صبر کی تلقین (قرآن حکیم اور حدیث کی روشنی میں)  

Mar 12, 2024

ڈاکٹر فوزیہ تبسم

  ترجمہ: بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (البقرہ: آیت۵۳) 

اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں نیک بندوں کے لیے صبرورضا کی تاکید کی ہے، انسان کو جو کچھ عطا ہوا ہے، اس کی جان، اس کا مال، اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا ہے، اس لیے انسان پر لازم آتا ہے کہ آزمائش کی گھڑی میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کی خاطر صبر اور سکون سے کام لے۔ 

جب رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے نبوت کا اعلان فرمایا تو کفار نے آپؐ کو طرح طرح کی تکلیفیں اور اذیتیں دینی شروع کیں، کبھی آپؐ کو جھٹلاتے، کبھی وہ آپؐ کا مذاق اُڑاتے، کسی نے آپؐ کو جادوگر کہا، کسی نے آپؐ کو دیوانہ کہا، مگر آپؐ نے صبرو استقلال کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا اور تبلیغ دین کے راستے پر ثابت قدمی سے چلتے رہے۔ 

جب آپؐ نے دین کی تبلیغ شروع کی تو آپؐ کا چچا ابولہب اور آپؐ کی چچی ام جمیل دونوں آپؐ کے دشمن ہوگئے، ابولہب نے آپؐ کو دیوانہ کہنا شروع کردیا اور لوگوں کو یہ کہنا شروع کردیا کہ اس کی باتوں پر کان نہ دھرو، آپؐ کی چچی آپؐ کے راستوں میں کانٹے بچھاتی تھی، کئی دفعہ آپؐ کے تلوے لہولہان ہوگئے، لیکن آپ نے اس تکلیف کو بھی خندہ پیشانی سے برداشت کیا یہاں تک کہ کبھی بد دعا کے لیے ہاتھ نہ اُٹھائے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کی گستاخی پر ان کی مذمت میں سورہئ لہب نازل فرمائی۔ 

دشمنوں نے جب یہ دیکھا کہ ان کی تمام تدبیروں کے باوجود رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنی باتوں پر ڈٹے ہوئے ہیں تو انہوں نے نبوت کے ساتویں برس محرم الحرام میں خاندان بنوہاشم سے تعلقات منقطع کرلیے اور بنوہاشم سے ہر طرح کا لین دین اور میل جول بند کردیا، الغرض مخالفین نے آپؐ کو اتنی تکلیفیں دیں کہ اُن کے تصور سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، آپؐ نے ان تمام مصائب اور تکالیف کا مردانہ وار مقابلہ کیا اور صبرواستقامت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زندگی کے یہ تمام واقعات نیک بندوں کے لیے ایک احسن نمونہ ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو صبروضبط کا اعلیٰ نمونہ بنا کر بھیجا تاکہ نیک بندے اُن کی زندگی سے سبق حاصل کریں اور پاکباز اور مومن بن جائیں۔ 

صبرواستقامت کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ بھی ارشاد فرمایا: 

ترجمہ: صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو۔ 

چنانچہ اس آیت کا بھی اس پہلی آیت کے ساتھ تعلق جوڑ دیا کہ اگر تم اپنے اندر مستقل مزاجی پیدا کرو تو وہ تمہارے لیے بہتر ہے اور اس استقامت اور ثابت قدمی کے پیدا کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو، صبر کی بہت فضیلت ہے، صبر، مستقل مزاجی اور ثابت قدمی پر چلنے کی ہدایت کرتا ہے اور زندگی میں اعتدال کا راستہ دکھاتا ہے، صبر میں بہت قوت ہے، صبر ہمیں صراط مستقیم پر چلنے کی تلقین کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی پر زور دیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صبر کرنے والوں کو اپنا ساتھی بنایا ہے۔ 

