پاکستان کے معروف دانشور و محقق ،عسکری وسیاسی تجزیہ نگار زید حامد نے اس عزم سے حضرت خالدبن ولیدؓ کی حیات مبارکہ پر ایک تحقیقی کتاب لکھی ہے تاکہ نسل نو کو تاریخ اسلام کے عظیم سپہ سالار سے متعارف کرایا جاسکے ۔ حضرت خالد بن ولیدؓ غیر معمولی پر اسرار شخصیت تھے جن کی ظاہری و باطنی قوتوں نے انسانیت کوورطہء حیرت میں ڈالا دیا تھا ۔ فوجی نقطۂ نظر سے دیکھاجائے تو انسانی عقل ماننے کو تیار نہیں ہوتی کہ عرب کے ریگزاروں سے نکلنے کے بعد مجاہدین اسلام نے تین سال کے مختصر ترین عرصے کے اندر اندر عراق اور شام یعنی فارسی اوررومی سلطنتوں کو شکست دے کر، یہ تمام علاقے سلطنت اسلامیہ میں شامل کرلیے تھے اور ان میں اہم ترین کردار سیف اللہ حضرت خالد بن ولیدؓ کا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
’’مجھے سخت افسوس ہے کہ میں ایک بوڑھے اونٹ کی طرح جان دے رہا ہوں۔ مجھے سخت شرمندگی ہے کہ میں میدان جنگ میں شہید نہیں ہوسکا اور اللہ قیامت تک کبھی کسی بزدل کو سکون اور اطمینان نہ دے‘‘۔
یہ افسوس اس مجاہد کا ہے کہ جس کو اللہ کے رسولﷺ نے ’’سیف اللہ‘‘ کا لقب دیا۔ ان کے وجود کا کوئی حصہ ایسا نہ تھا کہ جس پر تیر،تلوار، نیزے یا خنجر کے زخموں کے نشانات نہ ہوں۔انہوں نے سو سے زائد گھمسان کی جنگوں میں حصہ لیا اور کبھی کسی جنگ میں شکست نہیں کھائی۔انکے نام سے ہی ایرانی اور رومی سلطنتوں پر دہشت طاری ہوجایا کرتی تھی۔اپنی موت کے وقت میدان جنگ میں شہادت نہ پانے پر انہوں نے یہ کلمات افسوس کی حالت میں کہے۔
اس پر انکی زوجہ نے انکو تسلی دی کہ’’ خالدؓ! آپ شرمسار نہ ہوں۔ آپ کو جب اللہ کے رسولﷺ نے ’’سیف اللہ‘‘ کا لقب دے دیا ہے تو اسکا مطلب ہی یہ ہے کہ اب یہ ’’سیف اللہ‘‘ یعنی اللہ کی تلوار میدانِ جنگ میں کسی کافر کے ہاتھوں نہیں کٹ سکتی، آپؓ کے نصیب میں شہادت نہیں تھی‘‘۔
اپنی اہلیہ کی طرف سے اس تسلی کے بعد اللہ کا یہ شیر ذرا پر سکون ہوا۔ خالد بن ولیدؓ صرف عالمِ اسلام کے ہی نہیں بلکہ تاریخ انسانیت کے ہیرو ہیں۔ انسانیت کی تاریخ میں ان سے بڑا فوجی حکمت عملی سازاور فنون جنگ کا ماہر جرنیل اور غازی پیدا ہی نہیں ہوا۔
جب حضرت خالد بن ولیدؓ کے انتقال کی خبر شام سے مدینہ پہنچی، تو مدینہ میں کہرام مچ گیا۔ سیدنا عمرؓ پہلے تو لوگوں کو منع کرنے کی کوشش کرتے رہے ،لیکن جب معلوم ہوا ہے کہ ’’ابو سلیمان ‘‘( خالد بن ولیدؓ کی کنیت)کی وفات کی خبر ہے، تو پھر وہ بھی خاموش ہوگئے۔پھر اہل مدینہ سے کہا ’’ آج جو آنکھ رونا چاہتی ہے ،رو لے، جوزبان کچھ کہنا چاہتی ہے، وہ کہہ دے، کیونکہ وہ جو کچھ بھی کہیں گے، سچ ہی کہیں گے۔ لوگوں کو دوبارہ ابو سلیمانؓ جیسے وجود پر رونے کا موقع نہیں ملے گا‘‘
