کیا ”کپتان“ نے دیر کر دی؟ کیا آخری کارڈ اب بھی کارآمد ہےآنیوالے وقت میں ”کام“ دکھا سکتا ہے؟صورتحال اچھی نظر نہیں آتی

کیا ”کپتان“ نے دیر کر دی؟ کیا آخری کارڈ اب بھی کارآمد ہےآنیوالے وقت میں ...
کیا ”کپتان“ نے دیر کر دی؟ کیا آخری کارڈ اب بھی کارآمد ہےآنیوالے وقت میں ”کام“ دکھا سکتا ہے؟صورتحال اچھی نظر نہیں آتی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تحریر: سید صداقت علی شاہ

بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
زیادہ دور کی بات نہیں، پاکستان تحریک انصاف اور اسٹیبلشمنٹ کے ”ون پیج“ کا طوطی بولتا تھا۔ آنیاں، جانیاں، جپھیاں، ہانسیاں، کھیڈیاں، کیا کہنے۔ دیکھنے والا بس دیکھتا ہی رہ جاتا تھا۔”انصافی“ رشک کرتے تھے اور ”نونیوں“ کے سینے پر سانپ لوٹتے تھے۔ وہ پنجابی کا کیا خوب شعر ہے
جیدا یار جدا ہو جاوے(جس کا محبوب جدا ہو جائے)
اودی نیندر اوڈ پڈ جاوے (اس کی نیند کا ٹھکانہ نہ رہے، نیند برباد ہو جائے)
نونیوں کی سیاست کی ”محبوبہ“ اسٹیبلشمنٹ ان سے رخ موڑ چکی تھی۔اور کپتان اپنے ”وقت“ میں روز نونیوں کی نیند اور سکون خراب کرتے تھے۔ اب وقت یہ آ گیا ہے کہ خان صاحب تقریباً ڈیڑھ برس سے جیل میں ہیں اور روز ہی آواز لگاتے ہیں:۔
کہاں ہو تم،چلے آؤ 
محبت کا تقاضا ہے
غم دنیا سے گھبرا کر
تمہیں دل نے پکارا ہے
وہ نہیں آ رہے۔ آواز سنتے ہیں مگر جواب نہیں دے رہے۔ اب تو کپتان کے ”سپاہی“ بھی بے چین ہونے لگے ہیں۔ 8 فروری کے انتخابی نتائج سے لے کر 24نومبر کی ”فائنل کال“ تک خان کی ٹیم کے گیارہ کھلاڑی حکومت کوبڑے زعم سے چیلنج کرتے تھے اور دھڑلے سے کہتے تھے کہ یہ فارم 47کی حکومت ہے، اس سے کوئی بات نہیں کر سکتے۔ ہم بات کریں گے تو آرمی چیف سے، ٹیبل پر بیٹھیں گے تو ڈی جی آئی ایس آئی کے ساتھ اور اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کر کے ہی کسی نتیجے پر پہنچیں گے۔ 26نومبر 2024ء کی ”رانگ کال“ کے بعد اب تو ان کے لب و لہجے بھی تبدیل ہو گئے ہیں۔ 24 نومبر 2024ء کی ”فائنل کال“ سے پہلے کے بیانات پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
13 مئی 2024 کو اینکر پرسن وسیم بادامی کے پروگرام میں رؤف حسن نے کہا کہ ”ہماری بڑی واضح پوزیشن ہے، ہم اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بات چیت کرنے کیلئے تیار تھے، تیار ہیں اور تیار رہیں گے کیونکہ طاقت کا منبع اسٹیبلشمنٹ ہے“۔
27 اگست 2024 ء کو اینکرپرسن شہزاد اقبال کے پروگرام میں شہریار آفریدی بولے ”حکومتی وزرا ءمذاکرات کرنے کے اہل ہی نہیں ہیں،کیا مذاکرات کریں گے؟ ہاں مذاکرات ہم کریں گے، ہم بات چیت کریں گے تو آرمی چیف کے ساتھ، ڈی جی آئی ایس آئی کے ساتھ، پاکستان کی فوج کے ساتھ۔ یہ بیچارے تو ”ریجیکٹڈ لاٹ“ ہیں، یہ ہمارے ساتھ کیا بات کریں گے“۔
29 اگست 2024ء کو اینکرپرسن محمد مالک کے پروگرام میں سلمان اکرم راجہ نے فرمایا ”پاکستان میں اگر کسی نے سیاسی طور پر زندہ رہنا ہے تو اسے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہی معاملہ طے کرنا پڑے گا“۔
یہ ایک ہلکی سی جھلک آپ کے سامنے ہے۔ 26نومبر 2024ء کی ”مس کال“ کے بعد کیا منظرنامہ بنا ہے، وہ بھی آپ کے سامنے پیش کیے دیتے ہیں۔
11دسمبر 2024ء کو بیرسٹر گوہر خان نے میڈیا سے گفتگو کی۔ کہتے ہیں ”ہم تو مذاکرات چاہتے ہیں، سارے معاملات ہی سیاسی ہیں اور سیاسی معاملات کا حل سیاسی افراد ہی نکالتے ہیں۔ڈائیلاگ میں کسی قسم کی کوئی پیشگی شرط نہیں رکھی جاتی“۔
