’’ہمسائے کیا سوچیں گے“ اس فقرے کے ذریعے والدین آپ کو شرمندگی اور ندامت میں مبتلا کرتے ہیں اور آپ اپنے متعلق کچھ بھی نہیں سوچ سکتے

’’ہمسائے کیا سوچیں گے“ اس فقرے کے ذریعے والدین آپ کو شرمندگی اور ندامت میں ...
’’ہمسائے کیا سوچیں گے“ اس فقرے کے ذریعے والدین آپ کو شرمندگی اور ندامت میں مبتلا کرتے ہیں اور آپ اپنے متعلق کچھ بھی نہیں سوچ سکتے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:ڈاکٹر وائن ڈبلیو ڈائر 
ترجمہ:ریاض محمود انجم
 قسط:76
”تم نے ہمیں بے عزت کر دیا۔“ یہ ایک اور مؤثر اور اہم فقرہ ہے جس کے باعث آپ شرمندگی و ندامت کا شکار ہو جاتے ہیں پھر ایک اور فقرہ ”ہمسائے کیا سوچیں گے۔“ اس فقرے کے ذریعے والدین بیرونی عوامل کے ذریعے آپ کو شرمندگی اور ندامت میں مبتلا کرتے ہیں اور آپ اپنے متعلق کچھ بھی نہیں سوچ سکتے۔ اس کے علاوہ والدین کا یہ رویہ ”اگر تم امتحان میں ناکام ہو ئے تو خاندان میں ہماری ناک کٹ جائے گی“ آپ کی صلاحیتوں اور استعدادوں پر اس قدر گراں گزرتا ہے کہ آپ تعلیمی لحاظ سے پہلے سے بھی زیادہ کمزور ہو جاتے ہیں۔
والدین اپنی بیماری کو بھی آپ کو شرمندگی و ندامت میں مبتلا رکھنے کے لیے بطور محرک استعمال کرتے ہیں ”تم نے میرا فشار خون زیادہ کر دیا ہے“ یا ”تم مجھے مار دینا چاہتے ہو!“، ”تمہاری وجہ سے مجھ پر حملہ قلب ہوا۔“ اس کے علاوہ تمام عمومی امراض کا وہ آپ کو ہی ذمہ دار ٹھہراتے ہیں حالانکہ بعض امراض انہیں پیدائشی طو رپر لاحق ہوتے ہیں یابڑھتی عمر کا تقاضا ہوتے ہیں۔ چونکہ اس قسم کی ندامت وشرمندگی تمام عمر آپ کے ساتھ رہتی ہے۔ ا س لیے اس ندامت و شرمندگی کا بوجھ اٹھانے کے لیے آپ کے کاندھے بھی مضبوط اور بڑے ہونے چاہئیں اور اگر آپ کے کاندھے بڑے اور مضبوط نہیں ہیں تو پھر آپ کی یہ شرمندگی اور ندامت آپ کے والدین کی وفات تک جاری رہتی ہے۔
جنسی معاملات یا رومانی تعلقات کے ضمن میں بھی والدین کی طرف سے آپ کو شرمندگی وندامت کے احساس میں مبتلا رہنے کا عمل ایک بہت ہی عمومی اور روایتی رویہ اور طرزعمل ہے۔ ”خدا تمہیں معاف کرے تم اس قدر غلیظ رسالے پڑھتے ہو!“ ”تمہیں اس طرح کے خیالات نہیں رکھنے چاہیے“ یا ”خدا کا خوف کرو، کیا وہ لڑکی محبت کے قابل ہے۔“
مزیدبرآں معاشرتی تعلقات کے حوالے سے بھی آپ کو ہر موڑ پر احساس شرمندگی اور ندامت میں مبتلا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ”دادی اماں کے سامنے تم نے بہتی ناک کو بازو سے صاف کر کے مجھے میری نظروں میں ہی گرا دیا ہے۔“ یا ”تمہیں شرم آنی چاہیے تم نے ماموں کا شکریہ تک ادا نہیں کیا حالانکہ انہوں نے تمہیں کس قدر خوبصورت تحفہ دیا۔“ یا ”میں تمہیں ہر تمیز تو نہیں سکھا سکتی تم خود دیکھ سکتے ہو کہ کون سی چیز غلط ہے اورکون سی درست ہے۔“ ایک بچے میں اس قدر صلاحیت وموجود ہوتی ہے کہ وہ احساس شرمندگی اورندامت کا شکار ہوئے بغیر معاشرتی تعلق داری قائم کر سکے لیکن اس کی یہ کوشش ناکام بنا رہ جاتی ہے اور اسے ہر قدم پر شرمندگی اور ندامت کے احساس تلے مغلوب کرنے کی سعی کی جاتی ہے۔ اس ضمن میں والدین کی طرف سے ایک ایسا رویہ اورطرزعمل جس سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہو کہ بچے کا رویہ اور طرزعمل کیوں ناپسندیدہ ہے، بہت ہی پراثر اور زبردست ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ٹونی کو یہ بتایا جاتا ہے کہ اس کے شوروغل کے باعث گفتگو میں خلل واقع ہو رہا ہے تو پھر اس طرح اس کے ذہن و دل میں ندامت اور شرمندگی کے بیج بو دیئے جاتے ہیں حالانکہ اس وقت ٹونی احساس شرمندگی اور ندامت سے بالکل ناواقف ہوتا ہے اور پھر اسے اس قسم کے بیانات سننے پڑتے ہیں: ”تمہیں شرم آنی چاہیے تم ہمیشہ شور کرتے رہتے ہو جس کے باعث ہماری گفتگو میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔“ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -