ضائع کرنے سے احتراز کرنے کا خیال بھی موجود ہونا ضروری ہے ..... !
امریکی قانون بڑے سخت ہیں ..... یہ نہیں کہ سزا دینے میں کسی کی مالی ، سیاسی ، یا معاشرتی حیثیت کا لحاظ رکھا جائے ..... جس نے بھی خلاف ورزی کی وہ قانون کے مطابق بلا تحصیص سزا کا مستحق ہوا ..... ! پاکستان میں اگر قانون کے نفاذ میں یہی سختی ہوجائے اور قانون نافذ کرنے ولاے ایماندار اور غیر جانبدار بھی ہوجائیں تو میرے خیال میں بے شمار خرابیوں کا علاج کیا جائے ..... پاکستانی پولیس مجرموں کو اس لیے گرفتار نہیں کرتی کہ ان کو سزا ملے ..... بلکہ اس لیے گرفتار کرتی ہے کہ متعلقہ لوگوں کو اس کے ذریعے سے آمدنی ہوسکے ..... رشوتیں نہ دیں سکیں..... !
میں جنگلی کتوں کا مشاہدہ کررہا تھا .....ً پستی اچھی نہیں ہوتی ..... ویسے بھی پستی کی حالت میں منظر محدود ہوجاتا ہے جو پستی میں گرا اس کی نظروں سے ساری دنیا پنہاں ہوگئی .....
بلندی اچھی ہوتی ہے ..... جو بلندی پر فائز ہو اس کی نگاہ میں وسعت مشاہدہ ؟؟؟ہو جاتی ہے ..... مناظر وسیع تر اور روشن تر ہوجاتے ہیں ..... اسے وہ کچھ نظر آنے لگتا ہے جو پستی میں رہنے والوں کو ہر گز نہیں آسکتا ..... میں دیکھ رہا تھا کہ ان کتوں کا ہدف وہ چیل ہیں جو ان سے کوئی ڈیڑھ سو گز پر بے خبری کی حالت میں کسی پھل دار درخت کے سائے میں شکم پری کر رہے تھے ..... ایسے اکثر موقعوں پر میرا دل بے ساختہ چاہتا ہے کہ حملہ آور سے کمتر کو بچانے کی کوشش کروں ..... لیکن ہر بار یہ سوچتا ہوں کہ خداوند کریم نے جنگل میں بھی ایک قانون مقرر کر رکھا ہے ..... یہ قانون چاہتا ہے کہ جنگل میں سب ایک دوسرے کی فلاح و بہبود کا اس طرح خیال کریں کہ کمزور نظر آئے اس کو ہلاک کردیں ..... دفاع میں ذرا بھی تساہل کیا، اس کی زندگی کا چراغ بجھا گیا .....
میں نے گھماں کوہدایت کی کہ دوسری جانب اترے جدھر ایک تنگ وادی میں درختوں نے کئی گھنے چھنڈ بنا رکھے تھے..... لیکن اس روز کی جنگل نور دی سے کوئی اہم معلومات حاصل نہیں ہوئیں..... عصر کے وقت ہم بے نیل و مرام واپس گاؤں آئے ..... البتہ ممتاز اور لالن کو تعجب ضرورت ہوا کہ ہم دونوں اتنا وقت جنگ میں گھومتے رہے اور اتنی دور چلے گئے تھے .....
شیر کی کھال صاف کر کے اس میں خوب نمک لگا کر سائے میں لٹکا دی تھی .....میں نے کنویں پر خوب اچھی طرح غسل کیا جس کے لیے پانی گھماں نکلتا رہا ..... پھر عصر کی نماز ادا کی اور بارہ بور کی بندوق ہاتھ میں لئے باہر آگیا.....
شیر کو جنگل میں تلاش کرنا اس لیے بھی آسان تر ہے کہ وہ آدم خور ہوجانے کے بعد اپنے معمول میں تبدیلی کرتے ہوئے دن کے وقت جنگلوں میں گشت کرنے آتا ہے..... لیکن چیتا ایسا نہیں کرتا ..... وہ حسب معمول رات کو ہی شکار کی جستجو کرتا ہے ..... البتہ بھوک بہت ستائے تو دن کے کسی حصے میں بھی پیٹ کی آگ بجھانے نکل آتا ہے..... یہی سبب تھا کہ اس نے دو وارداتیں دن کے وقت کیں.....
گاؤں میں چار پائیاں ہی بیٹھنے اور سونے کے لیے استعمال ہوتی ہیں..... میرے لیے چوپال ..... اگر اس کو چوپال کہا جائے ..... کے سامنے ایک چارپائی ڈالی گئی تھی ..... میں اس پر بیٹھ گیا بندوق پاس رکھ لی ..... نزدیک دوسری چارپائی پر ممتاز ، لالن اور جنگی بیٹھے ..... گاؤں کے چند لوگ سامنے زمین پر اکڑوں بیٹھے تھے ..... گھماں دن کے گشت کے رودادان کو سنا رہا تھا ..... اور میں دیکھ رہا تھا کہ ممتاز اور لالن بار بار میرے طرف دیکھتے تھے ..... ان کو میرے بارے میں سخت غلط فہمیاں تھیں ..... جو بتدریج رفع ہو رہی تھیں ..... انہوں نے غالباً سوچا ہوگا کہ ایک جوان آدمی جو جسمانی اعتبار سے نہ لحیم و شیم ..... نہ دیو پیکر ..... دیکھنے میں درشت اور جفاکش ..... وہ اس قدر نڈر کیسے ہو سکتا ہے ..... جبکہ وہ دونوں اپنے جسم وقد کے باوجود اپنی بندوقیں چھوڑ کر دم دبا کر بھاگ لئے تھے .....