10دسمبر 2024ء کو عمر ایوب نے نیوز کانفرنس کی۔ بولے”انسان ہوں، فرشتے ہوں یا کوئی اور ہوں، ہم مذاکرات کیلئے تیارہیں“۔
11دسمبر 2024ء کو سلمان اکرم راجہ نے بانی پی ٹی آئی سے اڈیالہ جیل میں ملاقات کی اور باہر آ کر کیا کہا؟ فرمایا ”جو کوئی بھی ہے، ہم ہر کسی سے مذاکرات کرنے کو تیار ہیں، جو ہمارے ساتھ بات کرنا چاہتا ہے، ہم اس کے ساتھ کھڑے بھی ہوں گے اور بات بھی کریں گے“۔
11دسمبر 2024ء کو شبلی فراز نے سینیٹ میں خطاب کیا۔ کہنے لگے ”مذاکرات ہونے چاہئیں، آپ ہمارے بھائی ہیں، سیاسی اختلافات ہیں اور وہ رہنے بھی چاہئیں، ذاتی دشمنیاں نہیں بنانی چاہئیں“۔
12دسمبر 2024ء کو شیر افضل مروت نے سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کی، کہا ”حکومت سے مذاکرات عنقریب شروع ہونے والے ہیں“۔
یاد ماضی عذاب ہے یا رب
اس ساری صورتحال میں شاعر منیر نیازی کی ایک نظم بڑی شدت سے یاد آرہی ہے۔
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں، ہر کام کرنے میں 
ضروری بات کہنی ہو، کوئی وعدہ نبھانا ہو
اسے آواز دینی ہو، اسے واپس بلانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں 
کیا ”کپتان“ نے دیر کر دی؟ کیا خان کے ”سپاہیوں“ نے بھی دیر کر دی؟ کیا آوازیں دی گئیں مگر سنا نہیں گیا؟تبھی تو شاعر نے کہا تھا:۔
واجاں ماریاں بلایا کئی وار میں 
کسے نے میری گل نہ سنی
اب تو سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے بھی کہہ دیا ہے۔ ”فوجی عدالتیں فیصلہ سنا دیں۔ جسٹس امین الدین کی سربراہی میں آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیخلاف درخواست پر سماعت کی۔ آئینی بینچ نے حکم نامہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ فوجی عدالتیں 85 ملزمان کے مقدمات کا فیصلہ کریں۔فوجی عدالتوں کے فیصلے سپریم کورٹ میں زیر التوا ءمقدمے کے فیصلے سے مشروط ہوں گے،جن ملزمان کو سزاؤں میں رعایت مل سکتی ہے، وہ دے کر انہیں رہا کیاجائے۔ جن ملزمان کو رہا نہیں کیا جا سکتا، انہیں سزا سنا کر جیلوں میں منتقل کیا جائے“۔
کیا پلوں کے نیچے سے بہت پانی بہہ گیا ہے؟ کیا ”کپتان“ کا آخری کارڈ اب بھی کارآمد ہے اور آنے والے وقت میں بھی ”کام“ دکھا سکتا ہے؟
یہ وہ سوالات ہیں جو ہر کسی کے ذہن میں ہیں۔ سردست تو پاکستان تحریک انصاف کیلئے صورتحال اچھی نظر نہیں آتی۔”آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا“ کیا یہ مثال تحریک انصاف پر فٹ آتی ہے؟
پاکستان تحریک انصاف کے کرتا دھرتاؤں سے گزارش ہے۔حکمت عملی بدلیں جناب! حکمت عملی بدلیں۔ پہلے بھی درخواست کی تھی کہ فوکس خان کو باہر نکالنے پر ہونا چاہیے، اس کیلئے مذاکرات بے شک اسٹیبلشمنٹ سے ہی کریں۔ لیکن اس سے پہلے ماحول تو بنائیں جناب۔ اب تو بشریٰ بی بی بھی باہر ہیں۔ بیٹھیں ناجناب، کیوں نہیں اکٹھے ہو کر بیٹھتے؟ دیکھیں، سوچیں، کہاں غلطی ہو رہی ہے؟ فوکس اور ترجیح صرف ایک رکھیں جناب، کپتان کو باہر لانا ہے۔ آپسی جھگڑے،اختلافات بھول جائیں جناب۔پھر ہی کچھ ہو گا۔کیونکہ:۔
کوئی وقت کی قدر کرے یا بے قدری
اسے تو آگے ہی بڑھنا ہی ہے
وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا

نوٹ : ادارے کا لکھاری کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں 

مزید :

بلاگ -