پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات میں مضبوطی: ایک نئی امید
تحریر : برہان الاسلام (سابق سفیر)
بنگلہ دیش نے جولائی-اگست 2024 میں "مون سون انقلاب" کے نتیجے میں اپنی دوسری آزادی حاصل کی۔ اس انقلاب میں بنگلہ دیش کے نوجوانوں نے تقریباً دو ہزار جانوں کا نذرانہ دے کر کامیابی حاصل کی۔ اس کامیابی کے بعد شیخ حسینہ کی 16 سالہ حکمرانی کا خاتمہ ہوا، جس کے دوران وہ بھارت کی حمایت پر انحصار کرتی رہیں اور اپنے مخالفین پر ظلم و جبر کا سہارا لیا۔ شیخ حسینہ کے دورِ حکومت میں کرپشن بھی عروج پر رہی، اور بھارت نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بنگلہ دیش کو اپنی کلائنٹ اسٹیٹ بنا لیا، جو خودمختار فیصلے کرنے کے قابل نہ تھی۔
شیخ حسینہ کے زوال اور بھارت کی غیرمعمولی پسپائی نے بنگلہ دیش کو آزادی کی نئی روح دی، لیکن بھارت اس ہزیمت کو ہضم نہیں کر پایا۔ بھارتی حکومت نے بنگلہ دیش کو غیر مستحکم کرنے کے لیے مختلف سازشوں پر کام شروع کر دیا، جن میں اقلیتی مسائل کو ہوا دینا اور فرقہ وارانہ فسادات کو بڑھاوا دینا شامل ہیں۔ حال ہی میں بھارت میں بنگلہ دیشی قونصل خانوں پر حملے بھی کیے گئے ہیں، جنہیں بھارتی حکومت کی حمایت حاصل ہونے کا شبہ ہے۔
بھارت کے سابقہ اثر و رسوخ اور شیخ حسینہ کے بھارت پر انحصار کے خلاف بنگلہ دیشی عوام کا ردعمل، خاص طور پر نوجوانوں کا کردار، قابل ستائش ہے۔ بنگلہ دیش اب بھارت کے تابع رہنے سے انکار کر رہا ہے، جس کے باعث بھارتی میڈیا اور تجزیہ کار بنگلہ دیش کے خلاف پروپیگنڈا کرنے میں مصروف ہیں۔ بنگلہ دیش کی جغرافیائی حیثیت، جسے تین اطراف سے بھارت نے گھیر رکھا ہے، اسے بھارت کے کسی بھی ممکنہ حملے کا نشانہ بنا سکتی ہے۔
اس صورتحال میں بنگلہ دیش کے لیے ضروری ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کرے تاکہ اختلافات کم کیے جا سکیں۔ اس کے ساتھ ہی، بنگلہ دیش کو اپنے دیگر پڑوسی ممالک، جیسے پاکستان، نیپال، سری لنکا، افغانستان، مالدیپ اور بھوٹان کے ساتھ تعلقات مضبوط بنانے ہوں گے۔
بنگلہ دیش کے کئی اسکالرز اور تجزیہ کار پاکستان کے ساتھ خصوصی تعلقات استوار کرنے کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں، باوجود اس کے کہ 1971 کے تلخ تجربات ان کے ذہنوں میں موجود ہیں۔ کچھ حلقے تجویز دے رہے ہیں کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان "کنفیڈریشنل انتظام" کا قیام ایک مؤثر حل ہو سکتا ہے، جیسا کہ 1940 کی قراردادِ لاہور اور شیخ مجیب الرحمن کے چھ نکات میں تصور کیا گیا تھا۔
یہ تجویز نہ صرف بنگلہ دیش کی خودمختاری اور جغرافیائی سالمیت کو یقینی بنا سکتی ہے بلکہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات کو بھی مزید مضبوط بنا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ، یہ 25 کروڑ بھارتی مسلمانوں کے لیے بھی خوشی کا سبب بن سکتی ہے۔
اس تجویز پر پاکستان اور بنگلہ دیش کی حکومتوں کے درمیان تفصیلی گفتگو کی ضرورت ہے، جبکہ دانشوروں اور ماہرین کو بھی اس پر غور کرنا چاہیے۔ اگر یہ تجویز دونوں ممالک کے لیے قابل قبول ہو، تو عوامی رائے کے لیے دونوں ممالک میں ریفرنڈم بھی کیا جا سکتا ہے۔
نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں