6مارچ1985ء کی رات بھولو پہلوان پر بہت بھاری تھی۔ٹانگ کٹ چکی تھی۔ رستم زماں بستر علالت پر رنجور تھا اور دم شکن مرحلوں سے گزر رہا تھا۔ صدمات کا بوجھ اتارنے کے لیے فرشتہ اجل پر پھیلائے کھڑا تھا۔ سارا خاندان آخری ملاقات کے لیے آچکا تھا۔ نوبج کر پینتیس منٹ پر بھولو پہلوان نے آخری بار سب کو دیکھا۔خون کے سب رشتوں کے چہرے دھندلا چکے تھے اور اب آنکھوں کے سامنے عزیز پہلوان،گاماں پہلوان اور امام بخش پہلوان بازو پھیلائے اس کا استقبال کرنے کے لیے بے چین تھے۔بھولو نے اپنے پرکھوں کے عقب میں گوگا کو بھی دیکھ لیا تھا۔ فرشتے نے جان کنی شروع کی تو بھولو پہلوان کے لب کلمہ پڑھنے لگے۔آخری دم وہ یہ کہہ رہاتھا۔
’’ابا جی میں اپنا فرض ادا کر چکا ہوں۔مجھے اپنے پاس بلالیں۔‘‘
وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر85 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اس کے ساتھ ہی رستم زماں کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔بھولو پہلوان کی رحلت سے شاہ زوری کا ایک جہاں اٹھ گیا۔ بھائی جو پہلے ہی صدمات سے نڈھال تھے یکے بعد دیگرے دوسرے جہاں سدھار گئے تھے۔پیچھے اب جھارا رہ گیا تھا۔ 10ستمبر1991ء کی رات نشے کی پڑیوں نے اسے بھی چت کر دیا۔ نون خاندان سے پہلوانی اب عملاً رخصت ہو گئی تھی۔ اب کوئی جھارا پہلوان تو تھا نہیں۔پیچھے جو رہ گئے تھے وہ اصیل بوٹی تو تھے مگر بزرگوں کی موت اور بعد میں حکومت کی بے توجہی نے ان کے دل اچاٹ کر دیئے۔
بھولو برادران میں سے حسو پہلوان ابھی حیات کافی عرصہ حیات رہے۔بھولو کی بیگم جو کلثوم نواز شریف کی سگی خالہ ہے، بیماریوں کے نرغے میں تھیں۔انکا بھی چند سال قبل انتقال ہوچکا ہے۔ ناصر بھولو جو فری سٹائل کشتی کے بعد فلموں کے میدان میں جلوہ گر ہوا تھا، اب مستقلاً نادیدہ قوتوں کے زیر اثر ہے۔ انجانی بیماریاں اس شاہ زور کی طاقت سلب کررہی ہیں۔ جواں سال ناصر بھولو کے ڈاکٹر حیران ہیں کہ لاکھ تشخیص کے باوجود معلوم نہیں ہو رہا کہ ناصر بھولو کو کون سی بیماری ہے جو نظر نہیں آرہی ہے۔عابد پہلوان برادر جھارا پہلوان ذاتی خرچے پر انٹرنیشنل کشتیاں لڑتا رہا ہے۔مگر عملاً اب سب لوگ پہلوانی سے کوسوں دور ہیں۔
ناصر بھولو سے راقم کا یارانہ ہے ۔وہ پہلوانی کی بربادی پر بڑے افسردہ رہتے ہیں ۔ایک دن کے ساتھ ایک طویل نشست ہوئی تو ان سے انکی کشتیوں کے بارے میں پوچھا گیا،خاندان کے بارے استفسار کیا گیا ۔وہ کہنے لگے کہ
یہ حقیقت ہے مگر بڑی تلخ گولی ہے۔لیکن اسے نگلنا آسان نہیں لہذا اُگل کراسکی حقیقت بیان کرنا بہت ضروری ہوچکاہے۔
