سٹیٹ اونڈ انٹرپینیورز (ایس ای اوز) یعنی سرکار کی ملکیت میں چلنے والے اداروں کے مجموعی نقصانات میں 55 کھرب 90 ارب روپے کا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق 2014ء کے بعد سے یہ ایس او ایز مجموعی نقصانات میں قریباً 20 ارب ڈالرز کا اضافہ کر چکی ہیں۔وفاقی حکومت کے خسارے میں چلنے والے 23 اداروں کی فہرست میں نیشنل ہائی ویز اتھارٹی (این ایچ اے)، پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے)، پاکستان ریلوے اور علاقائی الیکٹرک سپلائی کمپنیاں جیسا کہ کوئٹہ، پشاور، سکھر اور حیدرآباد الیکٹرک سپلائی سرِفہرست ہیں۔ مجموعی طور پر اِن سات ایس او ایز نے 15.84 ارب ڈالرز کا خسارہ کیا جو کل نقصانات کا 80 فیصد بنتا ہے اوریہ پیسہ عوام کے ٹیکس سے ادا کیا گیا۔ گزشتہ مالی سال کے دوران اِن ایس او ایز کو چلانے کے لیے لگ بھگ ایک کھرب روپے استعمال کیے گئے جبکہ اُس سے پہلے مالی سال میں 1.77 کھرب روپے استعمال کیے گئے تھے یعنی اِس خرچ میں 42 فیصد کمی لائی گئی تھی۔ اِن ایس او ایز کو قرض، گرانٹ، سبسڈی اور ایکویٹی انجیکشن کی صورت میں پیسے دیے جاتے رہے ہیں اور اِن کا خرچ گزشتہ مالی سال کے وفاقی بجٹ کا قریباً 11 فیصد بنتا ہے جبکہ اُس سے پچھلے مالی سال قریباً بجٹ کا 24 فیصد اِن ایس ای اوز پر خرچ کیا گیا تھا۔ خسارے میں چلنے والے اِن اداروں کے لیے دی گئی خودمختار ضمانتوں میں چھ فیصد کا اضافہ ہوا جس کی مالیت 1.65 کھرب بنتی ہے جبکہ اِن کا قرض جی ڈی پی کا دوگنا سے زائد ہو کر گزشتہ مالی سال 4.22 فیصد تک پہنچ گیا جو اِس سے پہلے مالی سال میں 2.15 فیصد تھا۔
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے چند روز قبل میڈیا سے گفتگو میں ایس او ایز اور وزارتوں میں اصلاحات کے لیے حکومت کے عزم کا اعادہ کیا تھا تاکہ کم ازکم یہ یقینی ضرور بنایا جا سکے کہ یہ حکومت عوام کے لیے موثر انداز میں کام کر رہی ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ معاشی استحکام ملک کے لیے بنیادی حفظانِ صحت کا درجہ رکھتا ہے، معاشی ”ڈی این اے“ کو نئی شکل دینے کے لئے ڈھانچہ جاتی اصلاحات کا نفاذ ضروری ہیں کیونکہ اِن ہی کے ذریعے ہی پاکستان خود انحصاری کا ہدف حاصل کر سکتا ہے۔ اُنہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ حکومت پی آئی اے کو نہیں رکھ سکتی اِس لیے اِس کی دوبارہ نجکاری کی جائے گی، ایس ای اوز کو اصلاحات سے گزرنا چاہئے، اِن کی نجکاری کی جانی چاہئے، نجی شعبے کو قیادت کرنی چاہئے، حکومت پر انحصار کم سے کم کیا جانا چاہئے تاکہ اِن اداروں کے لیے زیادہ موثر اور بہتر انتظام ممکن ہو سکے۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) مسلسل حکومت پر زور دے رہا ہے کہ وہ جرأت مندانہ اصلاحات نافذ کرے، جس میں خسارے میں چلنے والے ایس او ایز کی نجکاری بھی شامل ہے۔ آئی ایم ایف کا موقف ہے کہ جب تک پاکستان ناکام کاروباری اداروں کے لیے اپنی مالیاتی مدد کو کم نہیں کرتا تب تک وہ پائیدار اقتصادی ترقی حاصل کرنے سے قاصر رہے گا۔ بعض اقتصادی ماہرین کے نزدیک 88 تجارتی اداروں اور اُن کے ذیلی اداروں کو زندہ رکھنے کے لیے حکومتی تعاون خزانے پر بڑا مالی بوجھ ہے جس سے پیچھا چھڑائے بغیر معیشت کو درست کیا ہی نہیں جا سکتا۔ اِس وقت آئی ایم ایف کا وفد پاکستان میں ہے، جو 2.5 ارب ڈالرز کا فنانسنگ گیپ پورا کرنے کے لیے کیے جانے والے انتظامات پر بات چیت کرے گا۔ حالیہ دورے میں توسیعی فنڈ سہولت پروگرام کے پہلے جائزے پر بات چیت نہیں ہو گی کیونکہ موجودہ پروگرام کا پہلا اقتصادی جائزہ مارچ 2025ء میں شیڈول ہے اور اس وقت تک پاکستان کو اربوں روپے سالانہ کے نقصان میں چلنے والے اِن ای او ایز کی نجکاری سمیت اُن تمام مطالبات پر پیشرفت کرنا ہو گی جن کا پاکستان نے آئی ایم ایف سے وعدہ کر رکھا ہے۔
