”ریل“ کی اصطلاح، پٹری یا ٹریک کے لیے استعمال ہوتی ہے، اپنے ہاں دونوں الفاظ کو ملا کر”ریل گاڑی“ نہ بنا لیا جائے، دل کو چین ہی نہیں پڑتا

Jan 11, 2025 | 10:00 PM

مصنف:محمدسعیدجاوید
 قسط:5
اسی طرح ساری دنیا میں لفظ”ریل“ کی اصطلاح، پٹری یا ٹریک کے لیے استعمال ہوتی ہے اور گاڑی کو اس سے الگ کرکے صرف ”ٹرین“ ہی کہا جاتا ہے جو اس پٹری پر دوڑی پھرتی ہے۔ اپنے ہاں تو جب تک دونوں الفاظ کو ملا کر”ریل گاڑی“ نہ بنا لیا جائے، دل کو چین ہی نہیں پڑتا۔لہٰذا مجھے بھی مجبوراً اسے جا بجا ریل گاڑی ہی لکھنا پڑا۔ البتہ کبھی کبھار اپنے اِطمینان قلب کے لیے میں نے اسے صرف گاڑی کہہ کر بھی کام چلا لیا۔
انجن کے پیچھے بھاگنے والی گاڑیوں کے ڈبوں کے بھی کئی نام ہیں، کہیں یہ کوچ کہلاتی ہے تو کہیں بوگی، کچھ سیلون بھی کہہ دیتے ہیں اور مال گاڑی میں لگ کریہ ویگنیں بن جاتی ہیں۔لیکن وطن عزیز میں ان سب کو ایک ہی چھڑی سے ہی ہانکاجاتا ہے- یہاں اسے سیدھا سیدھا ” ڈبہ“  ہی کہہ دیا جاتا ہے، خواہ وہ کسی سْپر ایکسپریس ائیر کنڈیشنڈ گاڑی کا ہو یا اسباب لے جانے والی مال گاڑی کا۔ 
اس لیے میں نے ایسے تمام معاملات میں اپنے آپ کو غیر جانبدار ہی رکھا، اور تحریر میں روانی کی خاطر جہاں جو لفظ بھی مناسب سمجھا لکھ دیا، اس مفروضے پر کہ بات تو قاری کی سمجھ میں آ  ہی گئی ہو گی، پھرکیوں اس پر بے سود بحث و تکرار کر کے ناراضی مول لی جائے۔
اس کتاب کو لکھنے میں حقیقتاً بہت محنت صرف ہوئی ہے۔ ایک جامع تحقیق کی خاطر بار بار تاریخ کی تھکا دینے والی سیڑھیوں سے اتر کر ماضی میں جانا پڑا ہے اور اس میں دئیے گئے اعداد و شمار کی بار بار جانچ پڑتال کی گئی ہے۔ پھربھی اگر کچھ معلومات حقائق کے منافی نظر آجائیں تو اسے بشری کوتاہی اورغلطی سمجھ کر نظرانداز کر دیں اور میری پیشگی معذرت قبول فرمائیں۔میں یقیناً محکمہ ریلوے کا ملازم ہوں اور نہ ہی ان  کی ماضی یا مستقبل کی منصوبہ بندی میں میرا کوئی عمل دخل رہا ہے۔ 
کتاب کے عنوان بارے بھی میں ایک عرصہ تذبذب میں مبتلا رہا- خیال تھا کہ اس کا کوئی رومانوی، شاعرانہ یا افسانوی نام رکھ دوں جو جلد ہی زباں زدِ عام ہوجائے، لیکن جب کتاب کے مندرجات پرنظر ڈالی اور بعد ازاں کچھ دانا دوستوں نے بھی سمجھایا کہ یہ معاملہ اتنا سادہ بھی نہیں ہے کہ اس کو کسی شعر یا فلمی گانے کے ایک مصرعے میں سمو دیا جائے۔ یہاں تو ایک نگر آباد ہے چنانچہ ”عنوان نہیں آساں“- اس لیے سب کے مشورے سے اس کا نام ”ریل کی جادو نگری“ رکھا کہ اس دنیا میں داخل ہونا  واقعی کسی جادو نگری میں گم ہو جانے سے کم نہیں تھا۔          
ریل سے متعلق کتاب میں کہیں کہیں عبارت کی مناسبت سے اشعار بھی شامل کیے گئے ہیں، جس سے تحریر کی جاذبیت اور افادیت میں بڑا اضافہ ہوا ہے۔     
اپنے انداز تحریر، قارئین کی دل جوئی اور ان کو خشک مشمولات کی بیزاری سے بچانے کی خاطر مجھے پرانی فلموں کی کہانیوں کی طرح جا بجا مزاح کا تڑکا لگانا پڑا ہے اور وہ بھی اس احتیاط سے کہ وہ طبعِ قاری پر گراں نہ گزرے۔ 
مجھ پر جملہ احباب اور اساتذہ کرام کا شکریہ ادا کرنا بھی واجب ہے جن کا قدمے، قلمے، سخنے تعاون دورانِ تصنیف شاملِ حال رہا-
محمد سعید جاوید 
 (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزیدخبریں