شکار۔۔۔ آدم خوروں کے شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان...قسط نمبر 53
دوسرے روز ..... ناشے کے بعد میں تیار ہو کر نکلا ..... رائفل کے علاوہ میں نے شاٹ گن بھی شانے پر لٹالی ..... شیرنی کی لاش اس روز صبح ہی ایک شخص کے سپر کر دی گئی تھی ..... میں جب نکلا ہوں اس وقت وہ اس کی کھال بہت احتیاط سے اتار رہا تھا ..... اور کئی بچے ادر دو ایک عورتیں کئی مرد اس شیرنی کی کھال کھینچی جانے کا تماشا دیکھ رہے تھے .....
ممتاز لالن اور جنگی تینوں مجھے دیکھ کر کھڑے ہوگئے ..... اور سلام کیا ..... ’’کیا آپ اکیلے ہی جائیں گے ..... ‘‘
’’ہاں ..... ‘‘
’’صرف چیتے کا معاملہ ہے ..... ‘‘ ممتاز نے کہا .....
’’ہوں ..... ‘‘ میں مسکرایا ’’کیا شیرنی مارنے میں کسی نے میری مدد کی تھی ..... ؟ ! ‘‘
وہ سب خاموش ہوگئے .....’’لیکن ..... اگر کوئی جوان مرد میرے ساتھ چلے تو کوئی ہرج نہیں ..... ‘‘
’’میں چلتا ہوں ..... ‘‘جنگی نے پیش کش کی .....
’’نہیں ..... میں کسی گاؤں کی آدمی کو لے جانا پسند کروں گا جو جنگل گھاٹی سے واقف ہو ..... ‘‘
اس کام کے لیے مراری ..... اور نصیبن کا شوہر گھماں دونوں والینٹر بن گئے ..... میں نے ان دونوں سے بات کی اور خاص طور سے پوچھا .....
’’ اگر چیتے نے حملہ کیا تو بھاگو گے تو نہیں ..... ؟‘‘
میں نے دونوں کے نام کاغذ کے پرزوں پر لکھ کر اپنی ٹوپی میں ڈالے ..... اور ممتاز کو دیئے ..... اس نے گھماں کے سامنے وہ ٹوپی لی اور اس سے ایک پرزہ اٹھانے کو کہا ..... اتفاق کہ اسی کا نام نکلا .....
میں نے پانی کی بوتل ، اپنا شکاری جھولا بندوق اس کے سپرد کی اور حسب معمول اس سے آگے چلنے کو کہا ..... راستے میں اس کو ضروری ہدایات بھی دیتا رہا ..... گھماں اچھا آدمی تھا .....
یہ بات خاص طور سے قابل توجہ تھی کہ ’’بھوت ‘‘ کا دائرہ عمل جنوب کی طرف تھا ..... گویا ندی کے اطراف میں ..... ندی گاؤں کے جنوب سے گزرتی تھی ..... آخری واردات بھی اسی علاقے کے متصل جنگل میں ہوئی ..... لہٰذا میں نے گھماں کو اسی طرف چلنے کی ہدایت کی .....
ممتاز اور لالن دونوں حیرت زدہ تھے کہ میں آدم خور چیتے کی ہلاکت پر کمر باندھ کر اس طرح جنگل میں کیوں جا رہا ہوں ..... وہ اس کام کو بے حد خطرناک اور میرے جنگل میں جانے کو بہت بڑی غلطی تصور کرتے تھے انہوں نے ایسا کوئی شکاری نہ دیکھا تھا نہ سنا تھا جو آدم خور کے جنگل میں جانے کو تیار ہو جاتا ہو ..... ان کے نقطہ نظر سے تو مجھے گاؤں کے قریب ہی مچان پر بیٹھنا چاہیے تھا .....
میں نے گزشتہ وارداتوں کے سارے مقامات دیکھے ..... گھمان نے بتایا کہ واردات کے بعد بھی کوئی نشان نہیں ملا تھا ..... اب تو تقریباً سال ہونے کو تھا ..... لیکن یہ نشانات کا متلاشی نہیں تھا ..... ندی کے جنوبی کنارے سے ہی جھاڑیوں کا سلسلہ تھا ..... اور وہ بھی مدار اور چرونجی ..... یہ جھاڑیاں بڑی گھنی اور دور تک پھیلتی ہیں ..... میں ایسی حالت میں کہ چیتا آدم خوری پر آمادہ ہوگیا ہومدار کے جنگل میں گھسنے کو ہرگز مناسب نہیں سمجھتا ..... الایہ کہ بے حد مجبوری ہو ..... وہ مجبوری ہی کا موقعہ تھا ..... میں نے گھماں کو قریب ہی رکھا ..... اور ہم دونوں بحمداللہ بخیریت اس گھنے علاقے سے گزر کر جنگل میں نکل آئے جہاں بلند قامت درخت تھے ااور ان کے سائے میں کہیں گھاس کہیں جھاڑیاں .....
اس روز ہمارے گردش بے مقصد ہی تھی ..... میں اس علاقے سے کسی قدر شنائی پیدا کرنا چاہتا تھا ..... چنانچہ پہاڑیاں سرکرنے اور ندی نالوں کو عبور کرنے مین دوپہر ہو ہی گئی ..... یہ وہ وقت تھا جب ہم گاؤں سے کوئی دو میل دور ایک چٹیل پہاڑی کی چوٹی پر پہنچے تھے ..... کچھ سرخ ..... بعض بھوری ..... اور ٹھوس بلندی پر آکر صاف جگہ پر میں نے گھماں کو جنوب رخ بیٹھنے کا حکم دیا ..... خود اس سے چند قدم ہٹ کر ایک صاف چٹان پر شمال رُخ بیٹھ گیا ..... سامنے دور تک گھنا جنگل پھیلا ہوا تھا ..... درختوں کے نیچے توہم گھومتے ہی رہتے ہیں ..... اور ان کے ساتھ نہ صرف خوشگوار ہوتے ہیں بلکہ خود درخت بھی نظروں کو بھلے لگتے ہیں لیکن اس سے زیادہ لطف ان درختوں کو بلندی سے دیکھنے میں آتاہے .....
وہ برگد، پیپل ، املی ، نیم اور سال کے درخت جو انسانی قدرو قامت کے مقابلے میں فلک بوس اور غول پیکر معلوم ہوتے ہیں ..... بلندی سے دیکھنے پر اسی قدر بونے اور بے حقیقت بن جاتے ہیں .....
لیکن حدنگاہ تک پھیلا ہوا شاداب جنگل ..... ہرے بھرے درخت جو اسطح زمین کو زینت و عزت عطا کرتے ہیں ..... سبزہ زار ..... جو قدرت کا بچھایا ہوا زمرویں فرش نظر آتا ہے .....
البتہ مجھے اس علاقے میں پانی کی کمی کا احساس ہوا ..... وہ تمام علاقہ جو میں نے دیکھا وہاں کوئی چشمہ یا ندی نظر نہیں آئی ..... خشک نالے تو کئی ملے ..... جو مو ن سون کے موسم میں پُر آب اور ناقابل عبور بن جاتے ہوں گے لیکن ان دونوں ان میں پانی نہیں تھا .....
’’صاحب جی ..... ‘‘گھماں نے مخاطب کیا
’’ہاں بھئی ..... ‘‘
’’ادھر جنگلی کتے ہیں ..... ‘‘ اس کی آواز میں لرزش تھی .....جنگلی کتے بڑی بلائے بے درماں ہوتے ہیں ..... ویسے عام طور پر ان کے کسی آدمی پر حملہ کرنے یا تنگ کرنے کا واقعہ تو میرے سننے یا تجرے میں نہیں ..... لیکن اس موذی فرقے سے مقابلہ کرنا ..... یا اس کے نرغے میں آنا مجھے قطعاً گوارا نہیں ..... یہ کتے انسان سے بے حد ڈرتے ہیں ..... کبھی سامنے نہیں آتے ..... لیکن ان پراعتماد بھی ممکن نہیں ..... اگر یہ کسی جانور کو پھاڑ کھانے کا ارادہ کرلیں تو پھر دنیا کی کوئی طاقت اس جانور کو اس کی خون آشامی سے بچا نہیں سکتی ..... میں نے ایک شیر کو ان کا لقمہ تر بننے کا واقعہ نواب قطب یار جنگ کی کتاب میں پڑھا ..... مشہور انگریزی مصنف برینڈر نے بھی اسی قسم کا ایک واقعہ تحریر کیا ہے ..... ممکن ہے برینڈر کے بیان کردہ واقعے کو ہی قطب یار جنگ نے کسی قدر ردو بدل کے ساتھ اپنا مشاہدہ بنا لیا ہو اس لئے کہ ان کو اس قسم کے ’’سرقے ‘‘ میں ہد طولیٰ حاصل تھا ..... !
میں نے گھوم کر کتوں کو دیکھنے کی کوشش کی ..... دور ..... شاید میل بھر ..... ایک کھلے میدان میں ان کا بہت بڑا مندا تھا ..... غالباً چالیس پچاس تو ضروررہے ہوں گے ..... ممکن ہے زیادہ ہو ..... سارے تو نظر بھی نہیں آرہے تھے .....
لیکن میں نے چیتلوں کے اس مندلے کو بھی دیکھ لیا جو ان سے غالباً سو دو سو گزر پر تھا اور ان تباہ کاروں کے وجود سے لاعلم ..... کتے جنگلی جانوروں کو بہت نقصان پہنچاتے ہیں ..... اسی لیے مختلف مقامات پر ان کو مارنے کی نہ صرف آزادی تھی بلکہ تین روپیہ فی انعام مقرر تھا ..... شرط یہ تھی کہ کتے کی دُم بطور ثبوت پیش کی جائے .....
کتے کی دُم ..... ؟ مثل مشہور ..... کتے کی دم کبھی سیدھی نہیں ہوتی ..... ! ان کتوں کو ہلاک کرنے کی کوشش بھی خطرے کا کام ہے .....
دراصل ایک تو یہ کتنے کثیر تعداد میں ہوتے ہیں ..... دوسرے کو اپنے مقدر پر قربان ہونے میں عار محسوس نہیں ہوتی ..... جس کے پیچھے لگ جاتے ہیں اس کو چیونٹیوں کی طرح چپک جاتے ہیں ..... کثیر تعداد کے پیش نظر ان کو زیادہ خوراک اور زیادہ جانوروں کو ہلاک کرنے کی ضرورت رہتی ہے ..... اس لیے ان کی تباہ کاری کا دائرہ وسیع ہوتا ہے .....
بعض ایسے جنگل جو یا تو (SANCTUARY)قرار دیئے گئے ہیں یا جہاں نیشنل پارک میں ان جنگلوں میں کتوں کو زہر سے یا خاص قسم کے TRAPSکے ذریعے پکڑ کر ختم کر دیا گیا ..... لیکن وہ جنگل جہاں ان کی نسل باقی ہے ان میں ان کی ریشہ دوانیاں بھی جاری ہیں ..... یہ کسی جانور کی خاص طور سے تخصیص بھی نہیں کرتے ..... جو کچھ ہتھے جڑھا مارا اور کھالیا ..... ہرن اور چکارے سے لے کر بھینسے تک ہر جانور ان کی غذا بن جاتا ہے ..... حتیٰ کہ خرگوش اور جنگلی مرغ بھی ..... تیتر اور بٹیر بھی ان کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں ..... پاکستان میں گھنے جنگل ہی نہیں ہیں .....
شمالی علاقوں کے علاوہ اور کہیں وہ گھنے جنگل نہیں ہوتے ..... پاکستان میں پنجاب ، سندھ ، سرحد اور بلوچستان ..... سب یکساں ہیں ..... سوات ، چترال ، دیر ، نگر ، گلگت ، اسکردو ..... اور کشمیر کے علاقے شاداب اور جنگلوں سے ڈھکے ہوئے ہیں لیکن قابل شکار جانوروں کی وہ افراط نہیں ہو ہندوستان کے جنگلوں میں ہے ..... اور جن علاقوں میں کثرت تھی وہاں لوگوں نے ستم ڈھا کر قلت میں بدل دیا ..... اب کچھ نہیں .....
(جاری ہے... اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)