ہماری حویلی میں ہزار مسلمان اکٹھے ہو گئے تھے، جس کو جیسے جیسے موقع ملتا رہا پاکستان جاتے رہے، ہمیں بھی پیغام ملا کہ نکل جاؤ ورنہ مارے جاؤ گے

ہماری حویلی میں ہزار مسلمان اکٹھے ہو گئے تھے، جس کو جیسے جیسے موقع ملتا رہا ...
ہماری حویلی میں ہزار مسلمان اکٹھے ہو گئے تھے، جس کو جیسے جیسے موقع ملتا رہا پاکستان جاتے رہے، ہمیں بھی پیغام ملا کہ نکل جاؤ ورنہ مارے جاؤ گے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:16
ایک دن ہم نہر پر حسب معمو ل جانے لگے تو ہمارے ایک ہندو دوست نے بتایا؛ ”آج نہانے مت جانا تمھارے قتل کا منصوبہ ہے۔“ ہم تو نہ گئے لیکن اس روز 4مسلمان راہ گیران کے ہتھے چڑھ گئے تھے۔ ہماری حویلی میں کوئی ہزار مسلمان اکٹھے ہو گئے تھے۔ جگہ بھی بہت تھی۔ دال ساگ مل جاتا تھا۔پھر جس کو جیسے جیسے موقع ملتا رہا گروپس کی شکل میں یہاں سے نکلتے اور پاکستان جاتے رہے۔ ایک روز ہمیں بھی پیغام ملا کہ شام تک سجان پور سے نکل جاؤ ورنہ مارے جاؤ گے۔تمھارے والد اور خاندان کے دوسرے لوگ صبح کے وقت تمھارے دادا کے دوست کی وساطت سے نکل گئے اور یہ چند روز والٹن کیمپ میں رہے تھے جبکہ ہم(میرے بڑے بھائی، والدہ، دو چھوٹی بہنیں، چھوٹا بھائی اور میں) شام کو پیدل نکلے اور مولانا مودودی کے گھر پناہ گزین ہوئے۔ دو تین دن وہیں رکے رہے۔تین دن بعد مولانا کی کتابیں ٹرکوں میں لاہور بھجوائی جانی تھیں۔ ان ٹرکوں کی حفاظت کا بندوبست بھی تھا۔ ہم بھی کتابوں کی بوریوں پر بیٹھے اور لاہور روانہ ہو گئے جہاں ہمارے کچھ عزیز تھے۔ راستے کے دلخراش منظر آج تک نہیں بھولا ہوں۔“
مجھے ابا جی بتایا کرتے تھے؛”بیٹا! ہجرت کا یہ سفر بڑا دلخراش تھا۔راستے کے منظر بھلائے نہ جا سکتے تھے۔ قافلہ چل رہا ہوتا تھا۔ گھڑ سوار سکھوں کا جتھہ آ تا ہاتھ میں کر پانیں ہوتی تھیں۔ جس لڑکی، عورت کو چاہتے اٹھا لیتے اگر کوئی مرد مزاحمت کی کوشش کرتا کرپان کا نشانہ بن جاتا تھا۔ لاش سڑک پر تڑ پتی رہ جاتی اور قافلہ چلتا رہتا تھا۔ رکتا نہیں تھا۔ دل تڑ پ کے رہ جاتا تھا۔ قافلے والوں کی فریاد سننے والا بھی کوئی نہ تھا۔ میں اس بے بسی کو بیان کرنے سے قاصر ہوں۔ ظلم اور بربریت ہم نے آ نکھوں سے دیکھی تھی۔ میں ساری عمر بر بریت کے ان مناظر کو آنکھ سے اوجھل نہ کر سکا۔“ 
والٹن کیمپ میں؛
انکل شاہ نے بھی کچھ ایسی ہی کہانی بیان کرتے کہا؛ زیادہ تر لوگ پیدل ہی ہجرت کرکے سرحد سے اس پار پہنچے تھے۔ جو سامان اٹھا سکتے تھے۔سر پر گٹھٹریوں میں اٹھایا، ٹرنکوں میں بھرا۔ راستے میں کٹتے بھی رہے اور چلتے بھی رہے۔ راستے کے مناظر ایک سے ایک بھیانک تھے بیٹا۔“ انکل اپنے بہن بھائیوں کے ہمراہ یکم ستمبر1947ء کو لاہور پہنچے تھے۔
میرے والد اور ان کا خاندان کئی دن والٹن کیمپ میں رہا، پھر فیصل آباد اور جھنگ جا کے آباد ہوئے۔ابا جی والٹن کیمپ کے بارے بتاتے تھے؛”یہاں ہندوستانی پنجاب کے مختلف علاقوں سے آئے لاکھوں پناہ گزین کیمپوں میں رہتے تھے۔ جیسے جیسے ان کے رشتہ داروں کو ان کی آمد کا پتہ چلتا وہ انہیں ساتھ لے جاتے۔ یوں یہ لوگ پنجاب کے مختلف شہروں میں آباد ہونے لگے۔میرے خاندان کے بھی کچھ لوگ چند دن یہاں رہے اور جھنگ جا کر آباد ہوئے۔ مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے ممبران کی یہاں ڈیوٹی تھی جو مہاجرین کا خیال رکھتے تھے۔ ان ممبران نے ناقابل فراموش خدمات انجام دیں۔ وہ بے لوث ان مہاجرین کی خدمت میں جت گئے اور انہوں نے اپنی بساط سے بڑھ کر ان لوگوں کا خیال کیا۔ قائد اعظم بھی یہاں ایک بار یہاں آئے تھے، مہاجرین کی حالت دیکھ کر اور ہجرت کی کہانیاں سن کر آبدیدہ ہو گئے تھے۔“
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -