قطب الدین ایبک کی تاجپوشی کو پانچ سال گزرے تھے کہ ۶۰۷ھ مطابق ۱۲۱۰ء میں اسی شہر میں ایک روز چوگان کھیلتے ہوئے گھوڑے سے گر کر اس کا انتقال ہوگیا اور بالاخر یہی شہر اس کا مدفن بنا(طبقات ناصری و تاجر المآثر) تاریخ کے یہ دو واقعات (تاجپوشی و وفات) اور ایک ’’اثر قدیم‘‘ (ایبک کا مقبرہ جو سلطان شمس الدین التمش نے تعمیر کرایا تھا(تاریخ مبارک شاہی) پر لاہور (پنجاب) کی شہرت کی بنیاد استوار ہوئی ہے۔
ان واقعات و اثر کو نظر انداز کرکے لاہور(پنجاب) کی شہرت کو دیکھا جائے تو اس کے پونے دو سو سال بعد محمد تغلق( ۱۳۵۱ء) اور فیروز تغلق ( ۱۳۸۸ء) کے عہد تک کی اس کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ پروفیسر محمد شجاع الدین لکھتے ہیں:
’’مشہور سیاح ابن بطوطہ ۔۔۔۱۳۳۴ء میں دہلی پہنچا۔ اس نے ہندوستان کے اکثر شہروں کی سیر کی ۔وہ پنجاب میں بھی آیا لیکن اس نے اپنے سفرنامہ میں نہ لاہور کا ذکر کیا نہ وہ اس شہر کو دیکھنے آیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ا س وقت لاہور ایک معمولی قصبہ تھا اور اسے کوئی شہرت حاصل نہ تھی۔ محمد تغلق اور فیروز تغلق کے زمانے میں بھی لاہور کو کوئی اہمیت حاصل نہ تھی۔‘‘ (نقوش لاہور لاہور نمبر ص ۴۲)
عبدالقادر بدایونی لکھتے ہیں:
’’غوری عہد حکومت، جس نے دہلی کو اپنا پایہ تخت بنایا اور ہندوستان میں مستقل اسلامی حکومت قائم کی۔ سلطان شہاب الدین غوری نے اس کی بنا رکھی۔۔۔نواحی لاہور کے کھوکھروں نے سر اٹھا رکھا تھا۔ شہاب الدین نے ان پر چڑھائی کر دی اور مدد کے لیے قطب الدین ایبک کو دہلی سے بلوا بھیجا۔ دونوں نے مل کرکھوکھروں کی خوب گوشمالی کی۔ اس کے بعد سلطان غزنی کی طرف لوٹ گیا راستہ میں ابھی غزنی کے ایک مقام دمیک تک پہنچا تھا کہ ایک فدائی کھوکھر نے موقع پر کر اسے شہید کر دیا۔ سلطان شہاب الدین غوری کی شہادت کے بعد اس کے برادر زادہ محمود نے فیروز کوہ سے چتر اور خلعت بادشاہی دونوں چیزیں ملک قطب الدین کو بھیجیں اور سلطان کے نام سے مخاطب کیا۔
مصنف مفتاح التواریخ لکھتا ہے:
’’شہاب الدین محمد غوری کی وفات ہوئی تو اس کا بھتیجا غیاث الدین محمود غور کا بادشاہ ہوا اور اس نے قطب الدین کو تاج و تخت کے فرمان اور دیگر چیزیں ارسال کرکے خطاب شاہی عطا فرمایا چنانچہ قطب الدین لاہور میں تخت شاہی پر بیٹھا اور ہندوستان کا بادشاہ ہوا اور کامیاب حکومت کی۔ ۶۰۷ھ میں وہ گھوڑے سے گر کر فوت ہوا۔ اس کی قبر لاہور میں ایبک روڈ پر واقع ہے اس کے بعد اس کا لڑکا آرام شاہ بادشاہ ہندوستان ہوا۔
گندھارا کی سلطنت اور ہندو
۱۸۰ ق م کے قریب وسط ایشیاء (ملک تاتار و خطا) کی ایک بدوی قوم یہیوچی ملک خطا سے نقل مکانی کرتی ہوئی ترکستان اور افغانستان کی چراگاہوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئی کیوں کہ اس وسیع خطے کی ایک اور بدوی قوم ہی انگ نوجو بعد میں ہن کہلائی۔ اس سر زمین میں طاقت پکڑنے لگی تھی۔ یہیوچی قوم کے ایک سردار کاوفس اول نے ۴۰ء میں شاہی اقتدار حاصل کرکے پشاور میں کشن خاندان کی بنیاد رکھی۔ اور پنجاب اور افغانستان کے ملکوں ک اپنے زیر نگیں کر لیا۔ اس کے ایک جانشین کاوفس دوم نے ۸۵ء مٰن اپنی سلطنت کو مشرق کی طرف بنارس تک وسعت دی اور جنوب کی طرف سیستان، بلوچستان، سندھ، راجپوتانہ، کاٹھیا واڑ کو سر کرکے ہندوستان میں ایران کے پارتھیوں کے اقتدار کا خاتمہ کیا۔ اسی خاندان کے ایک اور بادشاہ کنشک نے شمال مشرق میں چینی ترکستان کو اور شمال مغرب میں خراسان کے ملک کو بحیرہ خزر تک سرک یا اور کوشن خاندان کے اقتدار کو بہار سے لے کر بحیرۂ خزر تک اور چینی ترکستان سے لے کر کاٹھیا واڑ تک وسعت دی۔ کنشک اعظم بہت بڑی شان و شوکت رکھنے والا بادشاہ تھا۔ اشوک اعظم کی طرح یہ بادشاہ بھی بدھ مت کا پرجوش پیرو اور مبلغ ہو کر گزرا ہے۔ اس بادشاہ نے دو آبہ جالندھر میں بدھ مت کے پیروؤں کی ایک بہت بڑی کونسل منعقد کی۔ اس وقت تک بدھ مت کے پیروؤں میں بدھ کی مورتی کی پوجا کا رواج بہت زور پکڑ گیا تھا۔ لہٰذا کنشک کے عہد میں سنگ تراشی کے فن کو بہت فروغ حاصل ہوا۔ جا بجا بدھ کے مجسمے تراش کر نصب کئے گئے۔ پتھر کے علاوہ سونے اور چاندی کے بڑے بڑے مجسمے بھی بنائے جاتے تھے۔ کوشن خاندان کے بادشاہوں اور خاص کر کنشک کے عہد کے بنے ہوئے بہت سے آثار اس وسیع سلطنت کے مختلف حصوں سے برآمد ہوئے ہیں۔
بامیان افغانستان کی کھدائی سے بدھ کا ایک مجسمہ ملا ہے جس کی اونچائی ساٹھ فٹ ہے اس کے علاوہ کشن خاندان کے بادشاہوں کے بہت سے سکے بھی ملے ہیں جو دنیا کے عجائب گھروں کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ کنشک اعظم کا عہد حکمرانی ۱۲۵ء سے ۱۵۳ء تک تھا۔ دوسری صدی مسیحی میں وسط ایشیا سے ہنوں کی ایک اور بدوی قوم کا ریلا اٹھا جس نے۲۲۶ء میں نہ صرف یہیوچیوں کی گندھارا سلطنت کا خاتمہ کر دیا بلکہ جنوبی ہند کی اندھرا سلطنت اور جنوب مغربی ہند میں ایران کے پارتھیوں کی سلطنت کو بھی پامال کر ڈالا۔ اس قوم کا نام ساکا تھا۔
(جاری ہے، ،پٹھان قوم کی چونکا دینے والی تاریخ ۔۔۔ پچاسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)
پٹھانوں کی تاریخ پر لکھی گئی کتب میں سے ’’تذکرہ‘‘ ایک منفرد اور جامع مگر سادہ زبان میں مکمل تحقیق کا درجہ رکھتی ہے۔خان روشن خان نے اسکا پہلا ایڈیشن 1980 میں شائع کیا تھا۔یہ کتاب بعد ازاں پٹھانوں میں بے حد مقبول ہوئی جس سے معلوم ہوا کہ پٹھان بنی اسرائیل سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے آباو اجداد اسلام پسند تھے ۔ان کی تحقیق کے مطابق امہات المومنین میں سے حضرت صفیہؓ بھی پٹھان قوم سے تعلق رکھتی تھیں۔ یہودیت سے عیسایت اور پھر دین محمدیﷺ تک ایمان کاسفرکرنے والی اس شجاع ،حریت پسند اور حق گو قوم نے صدیوں تک اپنی شناخت پر آنچ نہیں آنے دی ۔ پٹھانوں کی تاریخ و تمدن پر خان روشن خان کی تحقیقی کتاب تذکرہ کے چیدہ چیدہ ابواب ڈیلی پاکستان آن لائن میں شائع کئے جارہے ہیں تاکہ نئی نسل اور اہل علم کو پٹھانوں کی اصلیت اور انکے مزاج کا ادراک ہوسکے۔