ذرا غور فرمائیں کہ تب وہ کون سے عوامل تھے، جو مسلمانوں کی عظیم الشان ترقی کا باعث بنے؟ علوم و فنون میں، ایجادات و اختراعات میں، تہذیب تفس اور نظام اخلاق کی ترتیب و تدوین میں انہوں نے اپنی ذہنی و دماغی عظمت و برتری کا ایسا ثبوت دیا کہ کوئی متعصب مو¿رخ بھی ان کو جھٹلا نہ سکا۔ تاریخ عالم کا یہ واقعہ کس قدر حیرت انگیز ہے کہ ایک زمانے میں مسلمانوں نے نہایت شاندار طریقے پر ترقی کی اور اپنے کارناموں کا نقش صفحہءتاریخ پر اس طرح ثبت کیا کہ دنیا کی غیر قومیں ان کی عظمت و برتری کے سامنے سر اطاعت خم کر دینے پر مجبور ہوگئیں۔ ان اسباب کو معلوم کرنے کے بعد تاریخی اعتبار سے پتا چلے گا کہ امتداد زمانہ کے علاوہ مختلف اندرونی و بیرونی سازشوں کی وجہ سے ان عوامل میں کس طرح انحطاط و اضمحلال پیدا ہوتا رہا، تاآنکہ صدیاں گزرنے کے بعد جب یہ تاریخی انحطاط اپنے آخری نقطہءزوال تک پہنچ گیا تو اس کا نتیجہ یہ ہُوا جو آج ہم سب کے سامنے ہے اور جس کا درد انگیز منظر ہر حساس مسلمان کی آنکھ کو ایک پیہم دعوت تدبر و تفکر اور ہر درد مند دل کو مسلسل اذن فغاں سنجی اور ماتم سرائی دے رہا ہے۔ اب وہی مسلمان ہیں، جن پر مغربی طاقتوں کا ڈر اور خوف مسلط ہے۔ ان کا شیرازئہ ملی پراگندہ ہے۔ دفاع، قوت ابداع و اختراع سے محروم اور ہاتھ سیاسی طاقت و قوت سے نا آشنا محض ہیں۔ مردم شماری کے اعتبار سے اتنے مسلمان پہلے کبھی نہیں تھے، جتنے آج ہیں، مگر ساتھ ہی علم و عمل، ایمان و ایقان اور روحانیت و اخلاق کے لحاظ سے جتنے پست اور زبوں حال اب ہیں، پہلے اتنے کبھی نہیں تھے۔
ہزاروں برس پر محیط روئیداد غم ان مختصر صفحات پر تفصیل کے ساتھ بیان کرنا ممکن نہیں۔ صرف چند اہم امور کی طرف اشاروں پر اکتفا کیا جائے گا۔ انسان میں دو قوتیں ہوتی ہیں....ایک سوچنے اور غور کرنے کی قوت جس کو قوتِ فکری کہتے ہیں، اسے قوت نظری بھی کہتے ہیں۔یہ قوت اشیائے عالم کی حقیقتیں دریافت کرتی اور ان کی کُہنہ اور ماہیت کا کھوج لگاتی ہے۔ پھر مختلف اعمال و افعال کے پہلوو¿ں پر غور کرنے کے بعد فیصلہ کرتی ہے کہ کون سا عمل اچھا ہے، اس لئے لائق اخذ ہے اور کون سا عمل بُرا ہے اور اس بناءپر قابلِ ترک ہے قوتِ نظری کے اس فیصلے کے بعد دوسری قوت، یعنی قوت عملیہ کو تحریک ہوتی ہے اور وہ قوتِ نظری کے فیصلے کے مطابق کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کی تحریک کرتی ہے۔ ان دونوں قوتوں کا تعلق انسان کے نفس سے ہے۔ ایک” مبداً“ ادراک ہے اور دوسری مُبدا تحریک۔ انہی دو قوتوں کی بے اعتدالی سے جب یہ افراط و تفریط میں مبتلا ہو جاتی ہیں تو رذائل اخلاق پیدا ہوتے ہیں اور جب ان میں اعتدال پایا جاتا ہے تو ان سے فضائل اخلاق پیدا ہوتے ہیں۔
جس طرح ہر انسان میں ایک قوتِ نظری اور ایک قوتِ عملی ہوتی ہے۔ ٹھیک اسی طرح ہر قوم کا ایک مزاج ہوتا ہے اور اس اعتبار سے پوری قوم کی ایک قوتِ نظری ہوتی ہے، جس کے آئینے میں وہ اشیائے عالم کے حسن و قبح دیکھتی اور جانچتی ہے، پھر اسی طرح پوری قوم کی ایک ہی قوت عملی ہوتی ہے، جس کے باعث قوم کے تمام افراد متحد و متفق ہو کر کوئی کام کرتے ہیں۔ اُس وقت ان افراد کے عقائد و اعمال میں ایک ہم آہنگی، یکسانیت اور استواری پائی جاتی ہے۔ ان سب کا مرکزِ نگاہ ایک ہوتا ہے۔ ایک ہی مقصد اور ایک ہی جذبے کے تحت ان کی حرکات ہوتی ہیں۔ یہ ظاہر ہے کہ اگر اُس قوم کے مزاج میں فتور نہیں آیا اور اُس کا دماغ اور اُس کے اعضاءو جوارح تندرست ہیں تو اس قوم کا ہر قدم مستحسن اور اُس کا ہر عمل نیک ہوگا اور یہ قوم دنیا کے تمام انسانوں کے لئے رحمت و برکت کا سرچشمہ ثابت ہوگی۔ وہ جس سمت کا رخ کرے گی۔ باطل اور شرو فساد کی تمام ظلمتیں خود بخود چھٹتی چلی جائیں گی اور حق و صداقت کے آفتاب کی شعائیں لمحہ بہ لمحہ وسعت پذیر ہوتی رہیں گی۔
تمام اسلامی تعلیمات اصولی اور اساسی طور پر صرف دو چیزوں سے متعلق ہیں۔ ایک انسانی عقیدہ اور دوسری انسانی عمل و کردار، عقیدے کا تعلق قوتِ نظری سے ہے اور عمل و کردار کا تعلق قوتِ عملیہ سے ہے۔ اسلام کا دستور اساسی، یعنی قرآن مجید اول سے آخر تک، انہی امور کی تشریح و توضیح اور انہی حدود و قیود کے بیان و تفسیر پر مشتمل ہے اور اس بناءپر یہ کہنا قطعاً بے مبالغہ ہے کہ اسلام کا منشاء انسان کی قوتِ نظری اور قوتِ عملی کو کامل و مکمل کر کے اسے حکمتِ بالغہ کا درس دینا اور اس طرح اس کو حقیقی طور پر اشرف المخلوقات بنانا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ رسول اکرمﷺ کی بعثت کو مومنین کے حق میں اپنا ایک بہت بڑا احسان جتاتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے۔ (سورة الجمعہ نمبر 2:62) ترجمہ: وہی تو ہے جس نے انہی لوگوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان کو اللہ کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی باتیں سکھاتا ہے۔ درآں حال کہ یہ لوگ پہلے سے کھلی ہوئی گمراہی میں تھے“۔ اگرچہ یہ پہلے کھلی ہوئی گمراہی میں تھے“....یہی وہ حکمت ہے جس کو قرآن مجید کی سورة نمبر2 آیت نمبر 269 میں خیر کثیر فرمایا گیا ہے، ترجمہ: عطا فرماتا ہے، دانائی جسے چاہتا ہے اور جسے عطا کی گئی دانائی تو یقیناً اسے دے دی گئی، بہت بھلائی اور نہیں نصیحت قبول کرتے مگر عقل مند اور جو تم خرچ کرتے ہو یا منت مانتے ہو تو یقیناً اللہ تعالیٰ اُسے جانتا ہے اور نہیں ہے ظالموں کے لئے کوئی مددگار“۔ حکمت کو خیر کثیر فرمانے کی وجہ سے ہی علمائے اخلاق نے کہا ہے کہ حکمت صرف علم کا نام نہیں، بلکہ عمل بھی اس کے مفہوم میں داخل ہے، کیونکہ جو علم بغیر عمل کے ہو، اس کا خیر کثیر ہونا تو کجا، وہ تو سراسر وبال اور مصیبت ہے۔ جیسا کہ حدیث شریف میں ہے: جو علم بغیر عمل کے ہو وہ وبال ہے اور جو عمل بغیر علم کے ہو، وہ ضلال ہے“۔ غرض یہ کہ قرآن مجید ایک ایسا دستور العمل اور نظام نامہ اخلاق و عقائد ہے کہ اگر قوتِ نظری اور قوت عملی دونوں کی حرکت اس دستور کی روشنی میں ہوگی تو ان قوتوں کے مالک میں حکمت پیدا ہو جائے گی۔ ٹھیک اسی طرح جو قوم اس قرآن کو عقیدے اور عمل دونوں میں اپنا اسوہ بنائے گی، وہ بلا شبہ دنیا کی سب سے زیادہ صالح اور کامیاب ترین قوم ہوگی اور اُسے حق ہوگا کہ سب سے بلند اور ارفع ہو کر رہتے۔