ممکن ہے وہ یہ بھی سوچتے ہوں کہ میں ان کے فرار کے مضحکہ خیزداستان سب کو سنا دوں گا اور وہ ان کی شرمندگی کا باعث ہوگی ..... لیکن میں اس واقعے کو بھول ہی گیا ..... قطعاً نذکرہ نہیں کیا ..... میں کسی کی تحقیر نہیں کرتا ..... ہر شخص رستم بھی نہیں ہو سکتا ..... کوئی بہادر ہوتا ہے کوئی بزدل ..... اتفاق ہے
بکروکن ایرو کے جس گھر میں ہم رہتے تھے ..... اس کے عقب میں بہت بڑا لان تھا ..... جس میں جانے کے لیے عقبی باڑ میں دروازہ بنا ہوا تھا ..... یہ دروازہ مقفل نہیں رہتا ..... سب ہی کے backyardاس طرح کے ہوتے ہیں ..... میرے گھر کے backyardمیں ایک ناشپاتی اور ایک سیب کا درخت تھا ..... اس کے علاوہ بے شمار گلاب اور پھول کے درخت .....
میرا بیڈ روم بالائی منزل پر تھا ..... اور بیڈروم کے مغربی جانب ایک بہت بڑا دروازہ تھا جس میں سارا نہایت د بیز شیشہ لگا تھا ..... شیشے کے آگے لوہے کی جالی کا دروازہ بھی تھا ..... یہ دونوں دروزے مقفل ہوجاتے تھے ..... اس کے آگے وسیع صحن تھا.....
بیڈروم کے جنوب کی طرف دروازے کے سامنے بالکونی تھی جس سے گزر کر دوسری جانب ٹی وی روم تھا جہاں ہم سب اکثر جمع رہتے تھے .....
ایک رات ..... تقریباً گیارہ بجے ..... جبکہ عرشی اور میری بہو نیچے کے حصے میں اپنے بیڈ روم میں سوگئے تھے ..... میں اور بیگم ٹی وی دیکھ رہے تھے .....
بیگم نے کہا.....’’اب دیر ہوگئی ..... سوجانا چاہیے ..... ‘‘
’’ اچھا ..... ‘‘ میں نے کہا’’ آج میں آپ کی بات ہی مانے لیتا ہوں .....‘‘
میں نے ٹی وی بند کیا ..... لائٹ آف کی اور ہم دونوں بالکونی سے گزر کر اپنے بیڈم روم میں وارد ہوئے بیگم دست شوئی کی طرف گئیں میں نے اس دروازے کی طرف نظر کی جوbackyardمیں کھلتا تھا تو سامنے ہی بالکونی کے جنگلے پر چڑھ کر ایک سفید فام امریکی صحن میں اترا.....
چور ..... یاڈاکو.....! امریکہ کے چور اور ڈاکو مسلح ہوتے ہیں ..... ! میں دروازے کی طرف لپکا ..... اور نہایت گرجدار آواز میں اس چور کو للکارا ..... ساتھ ہی بیگم سے کہا.....
"give me my gun"
چور تو بھاگا ..... جنگلے پرچڑھ کر بہ آسانی دوسری طرف اترا ..... بیگم نے بھی اس کو دیکھا ..... اور غالباً خوف کی وجہ سے ان کی جان ہی نکلنے کو ہوگئی ہوگی ..... میں نے عرشی کوآواز دی ..... پھر پولیس کو فون کر کے بلایا ..... لیکن وہ آدمی غائب ہوگیا ..... بیگم صاحبہ نے میرے بارے میں جو رائے زنی فرمائی وہ یہ تھی .....
’’میں تو ڈرتی ہوں ..... ‘‘ یہ کئی روز بعد کی بات ہے ’’ خدا کی پناہ ..... چور سے تو اچھے اچھوں کا پتہ پانی ہوتا ہے ..... آپ کا تو جنگلوں میں شیروں چیتوں کے ساتھ گھوم گھوم کر دل سخت ہوگیا ہے ..... ہر ایک تو آپ نہیں ہوسکتا ..... ‘‘
بہرحال یہ ایک حد تک صحیح بھی ہے ..... ڈر ..... جسے خوف کہا جاتا ہے ..... میرے خون میں شامل نہیں ..... لیکن انسان میں بھی ہوں ..... !
مغرب کی نماز کے وقت تک وہاں اجتماع رہا ..... پھر میں اٹھ گیا ..... نماز کے کے بعد ہم نے کھانا کھایا ..... اس ے بعد ممتاز اور دوسرے چوپال میں جا بیٹھے ..... میں لالٹن کی مدھم روشنی میں اپنی یادداشتیں مکمل کرنے بیٹھ گیا .....
(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)