بعض ناقدین کی رائے میں یہ مالیاتی ضیاع معاشی بدحالی کی علامت اور ناقابل ِ برداشت ہے، یہ نظامِ حکمرانی کی ناکامیوں کی نشاندہی بھی کرتا ہے، بہت سے ایس او ایز میں سیاسی بنیادوں پر ضرورت سے زیادہ بھرتیاں کی گئیں اور ناجائز یا غلط مراعات دی گئیں، انہی وجوہات کی وجہ سے یہ ادارے منافع بخش ہونے کے بجائے کھربوں روپے کا نقصان کرنے لگے اور اب تک کر رہے ہیں۔چونکہ ان کے مستقبل میں بھی منافع بخش ہونے کے امکانات نہیں ہیں اِس لئے نجکاری کو اِس کا ممکنہ حل سمجھا جاتا ہے، خاص طور پر پاور اور ٹرانسپورٹ سیکٹر سے جڑے اداروں کو پرائیویٹائز کرنا ناگزیر ہے کیونکہ سب سے زیادہ نقصان یہی کر رہے ہیں۔یہ اور بات کہ پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) کی حالیہ نجکاری کی ناکام کوشش کوئی اچھی اُمید نہیں دکھا رہی،اس کی نجکاری میں سرمایہ کاروں نے خاص دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا، حکومت کی توقعات سے بہت کم بولی لگی اور صرف ایک ہی کمپنی میدان میں نظر آئی۔ سرکاری ملکیت میں چلنے والے یہ ادارے قرض، نااہلیوں اور اخراجات کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ اِن اداروں کو برقرار رکھنے کی خواہش میں حکومتیں اصلاحات لانے کی بجائے ان پر خرچ کرتی گئیں اور نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ صحت اور تعلیم جیسے بنیادی انسانی مسائل حکومت کی ترجیحات میں کہیں نظر نہیں آتے،اِس وقت ملک میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ ہے لیکن عملی طور پر اقدامات کی کمی ہے، لوگ ہسپتالوں میں دھکے کھاتے ہیں لیکن علاج میسر نہیں آتا۔حکومتوں کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے دہرا نقصان ہوا، اداروں کا نظم و نسق تو برقرار رکھا نہیں گیا ساتھ ہی ساتھ حکومتی یا سرکاری اداروں نے عوام کا اعتماد بھی کھو دیا۔ بد انتظامی کے شکار اِن اداروں کو بیل آؤٹ کرنے کے لیے استعمال ہونے والے کھربوں روپے، بنیادی ڈھانچے کی ترقی، سماجی بہبود کے پروگراموں یا پھر مجموعی طور پر اقتصادی ترقی کے اقدامات کے لیے استعمال نہیں ہو سکے۔موجود وفاقی وزیر نجکاری کہہ چکے ہیں کہ ان کا کام صرف پی آئی اے کی فروخت ہے، شرائط تو نگران حکومت طے کر کے گئی ہے لیکن وہ اسے نقصان میں نہیں بیچ سکتے۔ پی آئی اے کی نجکاری میں ناکامی کا مطلب ہے کہ اِس سارے عمل میں کہیں نہ کہیں کوئی خامی ہے جس کا از سر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے، متعلقہ حکام کو اس سے کچھ سبق سیکھنا چاہئے،نجکاری کی شرائط کو دوبارہ دیکھنا چاہئے اور کوشش کرنی چاہئے کہ یہ کام شفاف طریقے سے لیکن بہترین انداز میں جلد از جلد مکمل ہو سکے۔ اگرایک کھرب روپے کی یہ سالانہ بچت ہو جائے تو اِس کا ملکی معیشت پر خاصا مثبت اثر پڑے گا، یہی رقم صحت اور تعلیم سمیت دیگر بنیادی انسانی ضروریات یا حقوق کی فراہمی پر خرچ کی جا سکے گی جس کا براہ راست فائدہ عام آدمی کو ملے گا۔ اِسی طرح توانائی کے شعبے کی اصلاحات کرنا چاہئیں،جو مرضی کہہ لیں حقیقت یہی ہے کہ پاور سیکٹر کے نقصانات بالواسطہ یا بلا واسطہ عوام ہی سے پورے کیے جاتے ہیں۔ حکومت تب ہی کامیاب ہو گی جب وہ عوام کے بارے میں سوچے گی، اس کی بھلائی پر توجہ دے گی۔