عالم اسلام پر آج کل کی مصیبت، ذلت و رسوائی اور اس کے ضعف و زوال کا بنظرِ غائر جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت منکشف ہوگی کہ عرصہ دراز سے ہم قرآن و سنت کے احکاماتِ عالیہ کو عملاً فراموش کر چکے ہیں جس کی وجہ سے ہم عالمِ کفر کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ ہار چکے ہیں۔ ہم میں ہمت رہی، نہ سکت، نتیجتاً ذلت و مسکنت، محکومی و غلامی اور ہلاکت و بربادی ہمارا مقدر بن چکی ہے۔ یہ امر مسلمہ ہے کہ جو قومیں قوانین الٰہیہ اور ارشادات نبویہ کے مطابق زندگی بسر کرنے اور حکمرانی کرنے کے قابل نہیں رہتیں تو قدرت کا قانون مکافات حرکت میں آجاتا ہے۔ اگر ان میں احساس زیاں کلیتاً جاتا رہے تو وہ قوم ہلاک و برباد کر دی جاتی ہے اور اس کی جگہ کوئی دوسری قوم لے لیتی ہے۔ اسے قدرت کا قانون استبدال و استخلاف کہتے ہیں۔ جب مسلمان اللہ تعالیٰ کے واضح احکامات کی اعلانیہ خلاف ورزی کر رہے ہوں گے تو پھر چاہئے تو یہ تھا ان کی فوراً گرفت کر لی جاتی، مگر اللہ کی مغفرت بے پایاں اور رحمت بہت وسیع ہے، وہ ایسے لوگوں پر بھی نعمتوں کی بارش کرتا رہتا ہے، تآاں کہ مہلت کی گھڑیاں ختم ہوجاتی ہیں اور گرفت کا مقررہ وقت آجاتا ہے۔
سورة الکہف نمبر 18 کی آیت نمبر 57 کا ترجمہ ملاحظہ ہو۔ اور اُس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہے؟ جسے اُس کے رب کی آیات سنا کر نصیحت کی جائے اور وہ اُن سے منہ پھیر لے اور اُس برے انجام کو بھول جائے، جس کا سروسامان اُس نے اپنے لئے خود اپنے ہاتھوں کیا.... قرآن کریم سے دوری کا شکوہ تو رسول اکرمﷺ روز محشر اللہ تعالیٰ کے حضور اس طرح فرمائیں گے.... سورة الفرقان نمبر 25 آیت نمبر30 کا ترجمہ: اور رسول کہیں گے کہ اے میرے پرور دگار! میری اس قوم نے اس قرآن کو بالکل نظر انداز کر دیا تھا.... آئیے پہلے اپنے گھر کی خبر لیتے ہیں....کیا اس آیت مبارکہ کی ہم صریحاً خلاف ورزی نہیں کر رہے؟ آیت نمبر103 سورئہ آل عمران نمبر 3 اور مضبوط پکڑ لو اللہ کی رسی (قرآن و سنت) کو تم سب کے سب اور باہمی تفرقہ مت کرو اور تم پر جو اللہ تعالیٰ کا انعام ہے، اُسے یاد کرو جب کہ تم دشمن تھے، پس اللہ تعالیٰ نے تمہارے دلوں میں محبت ڈال دی۔ سو تم اللہ کے انعام سے آپس میں بھائی بھائی ہوگئے۔
اس سے اگلی آیتہ مبارکہ نمبر 104 سورئہ آلِ عمران نمبر 3 کی اہمیت اور قومی اصلاح کے لئے ارشاد ہے کہ مسلم معاشرے میں صرف ایک مخصوص جماعت کی موجودگی ناگزیر ہے جو پوری طاقت اور قوت سے امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا بڑی سختی سے فریضہ انجام دے۔ ترجمہ: اور چاہئے تم میں سے ایک جماعت جو بھلائی کی طرف دعوت دے، لوگوں کو نیکی کی طرف حکم دے اور برائی سے منع کرے۔ پس یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں“۔ یعنی صرف مسلمانوں میں ایک ایسی جماعت تیار کرنا ملت کا اجتماعی فریضہ ہے جس کی سیرت و کردار رسول اکرمﷺ کا مظہر کامل ہو۔ ان میں علوم اسلامیہ کی مہارت تامہ کے ساتھ ساتھ سیرت کی پاکیزگی، کردار کی پختگی اور ظاہر و باطن کی یکسائی کا ہونا لازمی ہے۔ اگر ملت اس اہم ترین فریضے کو ادا نہیں کرے گی تو وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی اس کوتاہی کے لئے جواب دہ ہوگی۔ تاریخ شاہد ہے جب تک ایسے افراد تیار ہوتے رہے، گلشنِ اسلام میں بہار رہی۔ کفر کے ظلمت کدے اسلام کے نور سے روشن ہوتے رہے۔ حق کی قوت باطل کے قلعوں کو مسخر کرتی رہی، لیکن اب ملتِ اسلامیہ یہود و نصاریٰ اور ہنود کے سامنے سر اُٹھانے کی ہمت و جرا¿ت نہیں رکھتی۔ ذلت و رسوائی سے لبریز ہم ان کی ہر شرط ماننے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ اندریں صورت اس درد انگیز حالت سے نمٹنے کے لئے قرآن و سنت پر پوری طرح سے عمل کرنا ناگزیر ہے۔
4: سورئہ آلِ عمران میں بڑے واضح انداز سے اس امر کی تصریح کی گئی ہے کہ انسان کے خالق نے جو ضابطہ عطا فرمایا ہے، وہ ایک ہی ہے، اس کا نام ہے.... دین اسلام، اس دین کے سیاسی عقائد اور بنیادی اصول زمان و مکان کے اختلاف کے باوجود ازلی اور ابدی ہیں۔ یہ دین انسانی عقل و خرد کی اختراع کہ وہ کوئی چیز نہیں، بلکہ اللہ کا دین ہے، جو برحق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بے مقصد پیدا نہیں کیا۔ جیسا کہ سورة المومنون نمبر 20آیت نمبر 115 میں فرمایا گیا ہے۔ کیا تم نے یہ گمان کر رکھا تھا کہ ہم نے تمہیں بے مقصد پیدا کیا ہے اور تم ہماری طرف نہیں لوٹائے جاو¿ گے“۔ مقام غور اور عبرت ہے کہ سورئہ آل عمران کی آیات نمبر 103 اور 104 میں بالترتیب اعتصامِ حبل اور یک جماعتی نظام کے قیام پر زور دیا گیا ہے۔ معاشرے کی اصلاح کے لئے مزید ہدایات آیات نمبر 105 میں اس طرح سے دی گئی ہیں کہ مسلمانوں کو گروہ بندی، فرقہ بندی اور آپس میں اختلافات سے منع فرمایا گیا ہے....ترجمہ: اور نہ ہو جانا ان لوگوں کی طرح جو فرقوں میں بٹ گئے تھے اور اختلاف کرنے لگے تھے۔ اس کے بعد بھی جب آچکی تھیں ان کے پاس روشن دلیلیں/ نشانیاں اور ان لوگوں کے لئے عذاب ہے بہت بڑا“۔ یاد رہے اگر مسلمان ان تینوں آیات پر صدق دل سے عمل پیرا ہو جائیں تو ان کا دین اور دنیا دونوں سنور جائیں۔
یاد رہے چمٹ کر، داو¿ پیچ سے وزارت لینے والے، حصول اقتدار کی ہوس رکھنے والے بالآخر ذلیل و خوار ہوتے ہیں۔ یہ تماشا تو ہم پاکستان کے معرض و جود میں آنے کے فوراً بعد سے دیکھ رہے ہیں۔ سو یہ تھے چند امور جن کا تعلق ہمارے اپنے گھر سے تھا۔ اس حدیث مبارکہ کے ساتھ رخصت چاہتا ہوں: حضرت عبدالرحمن بن سمرہؓ سے روایت ہے کہ فرمایا مجھ سے رسول اللہﷺ نے حکومت نہ مانگو، کیونکہ اگر تم طلب سے حکومت دئیے گئے تو تم اس کے حوالے کر دئیے جاو¿ گے اور اگر تم کو بغیر طلب حکومت دی گئی تو اس پر تمہاری مدد کی جائے گی۔ تاہم اگر رب کی طرف سے تم کو سلطان بننا پڑ گیا تو رحمت الٰہی تمہاری دستگیری کرے گی۔ تمہارے فیصلے درست ہوں گے۔ ملک کا بوجھ تم سے اُٹھ سکے گا۔ حکومت کرنا آسان کام نہیں بغیر کرم پروردگار یہ بوجھ اُٹھایا نہیں جاسکتا، ”وما علینا الا البلاغ المبین۔ ٭