صبر کے ساتھ ساتھ نماز میں بھی بہت طاقت ہے، خدا کے جو نیک بندے ذکرالٰہی میں مشغول رہتے ہیں اور پانچ وقت کی نماز ادا کرتے ہیں، اُن کا دامن ہمیشہ آلودگیوں سے پاک رہتا ہے، اُن کی نگاہ صاف اور اُن کا دل پاکیزہ رہتا ہے، اُن کے دل میل سے مبرا ہوتے ہیں، نیک بندوں اور مومنوں کی یہ نشانیاں ہیں۔ 

اللہ تعالیٰ نے صبر اور نماز کی جگہ جگہ فضیلت بیان کی ہے اور یہی وجہ ہے کہ مستقل مزاجی اور ثابت قدمی پیدا کرنے کے لیے ان دو باتوں صبر اور نماز کی عظمت کو اجاگر کیا ہے جن پر عمل پیرا ہوکر ہم سچے مومن اور نیک بندے بن سکتے ہیں۔ 

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: میں تم کو ایسی چیزیں نہ بتلاؤں جن سے اللہ تعالیٰ گناہوں کو مٹاتا ہے اور درجوں کو بڑھاتا ہے؟ لوگوں نے کہا: ضرور بتلائیے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم۔ آپ ؐنے فرمایا: وضو کامل کرنا، ناگواری کی حالت میں (کسی وجہ سے وضو کرنا مشکل معلوم ہوتا ہے) اور بہت سے قدم ڈالنا سجدوں کی طرف (یعنی دور سے آنا اور باربار آنا) اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا، ایسے ہی وقت پر وضو کرنا بھی صبر کی ایک مثال ہے۔ 

حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: چار چیزیں ایسی ہیں کہ وہ جس شخص کو مل گئیں، اس کو دنیاوآخرت کی بھلائیاں مل گئیں، دل شکر کرنے والا اور زبان ذکر کرنے والی اور بدن جو بلا پر صابر ہو اور بی بی جو اپنی جان اور شوہر کے مال میں اس سے خیانت نہیں کرنا چاہتی۔ 

”ہر لمحہ انسان پر کوئی نہ کوئی حالت طاری ہوتی ہے، خواہ وہ حالت طبیعت کے موافق ہو خواہ وہ طبیعت کے مخالف، اوّل حالت پر شکر کا حکم ہے، دوسری حالت میں صبر کا حکم ہے تو صبروشکر ہر وقت کرنے کے کام ہوئے۔“ 

”مسلمانو! اس کو نہ بھولنا، پھر دیکھنا ہر وقت کیسی عزت و راحت میں رہو گے۔“

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص صبر کرنے کی کوشش کرے گا خدا اُس کو صبر بخشے گا اور صبر سے زیادہ بہتر اور بہت سی بھلائیوں کو سمیٹنے والی بخشش اور کوئی نہیں۔ 

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی ایسے شخص کو دیکھے جو مال و دولت اور جسمانی بناوٹ یعنی شکل و صورت میں اس سے بڑھا ہوا ہے(اور اس کی وجہ سے اس کے دل میں حرص و طمع اور شکایت پیدا ہو) تو اس کو چاہیے کہ کسی ایسے بندے کو دیکھے جو ان چیزوں میں اس سے بھی کمتر ہو (تاکہ بجائے حرص و طمع اور شکایت کے صبر و شکر پیدا ہو)۔ 

حضرت صہیبؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: بندہ مومن کا معاملہ عجیب ہے، اس کے ہر معاملہ اور ہر حال میں اس کے لیے خیرہی خیر ہے، اگر اس کو خوشی، راحت اور آرام پہنچے تو وہ اپنے رب کا شکر ادا کرتا ہے اور یہ اس کے لیے خیر ہی خیر ہے اور اگر اُسے کوئی دکھ اور رنج پہنچتا ہے تو وہ اس پر صبر کرتا ہے اور یہ صبر بھی اس کے لیے سراسر خیر اور موجب برکت ہے۔ 

مزیدخبریں