ماں سے محبت جنم لیتی ہے۔ جنت نے کہا کہ ماں وہ ہستی ہے کہ مَیں اس کے قدموں تلے ہوں۔ ماں باپ کے سامنے شفقت اور انکساری سے جھکے رہنا عزت کی بلندیوں تک پہنچا دیتا ہے۔ جب تک تمہاری ماں زندہ ہے، تمہیں کسی بزرگ سے دعا کرانے کی ضرورت نہیں۔ ماں، باپ کے نافرمان کا فرض اور نفل ایک بھی قبول نہیں ہوتا۔ جب مَیں اپنی ماں کی یاد میں روتا ہوں تو فرشتے میرے آنسو پونچھتے ہیں.... اسلام سکھاتا ہے کہ ماں، باپ کی خدمت سے جنت ملتی ہے اور انہیں محبت کی نگاہ سے دیکھنا ایک قبول حج کے ثواب کے برابر ہے۔ ہر گناہ کے بدلے میں عذاب اور گناہ و جرم پر گرفت اور پکڑ کی تاخیر کی جاسکتی ہے، لیکن ماں، باپ کی نافرمانی کرنے والے کا گناہ ایسا سخت ہے کہ اس کا بدلہ مرنے سے پہلے ہی لے لیا جاتا ہے۔ ہماری تہذیب کی پوری عمارت ماں کی تعظیم اور اطاعت پر قائم ہے۔ ماں وہ ہستی ہے، جس کی تعریف کے لئے دنیا میں الفاظ نہیں ملتے، اسی کے دم سے یہ کائنات آباد ہے۔ دو جہانوں میں خوشحال زندگی کا محور ماں ہے جو اولاد کے لاکھوں راز اپنے دل میں چھپا لیتی ہے۔ ماں راضی ہو تو اللہ بھی راضی ہوتا ہے۔ بدنصیب ہے وہ اولاد جو اپنی ماں کی زیادہ سے زیادہ خدمت نہ کر سکے اور زیادہ دعائیں نہ لے سکے۔ ماں پیار کے سمندر کی مانند ہے جو ہر وقت جوش میں رہتا ہے اور اس کا پانی کبھی خشک نہیں ہوتا۔
دنیا کے بیشتر ممالک میں ہر سال مئی کی دوسری اتوار کو ماو¿ں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ ناروے میں فروری کے دوسرے اتوار جارجیا میں تین مارچ، افغانستان میں آٹھ مارچ کو منایا جاتا ہے۔ عالمی سطح پر بزرگوں کا دن یکم اکتوبر، اسی طرح بین الاقوامی سطح پر منائے جانے والے خاندان کا عالمی دن15 مئی ،نوجوانوں کا عالمی دن 2 اگست، امن کا عالمی دن ستمبر کا تیسرا منگل، بچوں کا عالمی دن20 نومبر، خصوصی افراد کا عالمی دن3 ستمبر، انسانی حقوق کا عالمی دن10 دسمبر کو منایا جاتا ہے۔ یعنی سال کے تقریباً ہر مہینے میں ماں کے حوالے سے یہ دن مختلف ممالک میں منایا جاتا ہے۔ جس کا واحد مقصد عالمی سطح پر ماں کے مقدس رشتے کی اہمیت کو عقیدت اور شکر گزاری کے جذبات کے ساتھ اُجاگر کرنا اور اس حقیقت کو فروغ دینا ہے کہ ماں ایک درخت کی مانند ہے جو درخت خود جل جاتا ہے، لیکن اپنی اولاد کو درخت کے سائے سے زیادہ آرام دیتا ہے۔ کبیرہ گناہوں میں سب سے بڑا گناہ اللہ کے ساتھ شرک کرنا اور ماں باپ کی نافرمانی کرنا ہے، جس گھر میں تعلیم اور نیک ماں ہو، وہ گھر انسانیت اور تہذیب کی یونیورسٹی ہے۔ زندگی کی تمام مسرتیں پیار سے ”ماں“ کہتے ہی مل جاتی ہیں۔ ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرو.... (القرآن)
یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ دنیا میں جتنے بھی رشتے ہوں اور اُن رشتوں میں جتنی بھی محبت ہو، وہ اپنی محبت کی قیمت مانگتے ہیں، لیکن دنیا میں صرف ماں کا رشتہ ایک ایسا رشتہ ہے جو آپ کو کچھ دیتا ہی ہے، اس کے بدلے میں آپ سے کچھ نہیں مانگتا۔ حضور نبی کریم کے زمانے میں ایک نوجوان علقمہؓ نامی اللہ تعالیٰ کا فرماں بردار، نماز روزہ، صدقہ و خیرات اور ہر نیک اعمال کرنے میں بہت محنت کرتا تھا، وہ سخت بیمار پڑ گیا۔ اُس نے اپنی عورت کو رسول اکرم کے پاس بھیجا تاکہ آپ کو ان کا حال پتہ حل جائے جو نزع کی حالت میں تھا تو رسول پاک نے حضرت عمارؓ، حضرت صہیبؓ، حضرت بلال حبشیؓ کو بھیجا تو انہوں نے علقمہ کو جان کنی کی حالت میں پایا۔ وہ ان کو کلمہ شہادت پڑھنے کی تلقین کرنے لگے، مگر کلمہ ان کی زبان پر جاری نہ ہو سکا۔ صحابہ اکرام نے یہ خبر حضور کے پاس بھیجی۔ آپ نے اس کی ماں کے پاس ایک آدمی بھیجا، یہ بڑھیا لاٹھی ٹیکتی ہوئی آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ سلام کا جواب دینے کے بعد رسول اکرم نے فرمایا کہ اے علقمہؓ کی ماں تیرا لڑکا کیسا تھا۔ بڑھیا نے عرض کیا کہ وہ بہت زیادہ نماز پڑھتا تھا، روزے رکھتا تھا اور صدقہ و خیرات کا بہت زیادہ پابند تھا۔ آپ نے فرمایا یہ بتا کہ اس کا تیرے ساتھ سلوک کیسا تھا؟
اس نے جواب دیا اے اللہ کے رسول مَیں تو اس سے سخت ناراض ہوں، کیونکہ وہ میرے اوپر اپنی بیوی کو ترجیح دیا کرتا تھا اور میری نافرمانی کیا کرتا تھا۔ مَیں اسے معاف نہیں کروں گی۔ پھر آپ نے حضرت بلالؓ کو حکم دیا کہ بہت سی لکڑیاں جمع کرو اور علقمہ کو لکڑیوں میں رکھ کر آگ لگا دو۔ بڑھیا نے کہا اے رسول اللہ کیا میرے سامنے میرے بچے، میرے لخت جگر کو زندہ آگ میں جلایا جائے گا؟ آپ نے فرمایا: ہاں! اللہ تعالیٰ کا عذاب اس سے بھی زیادہ سخت ہے اور زیادہ باقی رہنے والا ہے۔ اگر تجھے پسند ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت کر دے تو پھر تو اس سے راضی ہو جا اور اسے معاف کر دے، کیونکہ اگر تو اس کو معاف نہیں کرے گی اور جب تک تو اس سے ناراض رہے گی تو قسم اس ذات کی علقمہؓ کو اس کی نماز، اس کے روزے اور اس کا صدقہ کرنے کا کچھ نفع نہیں ملے گا۔ بڑھیا ماں نے فوراً تمام حاضرین کو گواہ بناتے ہوئے کہا کہ مَیں نے اپنے لڑکے علقمہ کو معاف کر دیا ہے اور اس سے راضی ہوگئی۔ پھر آپ نے ان چاروں صحابہ کرامؓ کو بھیجا۔ حضرت بلال حبشیؓ نے سنایا کہ علقمہؓ کی زبان پر کلمہ جاری ہے اور کلمہ پڑھتے ہی ان کا انتقال ہوگیا۔
اللہ کے رسول اس کے پاس تشریف لائے، نماز جنازہ ادا کی، اس کے دفن میں شرکت فرمائی اور اس کی قبر پر کھڑے ہوکر ارشاد فرمایا: ” اے گروہ مہاجرین و انصار! جو شخص اپنی بیوی کو اپنی ماں پر فضیلت دے گا تو اس کے اوپر اللہ کی لعنت اور فرشتوں کی لعنت ہے اور تمام لوگوں کی لعنت ہے....(الحاکم)....چنانچہ اگر کوئی شخص دنیا میں جنت پانا چاہتا ہے تو صرف ایک بار ماں کی عزت، دعا، پاکیزگی، احسانوں اور محبت کو سمجھ لے تو تمام زندگی اپنی ماں کے ایثار اور قربانیوں کا بدلہ نہیں چکا سکے گا۔ ماں کے بغیر انسان کی اپنی زندگی ادھوری ہے، ماں کا حق باپ کے حق سے تین گنا زیادہ ہے۔ ماں کی دعاو¿ں سے ہر مشکل کی گھڑی، صعوبت اور مشقت آسان ہو جاتی ہے۔ جب اولاد کو دنیا میں کہیں بھی سکون نہ ملے تو وہ اپنی ماں کی آغوش میں آکر ایسی راحت محسوس کرے گا جو اسے کہیں بھی نہ ملی ہو۔ جنت میں پیغمبروں اور محسن والدین کے درمیان ایک درجے کا فرق ہوگا۔ وہ جنت میں پیغمبروں کا ہمسایہ ہوگا۔ ماں باپ کو خوش رکھنے والے کو محسن والدین کہتے ہیں۔ ایک حدیث شریف کے مطابق رسول اکرم فرماتے ہیں، جس رات مَیں معراج کو گیا تھا، وہاں ایک قوم کو دیکھا کہ آتش کش سُولی پر لٹکتے ہیں جب جبریلؑ سے پوچھا اے میرے بھائی! یہ کون ہیں، کیا گناہ کرتے ہیں؟....انہوں نے کہا یہ قوم اپنی ماں کو گالی اور رنج دیتی تھی۔ مالک نے کہا، مجھے پروردگار نے حکم دیا کہ اس قوم کو آگ کی سُولی پر لٹکاو¿ں اور ان کی زبانوں کو آتش کے آکڑے سے گدی کی طرف کھینچ کر تالو سے نکالوں۔
ماں کے عالمی دن کے موقع پر ہمیں یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ اگر ہم اپنے والدین کی نافرمانی کے مرتکب ہوں گے تو عنقریب ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی ہوگا کیونکہ یہ دنیا مکافاتِ عمل ہے۔ میرے ذاتی مشاہدہ کے مطابق یورپی ممالک میں بوڑھے والدین کی اکثریت تو محض ردی کا سامان بن جاتی ہے، جہاں جگہ جگہ اولڈ ایج ہومز قائم ہیں اور حکومتی خرچ پر ان بزرگوں کی کفالت ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے یہ کلچر اب ہمارے اسلامی ممالک اور معاشرے میں بھی فروغ پا رہا ہے، جہاں بہت سے بوڑھے والدین اپنی اولاد کی نافرمانی کا شکار ہو کر اولڈ ایج ہومز کا راستہ دیکھتے ہیں۔ دراصل ہمارے معاشرے کے اکثر گھروں کی صورت حال بھی بدل رہی ہے۔ ہماری اولاد کی شخصیت سازی میں گھر کا ماحول ایک بنیادی حیثیت رکھتا ہے، جہاں ہمارے بچوں کی شخصیت سازی اور کردار کی عمارت تعمیر ہوتی ہے۔ ماں اپنے بچوں کی شخصیت سازی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ سرسید احمد خاں نے سیر فریدیہ میں تذکرہ فرمایا ہے کہ اچھی ماں ہزار اُستادوں سے بہتر ہے“۔
سرسید احمد خان کی ماں محترمہ عزیز النساءبیگم نے ان کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ جہاں جہاں تم جانا لازمی سمجھتے ہو اور ہر حالت میں تمہیں وہاں جانا لازمی ہو تو کبھی سواری پر جایا کرو اور کبھی پا پیادہ، کیونکہ زمانے کا کچھ اعتبار نہیں، کبھی کچھ ہے اور کبھی کچھ، ایسی عادت رکھو کہ ہر حالت میں اس کو نبھا سکو۔ ایک مرتبہ سرسید نے اپنے ایک نوکر کو تھپڑ مار دیا۔ اس پر سرسید کی والدہ نے انہیں گھر سے نکال دیا کہ جب تک اس نوکر سے اپنا قصور معاف نہ کراو¿، مَیں تمہیں معاف نہیں کروں گی۔ سر سید احمد خان نے لکھا ہے کہ مَیں نے اس نوکر کے آگے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگی، تب کہیں میری ماں نے مجھے معاف کیا۔ بچوں کا زیادہ وقت ماو¿ں کے ساتھ گزرتا ہے، لہٰذا وہ اپنے مثبت طرز عمل سے بچوں میں مثبت طرز عمل و فکر پیدا کر سکتی ہیں۔ اکثر گھروں میں ٹیلی ویژن نے ماو¿ں کو اغواءکر رکھا ہے۔ مائیں اپنے بیٹے ، بیٹیوں کو پڑھائی پر مجبور کرتی ہیں اور خود ٹیلی ویژن پر فلموں، ڈراموں سے لطف اندوز ہو رہی ہوتی ہیں۔ ہم سب کو اس امر کی طرف دھیان دینے کی اشد ضرورت ہے کہ ماں کی گود اگر بچے کی پہلی درس گاہ ہے تو آج کا بچہ اس درسگاہ میں کیا سیکھ رہا ہے؟
ماہرین نفسیات بھی اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ معصوم بچے پر سب سے گہرا اثراس کی ماں کا ہوتا ہے، اگر بچے پر اس کی ماں کے خوشگوار نیک اثرات پڑیں گے تو یقیناً اس کی روشنی بچے کے مقدر اور مستقبل کو روشن کرے گی اور وہ زندگی بھر اپنی ماں کی نصیحت کو کبھی فراموش نہیں کرے گا۔ ماو¿ں کے عالمی دن کی وساطت سے میرا یہ پیغام ہے کہ ماو¿ں کو بچپن ہی میں اپنی اولاد کی اصلاح پر خاطر خواہ توجہ دینی چاہئے۔ شیخ سعدی کا مشہور قول ہے کہ جو شخص بچپن میں ادب کرنا نہیں سیکھتا، بڑی عمر میں بھی اس سے بھلائی کی امید نہیں:
کوئی ثانی نہیں جہاں میں تیرا
تری ہستی عظیم ہے
ماں کی عظمت کا کیا کہوں شیدا
اس میں پنہاں خدا کی ہستی ہے
(دشتِ شب) ٭