معلوماتی سفرنامہ۔۔۔ اٹھتیسویں قسط

Mar 13, 2017 | 02:42 PM

ابویحییٰ

ہمارے سفر کا نقشہ
ہم دو گھنٹوں میں پورا ملائیشیا عبور کرکے سنگاپور پہنچے۔ آگے بڑھنے سے قبل یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ سفر کے دائرے میں آنے والے تینوں ممالک کا جغرافیہ واضح کردیا جائے۔
سنگاپور، ملائیشیا اور تھائی لینڈ دنیا کے جس خطے میں واقع ہیں اسے ساؤتھ ایسٹ ایشیا کہتے ہیں یعنی جنوب مشرقی ایشیا۔ پاکستان سے جنوب مشرق کی سمت آگے بڑھنے پر پہلے ہندوستان اور پھر بنگلہ دیش اور میانمار (برما) آتے ہیں۔ برما جس خطے میں واقع ہے وہ ایک جزیرہ نما (Peninsula) ہے یعنی خشکی کا ایک ایسا حصہ ہے جس کے تین اطراف پانی ہے۔ اس خطے میں برما کے علاوہ لاؤس، ویتنام، کمبوڈیا اور تھائی لینڈ واقع ہیں۔ اس خطے کے مشرق اور مغرب کی طرح جنوب میں بھی سمندر ہے، مگر تھائی لینڈ سے خشکی ایک پٹی کی شکل میں مزید جنوب کی سمت سمندر میں آگے بڑھتی ہے۔ یہ پٹی آگے چل کر قدرے چوڑی ہوجاتی ہے اور پھر بتدریج پتلی ہونے لگتی ہے۔ خشکی کی یہ چوڑی پٹی جس کے تین طرف سمندر اور ایک طرف تھائی لینڈ ہے، ملائیشیا کا مرکزی حصہ ہے جسے جزیرۂ نما ملائیشیا (Peninsular Malaysia) کہتے ہیں۔ اس پٹی کی نوک پر چھوٹا سا سنگاپور واقع ہے۔ گویاا س چوڑی پٹی کے ایک طرف تھائی لینڈ ہے جو ایشیا سے متصل ہے اور دوسری سمت سنگاپور ہے جس سے آگے سمندر اور سمندر کے بعد جزیروں کی شکل میں ملائیشیا کا بقیہ حصہ اور انڈونیشیا آتے ہیں۔

سینتیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
وقت کا خزانہ
سنگاپور پہنچ کر مجھے یہ احساس ہوا کہ ہم چند گھنٹوں کے اندر تقریباً پانچ ہزار کلو میٹر کا سفر طے کرکے ایک نئی دنیا میں پہنچ گئے۔ یہ واقعہ بتاتا ہے کہ وقت کتنی بڑی نعمت ہے۔ اس کو درست استعمال کرکے انسان کیا کچھ حاصل کرسکتا ہے۔ انسان کے لیے تو بلاشبہ وقت ہی سب کچھ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے جو مہلتِ عمر دی ہے وہ پچاس ساٹھ سال سے زیادہ نہیں ہے۔ یہ بہت کم وقت ہے۔ لیکن انسان کے پاس یہ مواقع موجود ہیں کہ اس وقت کو صراطِ مستقیم پر چل کر گزارے تو قیامت کے بعد قائم ہونے والی دنیا میں وہ عظیم مقامات حاصل کرسکتا ہے۔ وہ اس مختصر وقت میں ایسے اعمال تخلیق کرسکتا ہے جو نتائج و اثرات کے اعتبار سے کبھی نہ ختم ہوں۔
اپنے وقت کا درست استعمال انسان کو کیسی عظیم بادشاہی سے نواز سکتا ہے اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ سورج زمین سے تقریباً نو کروڑ میل دور ہے۔ جبکہ سورج سے قریب ترین ستارہ Proxima Centauri تقریباً 252 کھرب میل دور ہے۔ یہ وہ فاصلہ ہے جو روشنی 186282 میل فی سیکنڈ کی رفتار سے سوا چار برس میں طے کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے بعید نہیں کہ وہ بندۂ مؤمن کے اُن لمحات کا بدلہ جو اِس نے نیک اعمال میں گزارے اس طرح عطا فرمائے کہ ہر ہر لمحے میں کیے گئے عملِ صالح کے عوض وہ اسے ایک ستارے کی بادشاہی انعام میں عطا کریں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بندۂ مؤمن ایک ایک لمحے میں کوئی ایسا عمل کرسکتا ہے جو اسے 252 کھرب میل دور واقع ستارے کی بادشاہی دلوادے۔ آج یہ ستارے بظاہر آگ کے گولے نظر آتے ہیں، مگر اللہ تعالیٰ کی رحمت سے بعید نہیں کہ وہ ان ستاروں کو آنے والی زندگی میں سرسبز و شاداب باغات بنادیں اور پھر انعام کے طور پر اپنے صالح بندوں کو عطا کردیں۔
جدید فلکیات کی ترقی نے یہ بات واضح طور پر بتادی ہے کہ دنیا کے تمام انسانوں کی زندگیوں کو ملاکر اُن کے مجموعی لمحات گنے جائیں تو جتنے لمحات بنیں گے، کائنات میں موجود ستاروں کی تعداد اُس سے کہیں زیادہ ہے۔ اس دنیا میں آج کے دن تک پیدا ہونے والے لوگوں کی تعداد کا غیر حتمی اندازہ تقریباً 100 ارب کے لگ بھگ ہے۔ ہر انسان کی اوسط عمر 63 تصور کرلی جائے تو ایک انسان کی زندگی میں کل دو ارب لمحات آتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اولین سے آخرین تک آنے والے کل انسانوں کی تعداد یعنی سو ارب کی زندگی کے کل لمحات کو اگر لکھنا ہو تو اس طرح لکھیں گے:
200,000,000,000,000,000,000
مجھے نہیں معلوم کے اردو میں اس عدد کو کیسے بیان کریں گے لیکن یہ عدد 2 کے آگے 20 دفعہ صفر لگا کر لکھا گیا ہے۔ قارئین کو یہ تعداد شاید بہت زیادہ لگے لیکن حقیقت یہ ہے کہ کائنات میں ستاروں کی کل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق ستاروں کی جو تعداد ابھی تک دیکھی گئی ہے اسے بیان کرنا ہو تو 7 کے آگے 22 دفعہ صفر لگانا ہوگا۔ یعنی ہر انسان کی ہر سانس کے مقابلے میں ستارے 700 گنا زیادہ ہیں۔ یاد رہے کہ ستاروں کی اصل تعداد نہ صرف اس سے کہیں زیادہ ہے بلکہ مزید ستارے ہر لمحہ وجود میں آرہے ہیں۔
ان اعداد و شمار سے یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ جس جنت کی تخلیق کی تیاری کررہے ہیں وہ انسانوں کے اندازوں سے کہیں زیادہ بڑی ہے اور اس میں ملنے والا اجر اس سے کہیں زیادہ ہے کہ انسان کے ہر لمحے کے بدلے میں اسے 252 کھرب میل دور ایک ستارہ دے دیا جائے۔ چنانچہ ایک بندۂ مؤمن کو زندگی کا ہر لمحہ یہ سوچ کر گزارنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے پاس اسے دینے کے لیے بہت کچھ ہے۔ اتنا کچھ کہ وہ ایک لمحے میں کم از کم 252 کھرب میل کی ترقی حاصل کرسکتا ہے۔ اس کے مقابلے میں میں نے آٹھ گھنٹوں میں کل پانچ ہزار میل طے کیے تھے جو یقیناً بہت کم ہیں۔ لیکن جدید سائنس میں انسان کی ترقی نے اس کو ان امکانات سے ضرور آگاہ کردیا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے وقت میں رکھ دیے ہیں۔ وقت کیسا عظیم خزانہ ہے مگر لوگ کس بے دردی سے اسے ضائع کرتے رہتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جنت میں سو ارب انسانوں میں سے بہت کم ہی جاسکیں گے۔
سنگاپور: جدید مغربی دنیا کا مشرقی ایڈیشن
ہم سنگاپور تین دن رہے۔ ان تین دنوں میں اس شہر کے متعلق میرا تاثر یہی قائم ہوا کہ یہ جدید مغربی دنیا کا مشرقی ایڈیشن ہے۔ سیموئل ہٹنگٹن نے سرد جنگ کے بعد کی دنیا کے حوالے سے یہ بحث اٹھادی تھی کہ آئندہ جنگ نظریات کے مابین نہیں بلکہ تہذیبوں کے مابین ہوگی۔ آنے والی دنیا میں ایک طرف مغربی تہذیب ہوگی جس نے دورِ جدید کو جنم دیا ہے اور دوسری طرف اس کے مد مقابل مسلم اور چینی تہذیبیں ہوں گی۔ ہٹنگٹن کی پیش گوئی کے مطابق مسلم اور مغربی تہذیب کا ٹکراؤ شروع ہوگیا ہے۔ جبکہ چینی تہذیب کی قیادت چونکہ انتہائی باشعور لیڈر کررہے ہیں اس لیے وہ اپنی تہذیب کو ہر قسم کے ٹکراؤ سے بچاکر معاشی اور فوجی ترقی کی راہ پر گامزن کیے ہوئے ہیں۔ یہ صاف ظاہر ہے کہ مسلم مغرب ٹکراؤ میں دونوں تہذیبیں بے حد کمزور ہوجائیں گی اور اس کے بعد چینی تہذیب باآسانی پوری دنیا پر غالب ہوجائے گی۔
خیر بات ایک دوسری طرف نکل گئی۔ اصل بات جسے میں زیرِ بحث لانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہٹنگٹن کے مطابق دنیا بھر میں تیزی سے پھیلتا ہوا جدید کلچر جو بظاہر مغربی کلچر کے غلبہ کا تاثر دیتا ہے یعنی مغربی لباس، پیپسی، میکڈونلڈ وغیرہ مغربیت کی علامت نہیں، بلکہ جدیدیت کی علامت ہے۔ یہ اثرات کسی عالمی مغربی تہذیب کو پیدا نہیں کرتے بلکہ مختلف تہذیبوں کے جدید ہونے کی علامت ہیں۔
مشرق کے جدید ہونے والی بات مجھے سنگاپور آکر ٹھیک محسوس ہوئی۔ میں نے جتنے جدید اور ترقی یافتہ مغرب کے بڑے شہروں کو دیکھا، اتنا ہی جدید اور ترقی یافتہ سنگاپور محسوس ہوتا تھا۔ بلکہ حقیت یہ ہے کہ سنگاپور معیارِ زندگی کے اعتبار سے دنیا کے معیاری ترین ملکوں میں سے ایک اور ایشیا میں جاپان کے بعد دوسرا ملک ہے۔ یہاں کی بلند عمارات، پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام، بڑے بڑے شاپنگ سنٹر، تہذیبِ جدید کے دیگر مظاہر یعنی تیز زندگی، عورتوں کا بڑی تعداد میں گھر سے باہر نکل کر کام کرنا، کھانا گھر سے باہر کھانا، غرض ہر چیز زبانِ حال سے یہ بتارہی تھی کہ یہ ایک ترقی یافتہ ملک ہے۔ مکڈونلڈ، پیپسی اور مغربی لباس بہت عام تھا۔ بلکہ جو حبس زدہ اور گرم موسم ہمیں ملا تھا اس میں لباس کچھ کم کم ہی تھا۔ خواتین کی عریانی سے محسوس ہوتا تھا کہ میں جون جولائی میں نیویارک آگیا ہوں۔ اسی طرح نوجوان جوڑوں کے سرعام معاملات بھی وہی تھے جو مغرب میں معمول ہیں۔ اس لیے میں سیموئل ہٹنگٹن کی اس بات سے تو اتفاق کرتا ہوں کہ یہ جدیدیت ہے، مگر یہ درست نہیں کہ یہ مغربیت نہیں ہے۔ میرے نزدیک اصل بات یہ ہے کہ مغرب کا صرف جدید پہلو (Modernization) ہی نہیں بلکہ مادیت، اعراضِ خدا، عریانی اور اخلاق باختگی کا پہلو بھی تیزی سے مشرق میں پھیلا ہے۔ اسی کو میں نے جدید مغربی دنیا کے مشرقی ایڈیشن سے تعبیر کیا ہے۔
میں پوری دیانت داری سے یہ سمجھتا ہوں کہ دنیا کو صرف مادی آنکھ سے دیکھنے کا دجالی وصف تمام اقوام عالم میں عام ہوچکا ہے۔ سنگاپور جہاں اور اعتبار سے مشرق کا جدید مغربی ایڈیشن ہے وہیں مادیت پر مبنی مغربی تہذیب کا ایک مکمل پیرو بھی ہے۔ یہ مغرب سے سیاسی اور ثقافتی طور پر مختلف ہے لیکن اصلاً یہ پیروئی مغرب ہی کی راہ پر گامزن ہے۔

جاری ہے۔ انتالیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

مزیدخبریں