اس سے قبل سیدنا ابوبکرصدیقؓ بھی حضر ت خالد بن ولیدؓ کے بارے میں فرما چکے تھے کہ’’مائیں اب دوبارہ خالد جیسابیٹا پیدا کرنے سے قاصر ہیں‘‘۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیدنا خالدؓ قریش کے ایک قبیلے سے تعلق رکھتے تھے اور پیدائشی جنگجو تھے۔ ان کے قبیلے کا کام ہی جنگ کرنا تھا۔ ان کے والد ولید بن مغیرہ نے ان کو جنگی حکمت عملی ، تیر اندازی، گھڑ سواری، نیزہ بازی، تلوار زنی، دشمن کی فوج پر کمین لگانا( چھپ کر وار کرنا)، تعاقب کرناجیسے تمام حربی علوم سکھائے تھے۔یہ عربوں میں عام رواج تھا۔ ہر عرب جنگجو، یہ سارے علوم سیکھتا ،لیکن وہ کیا راز تھا کہ قریش کا ایک جنگجو اس قدر بابرکت ثابت ہوا کہ رسولﷺ نے اس کو’’ سیف اللہ‘‘ کا لقب عطا فرمایا اور انہوں نے تین سال کے مختصر عرصے میں رومی اور فارسی سلطنتوں کے پرخچے اڑا دیئے۔بے شک سیدنا خالدؓ کے بعد اس سے بہتر جنگی حکمت عملی تاریخ میں کوئی بھی نہ بنا سکا۔آنے والی صدیوں میں ہر تہذیب کے سپہ سالار سیدنا خالد بن ولیدؓ کی جنگی حکمت عملی کا مطالعہ کرتے ، اس پر عمل کرتے اور اس کے مطابق اپنی عسکری منصوبہ بندی کرتے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سیدنا خالدؓ ایک پیدائشی سپہ سالار تھے۔مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کے حیرت انگیز تاریخی کارناموں کے پیچھے سیدی رسول اللہﷺ کی دعا اور برکت شامل تھی۔ایک مرتبہ جب حج کے موقع پر حضورﷺ نے اپنے بال مبارک ترشوائے تو سیدنا خالد بن ولیدؓ نے وہ بال مبارک اٹھا لیے۔
رسولﷺ نے ان سے پوچھا: ’’ خالد یہ کس لیے؟‘‘
سعادت مندی سے جواب دیا’’ یا رسولﷺ! آپکے بال مبارک میرے پاس رہیں گے، توان شاء اللہ، ان کی برکت سے میں ہر جنگ میں فتح پاؤں گا‘‘
رسول ﷺنے فرمایا:’’ ہاں! یہ بال تمہارے پاس رہیں گے، میری دعا بھی تمہارے ساتھ رہے گی اور ان شاء اللہ، تم ہر جنگ میں فتح پاؤ گے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسلمانوں کا میدان جنگ میں حضرت خالد بن ولیدؓ سے پہلا تعارف اس وقت ہوا کہ جب غزوہ احد میں خالد بن ولیدؓ کفار کی طرف سے لڑنے کے لیے میدان میںآئے۔ اس وقت آپ ایمان نہیں لائے تھے اور کفار کے اضافی گھڑ سوار دستے(reserve cavalry battalion) کے سربراہ تھے۔ غزوہ احد میں حضورﷺ نے پچاس تیر انداز ایک پہاڑی درے پر متعین فرمادیئے اور ان کو حکم دیا کہ جنگ کا جو مرضی نتیجہ نکلے، آپ کو اپنی جگہ نہیں چھوڑنی۔ یہ پچاس تیر انداز حضورﷺنے سیدنا خالد کے گھڑ سوار دستے کو دیکھ کر ہی متعین کیے تھے کہ جو پہاڑ کی ایک جانب سے مسلمانوں پر حملہ آور ہوسکتے تھے ۔ غزوہ احد میں جب مسلمانوں کو کامیابی نصیب ہونے لگی اوردشمن پسپا ہونے لگے، تو مال غنیمت جمع کرنے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ان پچاس تیر اندازوں میں سے اکثر نے حکم عدولی کی اور جنگ کا پانسہ مسلمانوں کے حق میں پلٹتا دیکھ کر، اپنا مورچہ چھوڑ دیا اور نیچے اتر آئے۔ خالد کی عقابی نگاہوں نے یہ کمزوری تاڑ لی اور اس سے بھرپور فائد ہ اٹھایا۔کفار کی گھڑ سوار فوج کو موقع مل گیا کہ مسلمانوں پر پشت سے حملہ کرسکیں۔ کفار کے اس حملے کے نتیجے میں ،کہ جس کی قیادت خالدکررہے تھے، ستر صحابہ کرامؓ شہید ہوئے۔ یہ مسلمانوں کے لیے ایک بہت شدید چوٹ تھی۔
جاری ہے