ہمارے مسائل کا حل کیا ہے؟؟

Dec 12, 2023

مختار چودھری

  ہمارے ہاں بہت سارے مسائل ہیں جن کا ہر بندہ ذکر بھی کرتا ہے، لیکن ان مسائل کا حل کیا ہے؟ جب بھی کسی بندے کو پوچھیں تو زیادہ تر مایوسی کے عالم میں جواب دیتے ہیں کہ کوئی حل نہیں ہے. میرے نزدیک یہ مایوسی اللہ کے احکامات کی عدولی ہے یا اس طرح سمجھیں کہ اللہ کے حکم کا انکار ہے ہمیں یہ بات سمجھنی چاہئے کہ یہ کائنات جس رب نے بنائی ہے اس نے پورے پورے توازن کے ساتھ بنائی ہے اور اس کائنات میں ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہوتا جو حل نہ ہو سکے۔ کائنات کا مالک فرماتا ہے کہ میں کسی جان کو اس کی برداشت سے زیادہ تکلیف نہیں پہنچنے دیتا ہوں۔ اللہ نے ہر مشکل کا حل بھی بتایا ہے اور ہر تکلیف کا دارو بھی دیا ہے اب یہ انسانوں پر منحصر ہے کہ وہ سوچتے کس طرح ہیں اور عمل کیا کرتے ہیں، جب میں سوچتا ہوں تو میری سوچ سب سے پہلے انبیاء  علیہ السلام کی طرف جاتی ہے کہ ان کے سامنے کتنی مشکلات ہوتی تھیں، کیسی کیسی بگڑی قوموں سے ان کا واسطہ پڑا اور انہوں نے کتنی مدت محنت کی، جہاد کیے پھر جا کر اپنا نظام قائم کروایا، (لفظ نظام پر زیادہ غور کیجئے گا)۔

لیکن بعض بدقسمت قوموں نے اپنے انبیاء کے نظام کو قبول نہ کیا تو پھر ان کا جو حشر ہوا اس کا احوال قرآن پاک اور تاریخ کی کتابوں میں ملتا ہے، لیکن ان قوموں کا نشان نہیں ملتا، اب یہ کہہ کر اپنی جان چھڑا لینا کہ اللہ تعالیٰ کے انبیاء کی بات ہی الگ تھی، ہم وہ کام نہیں کر سکتے غفلت کے سوا اور کچھ نہیں ہے تمام انبیاء علیہ السلام عام انسانوں کی شکل میں آئے اور عام انسانوں کے اندر رہ کر جدوجہد کی اور کئی انبیاء علیہ السلام کو انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، کئی کی ہمت میں لغزش بھی آئی اور کئی ایک کو اللہ کی طرف سے تنبیہہ بھی کی جاتی رہی، اللہ کے انہی احکامات (جو قرآن کریم میں بھی درج ہیں) کے اندر انسان کو مایوس ہونے سے منع بھی کیا گیا ہے۔ ساتھ یہ بھی بتایا کہ اے بندے تیرا کام اللہ کے حکم کے مطابق جدوجہد کرنا ہے، نتائج حاصل کرنا نہیں ہے پھر ہم کس طرح کچھ کیے بغیر ہی یہ نتیجہ اخذ کر لیتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ قابل اصلاح نہیں ہے؟؟ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ قابل اصلاح نہیں کیا انہوں نے جدوجہد کر کے دیکھ لیا ہے؟ کیا انہیں اپنے حقیقی مسائل کا ادراک بھی ہے؟ کیا انہوں نے دوسری قوموں کی تاریخ پڑھی ہے؟ کیا ان کا اللہ پر پختہ ایمان نہیں ہے؟

قارئین ہمارا ایک ہی مسئلہ ہے اور وہ ہے نظام کا، ہمیں آج تک کسی نے درست نظام کی طرف راہنمائی نہیں کی ہے پہلے پہل باہر سے آنے والوں نے برصغیر کے اندر اپنی بادشاہت قائم رکھنے کے لیے وہی کچھ کیا جس سے ان کا تسلط قائم رہے پھر پاکستان بناتے وقت بھی وہ اپنے مہروں کو ہمارے اوپر مسلط کر گئے تاکہ بین الاقوامی سطح پر ان کے حقوق کا تحفظ رہے اگر ہم غور کریں تو جن انبیاء کرام نے کامیابی سے اپنی قوموں کو راہ راست پر لگایا بالخصوص ہمارے نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جس طرح دین اسلام کو پھیلایا اور ایک مضبوط ریاست کی بنیاد رکھی یہ سب ایک بہترین نظام کی وجہ سے ممکن ہوا تھا، کیونکہ عام انسان کو تحفظ چاہئے ہوتا ہے، جب اس کو کسی نظام میں اپنا تحفظ نظر آتا ہے تو وہ اس نظام کو قبول کر لیتا ہے۔ انسان بنیادی طور پر لالچی ہے اس لئے وہ سب سے پہلے اپنا فائدہ دیکھتا ہے جیسے آج کل ہمارا ہر نوجوان یورپ امریکہ کی طرف بھاگ رہا ہے اس کی وجہ اس کے سوا کیا ہے کہ ان ممالک میں ایسے نظام ہیں جس میں عام آدمی کو تحفظ ہے؟

اگر ہمارے ملک میں بھی ایک ایسے نظام کے لئے قائم کیا جائے جس میں وسائل کی تلاش اور ان کی درست تقسیم کا بندوبست ہو، جس میں انصاف ہو اور سب کے لئے برابر بھی ہو، جس میں ہر فرد کو اس طرح تحفظ کا یقین دلایا جائے کہ اس کی جان، عزت محفوظ ہو اور اس کی تمام بنیادی ضروریات کی فراہمی ہو تو پھر کیوں نہ لوگ اس نظام کو قبول کریں گے؟ ہمارے ملک میں پے در پے دھوکے ہوئے، حکمرانوں (یہاں حکمرانوں سے مراد صرف سیاستدان نہیں،بلکہ سب لٹیرے ہیں) نے عوام سے جھوٹے وعدے کئے اور ملکی وسائل کو لوٹا اور آخری عوامی حکومت کو 77ء میں ختم کرنے کے بعد ملک کو اندھیروں کی طرف دھکیل دیا گیا اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ اب ہم نے خود فیصلہ کرنا ہے کہ اسی اندھیرے میں ٹکریں مارتے ہوئے روتے رہنا ہے کہ اس معاشرے کا کچھ نہیں ہو سکتا یا پھر اس اندھیرے سے نکلنے کی جدوجہد کرنی ہے؟؟ دنیا کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ایک اچھے اور برابری کے نظام کے راستے میں ہمیشہ رکاوٹیں ان سرداروں، اجارہ داروں اور مذہبی ٹھیکیداروں نے کھڑی کیں، جن کو مراعات اور خصوصی رتبے حاصل تھے اور عام عوام ان کے غلام ہوتے تھے مکہ کے سرداروں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مخالفت اسی لئے کی تھی کہ آپ صلعم ایک اللہ کی عبادت اور سب انسانوں کی برابری کے نظام کو نافذ کرنے کی جدوجہد کر رہے تھے۔

آج بھی ہمارا سب سے بڑا مسئلہ دو یا کئی طبقاتی نظام ہیں، جس میں ایک طرف مقتدرہ، جاگیردار، سرمایہ دار، سیاست دان، مذہبی ٹھیکیدار اور کئی علاقائی سردار اور وڈیرے ہیں اور دوسری طرف عام عوام، مزدور، مزارعین اور تمام کمزور طبقات ہیں. ہمیشہ کی طرح کمزور طبقات کی بھاری اکثریت ہے اور اشرافیہ 10 فیصد سے بھی کم ہیں مگر موجودہ نظام ایسا ہے کہ 10 فیصد نے 90 فیصد کو جکڑ رکھا ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ عوام سوچیں اور اپنے حق کے لئے کھڑے ہوں اپنے اوپر اعتماد کریں اور اپنے درمیان سے ایماندار قیادت کی تلاش کریں،جب تک آپ خود کچھ کرنے کی بجائے کسی مسیحا کے منتظر رہیں گے اس وقت تک آپ نہ صرف مسائل میں گرے رہیں گے بلکہ آپ کے مسائل میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا اور آپ کی آئندہ نسلوں کے لئے حالات مزید بگڑیں گے۔

  

مزیدخبریں