میں اکثر بہت زیادہ رنجیدہ ہو جاتا ہوں۔ جب بھی ناقابل شکست رستم زمان عظیم گاماں پہلوان کی عالمی چیمپئن بیلٹ کو دیکھتا ہوں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔یہ اکھاڑوں میں ہماری اورقوم کی عظمت کی نشانی ہے جسے دیکھ کر آسرفخر سے بلند اور آنکھوں میں چمک پیداہوتی تھی ۔ہندوستانیوں نے کتنے جتن کئے تھے اس بیلٹ کو واپس لینے کیلئے ،کتنے ہی دیسی کشتیوں اور گاما پہلوان کے عقیدت مند سکھوں اور ہندووں نے چاہا کہ اس بیلٹ کی زیارت کرلیں اور اسے بھارت یا انگلینڈ لے جائیں مگر میں نے اسے بہت سنبھال کر سینے سے لگا رکھا ہے۔میں اس کی گرد صاف کرتا اور اسے چمکانے کی کوشش کرتا رہتاہوں مگرمیں اکیلا اب اس گرد آلود پہلوانی کو کیسے صاف کر سکتا ہوں جو دیسی کشتیوں کی عظمت کھو چکی ہے اور اس سیاہی کو کیسے دور کر سکتا ہوں جس نے ہمارے روشن ماضی کو ڈھانپ رکھا ہے۔
یہی بیلٹ جو عظیم گاماں، یعنی میرے نانا نے 1910ء میں چار سو گورے پہلوانوں کو پچھاڑ کر جیتی تھی اور اس وقت کالوں (ہندوستانیوں) کی عظمت سے گوروں کے دلوں پر ہیبت طاری کر دی تھی۔ یہ وہی بیلٹ جسے عظیم گاماں کو دیکھنے کی بھی اجازت نہیں تھی اور انہیں عالمی چیمپئن شپ میں محض ایک ہندوستانی ہونے کی وجہ سے نظر انداز کر دیا گیا تھا۔ مگر عظیم گاماں نے اسے پالیا،انہوں نے میدان نہیں چھوڑا تھا اور گورے پہلوانوں کو للکارتے ہوئے چار سو پہلوانوں کو چت کر دیا اور پھر عالمی مقابلہ میں زبسکو جیسے نامی گرامی پہلوان کو شکست فاش دیکر اس بیلٹ کے حقدار ٹھہرائے گئے تھے ۔ عظیم گاماں جب یہ بیلٹ لیکر ہندوستان آئے تو راجوں، مہاراجوں اور اپنے دور کے عظیم شاہ زوروں نے اس کے جشن منائے اور گاماں پہلوان کو سونے، چاندی سے لاد دیا گیا تھا۔ ایک عظیم پہلوان کے شایان شان خوشیاں منائی گئیں اور یہ روایت ایسی چل نکلی کہ گاماں پہلوان کو تو کوئی نہ پچھاڑ سکا اور نہ آج یہ ریکارڈ ٹوٹ سکا ہے مگر قیام پاکستان کے بیس سال بعد تک بھی برصغیر میں دیسی کشتی کو عروج حاصل رہا۔لٹے پٹے پاکستان میں دیسی کشتیوں کا میدان پاکستان کے ہاتھ آگیا تھااور ہندوستان میں گاماں پہلوان رستم زماں اورانکے بھائی یعنی میرے داداامام بخش پہلوان رستم ہندکی شاہ زوری کے سامنے کسی کا سکّہ نہیں چلتا تھا۔لیکن پھر کیا ہوا۔ دیسی کشتی آہستہ آہستہ پاکستان میں مر گئی۔ بلکہ اسے مار دیا گیا۔
یہ تلخ حقیقت قابل فہم ہونی چاہئے اور اس بات کو سمجھ لینا چاہئے کہ عظمتیں کیسے عبرت کا نشان بن جاتی ہیں۔ ابھی پچھلے سال جب جاپان کے لیجنڈ پہلوان انوکی پاکستان آیا۔ تو لاہور میں جاپانی پہلوانوں کے ساتھ نمائشی کشتیوں کا اہتمام کیا گیا۔ انوکی نے مجھے خاص طور پر یاد کیا تھا۔ یہ وہی انوکی ہے جس نے میرے چچا اکی پہلوان کو چت کیا تھا اور پھر جھارا پہلوان نے انوکی کو شکست دی تھی۔ اس دور میں انوکی پہلوان نے میرے والد بھولو پہلوان اور چچاؤں سے عرض کی تھی۔ ’’ناصر مجھے دے دو‘‘
اس دورمیں یعنی ستّر کی دہائی میں پاکستان کے اندر فری سٹائل کشتیوں میں اللہ نے مجھے بے پناہ عزت اور مقام عطا کر رکھا تھا اور پاکستان میں میری ریورس فلائنگ کک کا کوئی مقابل نہیں تھا۔ میرا یہ فن اور پھرتی دیکھ کر انوکی عش عش کر اٹھا تھا۔ برسوں بعد وہ پاکستان آیا تو اس نے مجھے یاد رکھا۔ حالانکہ میرے اپنے ملک میں اب ہمارے فن و عظمت کی قدر نہیں رہی تھی۔ مجھے انوکی سے ملاقات کا خیال تھا ورنہ میں کبھی ان لوگوں کے بلاوے پر نہ جاتا جو اپنے عظیم ہیرو کی نشان کی اہمیت کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے تھے۔
کہہ لیجئے کہ میں غلطی پر تھا۔
میں اپنے ساتھ عظیم گاماں پہلوان کی عالمی چیمپئن بیلٹ لے گیا تھا۔
انوکی نے بیلٹ دیکھی تو اس کی آنکھیں چمک اٹھیں ’’یہ کس کی بیلٹ ہے‘‘ میں نے بتایا تو بولا ’’ہاں یہ عظیم گاماں کو ہی سجتی تھی۔ ان جیسا پھر کوئی پیدا نہیں ہوا اور نہ ان کا ریکارڈ ٹوٹ سکا ہے۔ پاکستانی قوم کو عظیم گاماں کی بیلٹ پر فخر کرنا چاہئے‘‘۔ فخر۔ یہ لفظ تو زندہ قوموں کیلئے حیات اور ان کیلئے تحریک کا سبب بن جاتا ہے۔
جب نمائشی کشتیوں کیلئے مہمانوں کے سامنے بڑی میز پر شیلڈیں اور بڑے کپ و گرز آراستہ کئے جا رہے تھے تو میں نے انتظامیہ سے کہا ’’میں گاماں پہلوان کی بیلٹ لایا ہوں۔ آپ اسے میز پر رکھ لیں تاکہ آج کی نسل اور پہلوانوں کو اس بیلٹ کی عظمت سے آگاہ کیا جا سکے‘‘۔ اس ’’اہم ترین بندے‘‘ نے اچٹتی سی نظر بیلٹ پر ڈالی پھر کہنے لگا ’’پہلوان جی۔ اسے فی الحال ایک طرف رکھ دیں۔ پھر کبھی موقع آیا میں اس کی نمائش بھی کر دیں گے‘‘۔
اس درباری اور جاہل منتظم کی بات سن کر میرا خون کھول اٹھا مگر میں نے غیر ملکی مہمانوں کے سامنے کوئی تماشا کھڑا کرنے سے گریز کیا اور خود کو ہی ملامت کی۔
’’ناصر تو نے بہت بڑی غلطی کی ہے۔ ان بے قدروں کو کیا پتہ کہ گاماں پہلوان کون تھے اور اس بیلٹ جس کا ابھی تک کوئی دوسرا دعویدار نہیں پیدا ہوا اس کو تو نے جوہریوں کی بجائے کوئلہ فروشوں کے سامنے لا رکھا ہے‘‘۔
میں نے اپنا غصّہ دبا لیا مگر جب کشتیوں کے اختتام پر وزیر اعلٰی پنجاب میاں شہباز شریف خطاب فرمانے کے بعد مہمانوں سے مل رہے تھے تو میں نے کہا ’’میاں صاحب۔ میں گاماں پہلوان کی بیلٹ لیکر آیا تھا جسے ہندوستان برسوں سے للچائی نظروں سے دیکھ رہا ہے مگر ان لوگوں نے آج اس کی بڑی بے حرمتی کی ہے۔ آپ کے یہاں بیٹھے پہلوانوں میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے جو گاماں پہلوان کی عظمت کا ہمسر ہو۔ مجھے بڑا افسوس ہوا ہے۔ مجھے لگتا ہے گاماں پہلوان ساٹھ سال پہلے نہیں بلکہ آج مر گیا ہے جبکہ عظیم گاماں کا خون آپ کے خاندان میں بھی شامل ہے‘‘۔ میں نے میاں صاحب کے سامنے دل کی بھڑاس تو نکال لی مگر دیسی کشتیوں کی کھوئی ہوئی عظمتوں کو واپس لانے کیلئے کچھ نہیں کر سکا۔ شاید میرے علاوہ بھی دوسرے دف کے خاندانوں نے بھی ہتھیار پھینک دئیے ہیں۔ کوئی بھی پہلوان پیدا کرنا افورڈ نہیں کر سکتا۔ پہلوان نان کلچہ کھا کر نہیں بن پاتے۔ تندور چلا کر اور ٹوائلٹس کے ٹھیکوں سے ان کے سروں پر دستاریں نہیں باندھی جا سکتیں۔ پہلوان کہلوانے اور خود کو پہلوان ثابت کرنے میں بہت فرق ہے۔ اب تو پہلوانی کا دوسرا نام بدمعاشی ہے، بدمعاشوں کو پہلوان کہہ کر درحقیق ان ولی صفت پہلوانوں کی تضحیک کی جا رہی ہے۔(جاری ہے )
وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر87 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں