کینال پر بلاول بھٹو زرداری کا اعتراض کیوں؟؟؟
تحریر: بشیر اے شیخ
ملک میں موجودہ حکومت وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کی قیادت میں قائم ہے اور پاکستان پیپلزپارٹی وفاقی کابینہ میں شمولیت سے گریزاں ہے جبکہ دیگر حکومتی اتحاد میں شامل پارٹیوں کے نمائندے وفاقی کابینہ میں شریک ہیں، اسی طرح خیبر پختونخوا اور پنجاب میں گورنرز پاکستان پیپلزپارٹی کے نمائندے ہیں جبکہ سندھ میں متحدہ قومی موومنٹ کے نمائندے کو گورنر شپ کا عہدہ دیا گیا ، اس وقت صرف بلوچستان میں پاکستان مسلم لیگ کے نمائندے کو گورنر شپ کے عہدے پر فائز کیا گیا ہے جہاں تک ملک میں صوبائی حکومتوں کا تعلق ہے تو پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ، خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف جبکہ سندھ اور بلوچستان میں پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومتیں قائم ہیں اور یوں وزیراعظم شہباز شریف کی پارٹی پاکستان مسلم لیگ کے پاس پنجاب میں صوبائی حکومت اور بلوچستان میں گورنر شپ کا عہدہ حاصل ہے۔
اگر ہم وفاقی حکومت پر ایک نظر دوڑا ئیں تو یہ واضح ہو جائے گا کہ حکومتی اتحاد میں شامل پیپلزپارٹی کے علاوہ دیگر تمام پارٹیوں کے نمائندے وفاقی حکومت میں شریک ہیں اور حکومتی امور و دیگر فیصلوں میں برابر شریک رہتے ہیں، علاوہ ازیں وزیراعظم شہباز شریف اور انکے قریبی ساتھی آئے روز پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ ملاقاتیں کرتے ہیں اور حکومتی فیصلوں اور دیگر امور پر تبادلہ خیال کرتے ہیں اور انہیں اعتماد میں لیتے ہیں۔
اسی طرح وزیراعظم شہباز شریف اور انکے قریبی ساتھی صدر پاکستان آصف علی زرداری سے بھی ملاقاتیں کرتے دکھائی دیتے ہیں اور انکی مشاورت سے ملکی امور کو چلاتے ہیں جہاں تک پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے حکومت کی کینال پالیسی پر اعتراض کا تعلق ہے ،اس سلسلہ میں ممکن ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کا اعتراض درست ہو اور اس کو نظرانداز کرنا مناسب نہیں اور اس سلسلے میں وزیراعظم کو چاہیے کہ وہ کوئی لمحہ ضائع کئے بغیر بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات کریں اور ان کے اعتراض اور خدشات کو دور کریں کیونکہ اس میں تاخیر نہ صرف ملک و قوم کے لئے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے بلکہ حکومتی اتحاد میں دراڑیں بھی پڑ سکتی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ حکومتی مخالفین کے لیے حکومتی کارکردگی کے خلاف بیان بازی کے مواقع فراہم کرے گا تاہم حکومتی کینال پالیسی پر نظر دوڑائی جائے اور اس منظر کشی کی جائے تو یہ واضح ہو جائے گا ،
جس روز وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے سندھ کینال سے ایک نہر نکالنے کا افتتاح کیا تھا تو اس تقریب میں پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور بلوچستان کے وزیر اعلی سرفراز بگٹی نہ صرف شریک تھے بلکہ انہوں نے وزیراعظم شہباز شریف کا شکریہ ادا کیا اور واضح کیا کہ اس سے بلوچستان کا بہت بڑا مسئلہ حل ہو گیا ہے اور اس سے بلوچستان میں ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔
اس سلسلےمیں پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو چاہیے کہ وہ اپنی پارٹی کے رہنما اور بلوچستان کے وزیر اعلی سرفراز بگٹی سے باز پرس کریں اور اس کے بعد حکومت کی کینال پالیسی پر اعتراض کریں تو مناسب ہوگا تاہم بلوچستان کے وزیر اعلی سرفراز بگٹی کو بھی چاہیے کہ وہ کسی تاخیر کے بغیر اپنی پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات کریں اور کینال پالیسی پر انکے اعتراض اور خدشات کو دور کریں جبکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیر اعلی بلوچستان کو چاہیے تھا کہ وہ کینال سے نہر نکالنے سے قبل بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات کرتے اور اپنے منصوبے پر انہیں اعتماد میں لیتے اور اگر ایسا کرتے تو آج بلاول بھٹو زرداری کو اس مسئلے پر اپنی انرجی ضائع نہ کرنی پڑتی اور اپنی قیمتی انرجی ملک کے کسی دوسرے اہم امور پر صرف کرتے۔
۔
نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