بھائی جان عید مبارک بعد میں قبول کر لینا وہ کونسا بکرے دنبے یا چھترے بیل اونٹ کے ساتھ ذبح ہو جائے گی۔جب تک یہ گوشت آپکے فریزیز میں محفوظ رہے گا عید مبارک بھی زندہ رہے گا ہاں اس سے پہلے ایک ایک چتاونی دینی ہے اور وہ بھی ارجنٹ بنیادوں پر بعد میں نہ کہنا کہ سو سالہ سنیاسی باوا نے آگاہ نہیں کیا۔ اس لئے سواری اپنے سامان کی پیشگی حفاظت کرے تو بہتر ہے۔ یہ چتاؤنی عرف گواچے بارے سوچنا اس بار کلبلاتے 22کروڑ کیلئے نہیں بلکہ محلوں حویلیوں اور محفوظ مچانوں پر بیٹھے امراء کیلئے ہے۔ مشورہ ہے اور مفت ہے، سری لنکا سے عبرت حاصل کریں بھو کے عوام نے صدارتی محل پر قبضہ کر لیا ہے اور سری لنکن صدر گوتا بابا راجا اپنی دولت”ولیٹ“ کے غوطہ خور ہو چکے ہیں۔ عقل مند کو اشارہ کافی ہوتاہے ایویں آپ کے بھی سری لنکا کی طرح کن تھلے وجے۔ جب یہ بھوکے غصے میں آتے ہیں تو یاد رکھیں کہ ایسا باندا کلا کھیلتے ہیں کہ لے رب دا ناں، اب بھی وقت ہے اقتدار چھوڑ دو،ان کی جان چھوڑ دو یا انہیں جینے کا کوئی رستہ دے دو۔ بھائی اب صرف ”سْکّے تے مل مایا“ سے کام نہیں چلے گا۔ آپ حبیب جالب کے انقلابی شعر بھی سنائیں منجھی تھلے ڈانگ سوٹا بھی پھیریں لیکن اینا کھسیا بھی ڈھیلا کریں۔ یہ جو آپ نے اپنی ماضی کے جانی دشمنوں سے مل کر چیچو چیچ گنڈریاں دو تیریاں دو میریاں شروع کیں ہیں اسے بند کر دیں ورنہ محل آپ کے بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔ بھوکا مرنا ہے تو اب کی بار سب کو مرنا ہو گا۔ ایسا نہیں کہ میرے بچے قربانی کے جانوروں کو دور سے تاڑتے رہیں اور جانور 'دوروں دوروں اکھیاں مارے منڈا بھکے صحافی دا' گاتے رہیں۔ وڈی جمہوریت ویکھ لو آپ کے بچے دیار غیر میں کیکلی کلیر دی پگ میرے ویر دی دوپٹا میرے بھائی دا گائیں اور ہمارے بچے بھوک سے مرتے فٹے منہ جوائی دا کہتے پھریں۔ بلا لیں انہیں بھی ادھر اس دھرتی پر پھر مل کر انقلاب انقلاب کھیلیں گے۔ سنتا سنگھ بیکری گیا۔آگے کھڑی خاتون نے کاؤنٹر بوائے سے اشارہ کر کے پوچھا تو وہ بولا میم صاحب یہ بلیک فارسٹ ہے یہ ہنی آلمنڈہے اور یہ ریڈ ویلوٹ پیسٹری ہے سنتا نے بھی اپنی باری پر شوکیس کی طرف اشارہ کیا تو سیلز مین بولا اپنی اوقات میں رہ 50والی پیسٹری لینی اے یا 100روپے والی۔تمہارے بچے ہنی آلمنڈ ریڈ ویلوٹ کے مزے لیں اور ہمارے بچوں کو'پجاں سو' تے لایا ہویا اے،بھائی جان سری لنکن بھوکوں نے محل کا تیلا نہیں چھوڑا بتائے دیتا ہوں تمہارا بھی ککھ بھی نہیں چھوڑیں گے اس لئے جاگدے رہنا تے میرے تے نہ رہنا۔
