مندر میں ہر طرف اندھیرا چھا گیا، کان پھاڑ دینے والی چیخ و پکار گونجنا شروع ہوگئی، بڑی دیوار پر کچھ سائے لہرائے پھر فرعونوں کے چہرے صاف نظر آنے لگے 

Nov 12, 2024 | 11:12 PM

مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:59
محفل رنگ و نور اور ساز و آواز
احمد اب پُرسکون تھا، اس نے ایک مناسب وقت میں دن ڈھلنے سے پہلے مجھے عظیم کرناک مندر کے تمام انتہائی اہم مقامات اور یادگاریں دکھا دی تھیں جن کے بغیر فرعونوں کی تاریخ کو سمجھنا دشوار تھا۔ باہر نکل کر ہم نے ایک اسٹال والے سے کافی لی اور وہیں بیٹھ کر سورج کے غروب ہونے کا انتظار کرنے لگے۔ جس کے فوراً بعد ان مندروں کے بارے میں رنگ و نور اور روشنیوں کا ایک زبردست شو پیش کیا جانے والا تھا۔ جس میں اس دور کے دوڑتے بھاگتے انسانوں کے بارے میں ایک فلم بھی دکھانا تھی۔ ویسے تو شو روزانہ تین بار تین مختلف زبانوں یعنی انگریزی، جرمن اور فرانسیسی میں ہوتا تھا لیکن اس دن پہلا شو انگریزی زبان میں ہی تھا۔ اس لیے احمد کی کوشش یہ تھی کہ کسی بھی طرح اس میں شمولیت یقینی بنایا جائے۔ وہ اس شو کے بارے میں بڑا پُرجوش تھا اور بار بار مجھے کہہ رہا تھا کہ جب آپ یہ شو دیکھ لیں گے تو آپ کو سب کچھ سمجھ آ جائے گا۔ وہ اس کی تفصیل بتائے بغیر مسلسل اس کی تعریفیں کرکے میری آتش شوق بھڑکا رہا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ اگر اس کے بارے میں وہ اپنا منھ کھول بیٹھا تو میری اس شو کے بارے میں دلچسپی ختم ہو جائے گی اور شو فلاپ ہو جائے گا۔ ہم تیز تیز قدموں سے اس طرف بڑھ گئے جہاں یہ تماشہ منعقد ہونا تھا اور اس مقصد کے لئے انتظامیہ نے کرناک مندر کی بہت اونچی اونچی دیواروں والے مرکزی دروازے کا انتخاب کیا تھا۔ اس شو کو فرانس کی ایک کمپنی نے تیار کیا تھا اور اسی کا تکنیکی عملہ اس کو پیش کرتا تھا۔
یہاں بیٹھنے کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ سب کو کھڑے ہو کر ہی یہ سب کچھ ہوتا ہوا دیکھنا تھا۔ چھوٹا سا احاطہ اب تیزی سے سیاحوں سے بھرتا جا رہا تھا۔ لوگوں نے ہاتھوں میں آلو کے چپس، بھنی ہوئی مونگ پھلی اور پاپ کارن کے پیکٹ اٹھائے ہوئے تھے اور ساتھ ساتھ اپنے پسندیدہ یخ بستہ مشروبات سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ باتوں کا ایک سلسلہ تھا جو ختم ہونے میں ہی نہ آتا تھا اور مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی طرح ان کی سرگوشیاں ہر طرف گونج رہی تھیں۔ وہاں آئے ہوئے سیاح آپس میں اپنے سیاحتی تجربات کا تبادلہ کر رہے تھے۔
آخر ٹھیک سات بجے ایک دم مندر کی روشنیاں مدھم ہونا شروع ہوئیں اور پھر کچھ دیر بعد مکمل طور پر بند ہوگئیں اور ہر طرف اندھیرا چھا گیا۔ تب ہی سپیکر کھڑکھڑائے، سامنے مندر کے مرکزی دروازے کے وسیع و عریض ستون اور اس سے ملحق دیواریں گویا جاگ اٹھی تھیں۔ دور کہیں سے گھوڑوں کی ہنہناہٹ اور رتھوں کے بھاگنے کی آواز میں آنا شروع ہوئیں اور جیسے جیسے وہ قریب آتی جا رہی تھیں کان پھاڑ دینے والی چیخ و پکار ہر طرف گونجنا شروع ہوگئی۔ سامنے مندر کی بڑی دیوار پر کچھ سائے لہرائے اور پھر اس پر ابھرتے مٹتے فرعونوں کے چہرے صاف نظر آنے لگے تھے جو اپنی خوبصورت ملکاؤں، شہزادے شہزادیوں اور کنیزوں کے جلو میں رتھوں پر بیٹھ کر ایک قافلے کی صورت میں سامنے سے گزر رہے تھے۔ اس دوران ان کی کارگزاریوں کی تفصیل بیان کی جاتی رہی۔ جب بھی کسی معبد، محل یا مجسمے کا ذکر ہوتا تو موسیقی کی لے تیز ہو جاتی اور کرناک مندر کا وہ حصہ رنگ برنگی روشنیوں میں نہا جاتا۔ کہانی کے تسلسل کے لئے اس دوران ایک ترتیب کے ساتھ معبد کے مختلف حصے روشن ہو جاتے اور وہاں کے کھنڈرات جگمگا اٹھتے۔ تب اس مندر کا تفصیلی تعارف کروایا جاتا اور اسی مناسبت سے سامنے دیوار پر فلم کی چلنا شروع ہو جاتی۔ جس میں چلتے پھرتے کرداروں اورپجاریوں کے علاوہ دیوی دیوتاؤں کی خیالی تصویریں بھی ہوتی تھیں۔ بادشاہوں کے بڑے بڑے مجسموں اور مندروں کے ستونوں پر جب یہ روشنیاں پڑتیں تو بڑا پراسرار سا ماحول تخلیق پا جاتا۔ ان کے عقب میں لیزر مشینوں سے آسمان کی طرف پھینکی جانے والی  سبز رنگ کی روشنیوں نے اپنا ایک الگ ہی سماں باندھ رکھا تھا۔(جاری ہے) 
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں 

مزیدخبریں