آج تک اس کی محبت کا نشہ طاری ہے
پھول باقی نہیں خوشبو کا سفر جاری ہے
(شہزاد احمد)
شہزاد احمد کے ساتھ ہمارے خاندان کے تعلقات نصف صدی سے زیادہ پر محیط تھے ان کے والد محترم ڈاکٹر حافظ محمد بشیر پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر تھے اور امرتسر میں میرے دادا ابو صوفی تبسم کے کرایہ دار تھے، ان کا کلینک بھی اسی گھر میں تھا اُن کا انتقال 1938ء میں ہوا جبکہ شہزاد احمد محض 6،7برس کے تھے۔شہزاد احمد پاکستان بننے کے بعد لاہور آ گئے۔یہ بات مجھے شہزاد احمد صاحب نے خود ہی بتائی تھی اس سے پہلے میں شہزاد صاحب کو بچپن سے ہی بہت اچھی طرح جانتی تھی، اس لئے نہیں کہ وہ شاعر تھے بلکہ اس حوالے سے کہ صوفی صاحب کے ہونہار شاگردکے طور پر ان کا ذکر گھر میں اکثر ہوتا رہتا تھا۔ وہ ہمارے سمن آباد والے گھر بھی اکثر تشریف لاتے تھے۔ صوفی تبسم صاحب سے ان کی خاصی بے تکلفی تھی۔ میرے والد پروفیسر صوفی گلزار احمد بھی شہزادصاحب کے بارے میں جب بھی گفتگو کرتے ان کے چہرے پر عجیب سی چمک آ جاتی، ایسا محسوس ہوتا جیسے وہ اپنے ہی خاندان کے کسی فرد کی بات کررہے ہیں۔ ان کا نام کبھی میرے لئے اجنبی نہ تھا۔ میرے والد نے ہی ان کا یہ لطیفہ سنایا تھا جو شہزاد صاحب کے حوالے سے بہت مشہور ہے۔ ادب کی دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا شخص ہوگا جس نے یہ لطیفہ بلکہ ”حقیقہ“ نہ سنا ہو۔ وہ لطیفہ یوں ہے کہ شہزاد صاحب گورنمنٹ کالج میں صوفی تبسم کے شاگرد تھے وہ ایک دن کلاس روم میں نظر کی بڑی سی عینک لگا کر آئے صوفی صاحب نے کلاس میں آتے ہی ان پر جملہ کَسا۔ شہزاد آج تم نظر کی عینک لگا کر مجھے بِجو لگ رہے ہو۔ شہزاد احمد نے برجستہ جواب دیا اگر میں عینک اُتار دوں تو آپ مجھے بِجو لگتے ہیں۔صوفی صاحب اُن استادوں میں سے تھے جو اپنے شاگردوں سے بے حد محبت کرتے تھے۔ بجائے اس کے کہ اس جملے پر برہم ہوتے وہ شہزاد احمد کو پکڑ کر سٹاف روم میں لے گئے اور سب اساتذہ کو یہ واقعہ سنا کر شہزاد احمد کے اس برجستہ جواب پر خوب داد دلوائی۔
میری رسوائی میں وہ بھی ہیں برابر کے شریک
میرے قصے میرے یاروں کو سناتا کیا ہے
شہزاد احمد صاحب سے میں جب بھی ملتی وہ نہایت شفقت اور محبت سے پیش آتے اور اکثر سردیوں میں صوفی صاحب کی شب دیگ یاد کراتے اور شاید ان کی یادتازہ رکھنے کے لئے مجھ سے ہمیشہ فرمائش کرتے کہ شب دیگ پکاؤ…… میں بھی ان کو گھر بلانے کے بہانے بنایا کرتی کہ ان کا میرے گھر آنا صوفی صاحب کی یادوں کو تازہ رکھنے کے مترادف تھا۔ایک بار ایسی ہی فرمائش پر میں نے شب دیگ تیار کی مگر شہزاد صاحب نہ آ سکے مجھے بہت انتظار رہا۔ آخر صبح سویرے میں تمام پکے ہوئے کھانے لے کر ان کے گھر جا پہنچی وہ بڑے حیران ہوئے پتا چلا کہ رات ان کے ڈرائنگ روم میں آگ لگ گئی تھی اس لئے نہ آ سکے۔
صوفی صاحب کے حوالے سے کوئی بھی تقریب ہوتی، چاہے وہ گھر ہو یا الحمرا آرٹ کونسل میں شہزاد احمد صاحب کبھی شرکت سے انکار نہیں کرتے تھے۔ میرے بلاوے پر آتے اور عموماً تقریب کے آخر تک موجود رہتے۔ یہ ان کی صوفی تبسم صاحب سے محبت اور عقیدت تھی جو وہ ان سے رکھتے تھے۔ بہت عرصہ پہلے ریڈیو پاکستان لاہور پر ایک مشاعرے میں بڑے بڑے شعراء موجود تھے جب میں سٹوڈیو میں جا کر بیٹھی تو کہنے لگے ”بھئی فوزیہ! آج تم مشاعرے کی Opener“ہو اور مسکرانے لگے۔ میں نے جواب دیاآپ کے ہوتے ہوئے Openerہونا بھی میری خوش نصیبی ہے۔ خدا کرے میرا کلام بھی آپ کے کلام کی طرح ”آئی اوپنر ہو!“……مجلس ترقی ء ادب کے ڈائریکٹر ہوئے تو میں صوفی صاحب کی ایک نایاب کتاب انہیں دینے گئی۔ وہ نہایت شفقت سے پیش آئے اور جب میں جانے کے لئے اٹھی تو کہنے لگے یہ سامنے ریک میں کتابیں رکھی ہیں ان میں سے جو کتاب بھی تمہیں پسند ہولے لو۔میں نے ”فسانہء عجائب“ اٹھا لی اور انہوں نے اپنے دستخط کرکے مجھے وہ کتاب تھما دی ان سے اب اکثر وہیں ملاقات رہتی تھی۔ یہاں یہ ذکر نہ کرنا بے انصافی ہوگی کہ صوفی تبسم آرٹ اکیڈمی کی تقریبات، ریڈیو، ٹی وی پر، صوفی صاحب کے بارے میں ہوں مذاکرات، سیمینار، مشاعرہ یا کوئی بھی اسی نوعیت کی تقریب ہو اس میں شہزاد احمد کے ساتھ ساتھ پروفیسر ڈاکٹر خواجہ محمد ذکریا، ڈاکٹر سلیم اختر، پروفیسر مشکور حسین یاد، ڈاکٹر اجمل نیازی، خالد احمد، انتظار حسین اور ناصر زیدی بھی ہمیشہ میری پکار پر لبیک کہا کرتے تھے۔
شہزاد احمد ہر مرحلے پر میری حوصلہ افزائی کرتے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ میں شارجہ ایک کانفرنس کے سلسلے میں گئی تو انہوں نے اپنے ایک دو دوستوں کو فون کر دیا اور انہوں نے میری قیام گاہ ہوٹل میں آکر میرے ساتھ شام منعقد کرکے پذیرائی کی اور ہر طرح سے میرے ساتھ پیش پیش رہے۔ میرے ساتھ پاکستان سے گئے تمام ڈاکٹرز نے اس محفل کو بے حد پسند کیا اور اس سے لطیف اندوز بھی ہوئے۔ دیارِ غیر میں ایسے حسنِ سلوک کی سفارش کوئی شاعر ادیب کسی کے لئے کم کم ہی کرتا ہے۔
شہزاد احمد کی غزل گوئی کے بارے میں چھوٹا منہ بڑی بات کے مصداق کہتی چلوں کہ وہ ایسے پڑھے لکھے،صاحبِ اسلوب اور منفرد شاعر تھے جن کی شاعری میں سائنسی و سیاسی شعور کی لہر نمایاں دیکھی جا سکتی ہے۔
ان کے پہلے مجموعے سے یہ شعر ملاحظہ ہو:
کس کے لئے جاگے کس کی طرف بھاگتے
اتنے بڑے شہر میں کوئی ہمارا نہ تھا
آج وہ زندہ ہوتے تو انہیں یہ جان کر بے حد خوشی ہوتی کہ اتنا زمانہ بیتنے کے باوجود ان کی محبت ہمارے دلوں سے محو نہیں ہو پائی آج بھی سارا شہر ان کا مدح ہے اور ان کی کمی آج بھی محسوس ہوتی ہے۔
بگڑی ہوئی اس شہر کی حالت بھی بہت ہے
جاؤں بھی کہاں اس سے محبت بھی بہت ہے
شہزاد احمد