ہمارے مفتاح بھائی سیاست کے جانی لیور (میں نے بھارت کے مزاحیہ اداکار کی بات کی ہے اللہ والیو تہاڈا دھیان کیتھے چلا جاندا ہے) ہیں ایسی مزاحیہ بات کرتے ہیں کہ غربت، بھوک اور بیروزگاری سے روتے عوام بھی ہنس پڑیں، اتنے مخولیے ہیں کہ شہید عوام سے بھی مخیولیاں کرتے ہیں اب تازہ فرمان جاری کیا ہے کہ پٹرول کی قیمتیں عالمی منڈی میں کم ہوئی ہیں لیکن اس کا فائدہ عوام کو مناسب وقت پر دیں گے گویا مہنگائی کا بم عوام کے ناگا ساکا اور ہیرو شیما پر کسی بھی وقت گرا دیں بس فائدے کے لئے مناسب وقت کا انتظار کرنا ہے یعنی عوام کو وعدوں کے نہر والے پل پر بلا کر ماہی آپ نیواں نیواں ہو کے کیتھے اور نکل جاندا اے۔ ہم بیچارے کر بھی کیا سکتے ہیں جتنا مرضی ہمارا شغل لگا لو،بنتا جی سے کسی نے پوچھا حج پر شیطان کو کنکریاں ماریں وہ بولا یا رش بہت تھا وٹے نہیں مار سکا پر میں اوہنوں گالاں بڑیاں کڈیاں۔ بھیا میرے لیڈر ہم تو غلام در غلام قوم ہیں، بھوکے مر جائیں گے وٹے ماریں گے اور نہ گالاں کنڈیں گے۔ لیکن فیر وی پتہ نہیں کب ہمارا میٹر گھوم جائے لہٰذا بچ موڑ توں۔
ارے میرے کپتان فیر اسی نہ ای سمجھئے اہل وفا کے نام پر ہم بھی قطار پر کھڑے تھے آپ کی نظریں عمران ریاض، سمیع ابراہیم، ایاز میر، عارف بھٹی، ارشد شریف پر ہی پڑیں مائی لوو بے شک یہ آپ کے سرخیل گھوڑے ہیں لیکن کپتان جی ہم جیسے سینکڑوں ٹٹو بھی آپ کے ایبسلوٹلی ناٹ پر دم ہلاتے ہیں کسی دن ایویں جب آپ فری ہوں تو کم از کم فواد چوہدری کو بلا کر گلاں گلاں وچ پوچھئے گا کہ کون کون سا صحافی اور اینکر آپ کے پاس آنے کے بعد صاحب جائیداد ہوا اور کون کون سا صحافی خاموشی سے اپنے پلے کی رقم بھی گنواں بیٹھا ہے۔میں عمران ریاض سے لے کر ارشد شریف تک سب کے دل سے عزت کرتا ہوں کیونکہ وہ جابر حکمران کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کلمہ حق کہتے ہیں اور اس کی قیمت بھی چکاتے ہیں لیکن سینکڑوں صحافی ایسے بھی ہیں جو آپ کے بیانیے کی محبت میں خاموشی سے سزا بھگت رہے ہیں اپنی نوکریاں گنوا رہے ہیں۔فواد صاحب آپ تو خود پونے صحافی ہیں کبھی خان صاحب خوشگوار موڈ میں ہوں تو انہیں ضرور بتایئے گا کہ سینکڑوں صحافی کپتان سے آنکھ لڑی بدو بدی کے چکر میں اپنی نوکریاں، تنخواہیں اور کھیسے کٹوا چکے۔بے شک عمران خان اوچیاں شاناں اور صحافت کے حوالے سے تھوڑے سے پوٹھیان دھیاناں والے ہیں لیکن پھر بھی کدے وقت کڈ کے کپتان سے درخواست کیجیے گا کہ وہ کبھی نیویں تھاں بھی نظر مار لیا کریں اور بھی بہت ہیں جو دھمکیاں تڑیاں جھیل رہے ہیں اور دانتوں میں انگلی رکھ کر اشارے کر رہے ہیں کہ مجبور ہیں اف اللہ کچھ کہہ بھی نہیں سکتے۔کبھی کپتان انہیں بھی بلائیں جو تاریک راہوں میں مارے جا رہے ہیں اور ان سے پوچھیں بسنتی تمہارا نام کیا ہے۔