مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں نواز شریف نے 2013ءکے انتخابات کا ”قلعہ“ فتح کرنے کے بعد قوم سے اپنے وکٹری خطاب سے اپنے ایجنڈے کو واضح کردیا ہے اور ایک طرف انہوں نے سب کو ساتھ لے کر چلنے کی بات کی ہے تو دوسری طرف انہوں نے حکومت سازی میں سولوفلائٹ کی بھی خواہش کا اظہار کردیا ہے خصوصاً نوجوانوں کو انہوں نے خوشخبری دے دی ہے کہ وہ ان کے ساتھ کئے گئے وعدے پورے کریں گے۔ باقی ماندہ نوجوان نسل کو ساتھ ملانے کا نہ صرف انہوں نے اعلان کیا ہے بلکہ آئندہ کے لئے یوتھ کو مسلم لیگ (ن) کے سر کا ”تاج“ بنانے کا پیغام بھی دیا ہے جہاں تک ملک کے آئندہ وزیراعظم کا تعلق ہے تو اس کا ”ہما“ نواز شریف کے سر بیٹھنے کے امکانات واضح اور روشن ہوگئے ہیں۔
انتخابات 2013ءکی فتح مسلم لیگ (ن) بن کر سامنے آگئی ہے اور مسلم لیگ (ن) ایسے وقت میں اقتدار میں آرہی ہے جب ملک لاتعداد مسائل اور بحرانوں کا شکار ہے اور بحران در بحران منہ کھولے کھڑے ہیں اس کے لئے مسلم لیگ (ن) کو 100دنوں میں پالیسیاں واضح کرنے کا انتظار کرنے کی بجائے حلف اٹھانے میں میدان میں اترنا ہوگا۔ تاخیر ان کے لئے مسائل پیدا کرنے کا باعث بنے گی۔
جہاں تک انتکابات 2013ءکے غیر حتمی نتائج کا تعلق ہے تو رات گئے تک پاکستان مسلم لیگ (ن) ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بن کر سامنے آگئی ہے اور یہی وہ جماعت ہے جو آئندہ حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائے گی۔
غیر سرکاری نتائج میں یہ بات بھی کھل کر سامنے آئی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف ایک دوسری بڑی سیاسی طاقت کے طور پر سامنے آگئی ہے اور آصف علی زرداری اور ان کے اتحادی وہ اے این پی ہو یا (ق) لیگ انہیں بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ تحریک انصاف کے قبضے میں کے پی کے آچکا ہے اور (ن) لیگ سمیت کوئی پارٹی اس قابل نہیں ہوگی کہ وہ اکیلے حکومت سازی میں کامیاب ہوسکے اسے اس کے لئے پیپلزپارٹی یا تحریک انصاف کی مدد درکارہوگئی مگر ان دونوں پارٹیوں سے مل کر مسلم لیگ (ن) حکومت بنانے کے بارے سوچے گی بھی نہیں اگر یہ نہیں تو پھر اسے دیگر چھوٹی جماعتوں اور مذہبی جماعتوں پر انحصار کرنا ہوگا۔ جس کے لئے جوڑ توڑ آج سے باقاعدہ طور پر شروع ہوجائے گا۔ جوڑ توڑ کے بغیر کوئی سیاسی جماعت بھی اکیلے حکومت سازی کے لئے سولو فلائٹ کے قابل نہیں ہوگی۔ یہ سب باتیں اپنی جگہ اگر زمینی حقائق کو سامنے رکھا جائے تو کے پی کے اور خصوصاً پشاور میں تحریک انصاف کی سونامی آگئی ہے جس نے سابق حکومت اور صدر مملکت آصف علی زرداری کی بڑی اتحادی جماعت اے این پی کو ”تباہ“ کرکے رکھ دیا ہے اس طرح پنجاب اور کراچی میں بھی پی ٹی آئی نے کامیاب طریقے سے انٹری ڈالی ہے اور اس میں کوئی شق نہیں ہے کہ تحریک انصاف انتخابات 2013ءمیں ملک کی دوسری بڑی پارٹی بن کر سامنے آچکی ہے سب سے بڑی کامیاب اس نے مسلم لیگ (ن) کے قلعہ شہر لاہور میں کامیاب طریقے سے ”پنچے“ گاڑھ کے حاصل کی ہے لاہور میں اگرچہ تحریک انصاف کو بڑی کامیابی تو نہیں مل سکی تاہم جو کچھ اس نے لاہور کے اندر مسلم لیگ (ن) کو ٹف ٹائم دے کر حاصل کرلیا ہے یہ اس کے لئے ایک بہت بڑی کامیابی حاصل ہے کم نہیں ہے لاہور کے پڑھے لکھے اور جدید لوگوں پر مشتمل جدید علاقوں میں جس طریقے سے پی ٹی آئی تبدیلی لائی ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ لاہور میں سب پیپلزپارٹی آئندہ کئی سالوں تک اپنے پاﺅں پر کھڑی نہیں ہوسکے گی اور مسلم لیگ (ن) کو اپنا قلعہ بچانے کے لئے میٹروبس ہی نہیں بڑے عوامی منصوبے بنانا ہوں گے۔ لاہور کو لوڈشیڈنگ کے عذاب سے نجات دلانے کے لئے (ن) لیگ کو ”حلف“ اٹھاتے ہی کام شروع کرنا ہوگا وگرنہ آئندہ کے لئے اسے لاہور کو بچانا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہوگا۔ اس قلعہ کو بچانے کے لئے مسلم لیگ (ن) کے سامنے بڑے چیلنجز ہوں گے ایک بات حقیقت بن کر سامنے آئی ہے کہ پیپلزپارٹی کی تاریخ میں جس طرح کی بربادی بانی پیپلزپارٹی کے داماد صدر مملکت آصف علی زرداری کے دور صدارت میں اس کے حصے میں آئی ہے اتنی بربادی ضیاءالحق کے دور میں بھی نہیں ہونی۔ البتہ ایک بات ثابت ہوگئی ہے کہ عوام نے آصف علی زرداری اور ان سے اتحادیوں سے لوڈشیڈنگ اور دیگر مسائل کے تحفے کا بدلہ لے لیا ہے۔