حضرت خالد بن ولیدؓ چونکہ بنیادی طور پر ایک جرنیل تھے، جنگی اور حربی حکمت عملی انکی رگ رگ میں سمائی ہوئی تھی۔ ان کی اس جوابی کارروائی کے نتیجے میں مسلمانوں کو شدید نقصان پہنچا۔ حضورﷺکے دندان مبارک بھی شہید ہوئے۔ مسلمانوں کواحد کی پہاڑی کی طرف واپس جانا پڑا اور اسی افراتفری میںحضرت حمزہ ؓ بھی شہید ہوگئے۔
حضرت حمزہؓ ،رسولﷺ اور خالد بن ولید کے دستے کے درمیان ایک چٹان کی مانند کھڑے ہوگئے۔ یوں انہوں نے مسلمانوں اور حضورﷺ کو موقع دیا کہ وہ محفوظ مقام یعنی احد کی پہاڑی پر چڑھ سکیں۔ مگر سیدنا حمزہؓ حضورﷺ کو بچاتے ہوئے خود شہادت کے مرتبے پر فائز ہوگئے۔
حضرت خالد بن ولیدؓ کے قبول اسلام سے قبل بھی حضورﷺ ان کو بہت پسند کرتے تھے۔ جب حضورﷺ کے سامنے جناب خالد کی تعریف کی جاتی تھی تو حضورﷺ فرمایا کرتے کہ یہ خصوصیات جس شخص میں ہونگی ،وہ ضرور اسلام قبول کرے گا۔جس طرح آپﷺ نے سیدنا عمر بن خطابؓ کے بارے میں قبول اسلام کی دعا فرمائی تھی، اسی طرح خالدؓ کے بارے میں بھی حضورﷺکی خواہش تھی کہ وہ اسلام قبول کرلیں۔ کیونکہ ان صلاحیتوں کے حامل مجاہد، جنگجو اور جانباز کی اسلام کو اشدضرورت تھی۔ آخر یہی ہوا کہ ۸ ہجری میں فتح مکہ سے پہلے، حضرت خالد بن ولیدؓ ، حضرت عمرو بن العاصؓ اور حضرت عثمان بن طلحہؓ، حضورﷺ کے پاس تشریف لائے اور اسلام قبول کرلیا۔ تب حضورﷺنے بہت خوشی کے ساتھ فرمایا کہ اے لوگو! مکہ نے اپنے جگر گوشے تمہارے دامن میں ڈال دیئے ہیں۔
حضرت خالدبن ولیدؓ۔اسلام کے عظیم سپہ سالار کے حالات زندگی... قسط 1
قبول اسلام کے بعد سیدنا خالدؓ پر حضورﷺ نے خاص نگاہ کرم فرمائی اور آپ کو ”سیف اللہ“ کا خطاب عطا فرمایا۔یہ صرف ایک خطاب ہی نہیں تھا بلکہ اس کے ساتھ دنیا و مافیہا کی تمام روحانی و باطنی قوتیں بھی اس سپہ سالار کو عطا کردی گئیں تھیں۔خالد بن ولیدؓ نے حضورﷺ سے فرمایا کہ زمانہ جاہلیت میںمجھ سے جو غلطیاں اور کوتاہیاں ہوئی ہیں، میں ان کی مغفرت طلب کرتا ہوں۔رسول اللہﷺنے ان کو بشارت دی کہ تمہارے پچھلے سارے گناہ معاف کردیئے گئے ہیں ۔اسکے بعد خالدؓ نے عہد کیا کہ اب ان کی تلوار حضورﷺکی ہم رکابی میں ہی بے نیام رہے گی اور وہ دین کی سربلندی کے لیے ہی جہاد کریں گے۔ اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پھر انہوں نے سیف اللہ ہونے کا حق ادا کردیا۔
جو معرکے حضرت خالد بن ولیدؓ نے حضورﷺکے حکم اور اجازت سے لڑے، ان میں ایک جنگِ موتہ بھی تھی۔ جنگ موتہ کے بارے میں ایک اہم بات یہ ہے کہ جب حضرت زید بن حارثہؓ نے اس لشکر کی قیادت کی تو حضورﷺنے پہلے ہی بشارت دے دی تھی کہ اگر زیدؓ شہید ہوجائیں تو جعفرؓ علم سنبھال لیں اور اگر جعفرؓ بھی شہید ہوجائیں تو پھر عبداللہ بن رواحہؓ انکی جگہ پرچم اٹھالیں اور اگر وہ بھی شہید ہوجائیں تو پھر مسلمان جس کو چاہیں اپنا امیر منتخب کرلیں۔ اور پھر میدان جنگ میں اسی طرح ہوا۔حضرت زیدؓ ا ور حضرت جعفرؓ کی شہادت کے بعد بالآخر سیدنا خالدؓ نے مسلمان فوج کی قیادت سنبھالی اور ایک انتہائی مشکل صورتحال میں ہونے کے باوجود فوج کو بحفاظت دشمن کے نرغے سے نکال لائے۔جنگ موتہ میں ہی پہلی مرتبہ سیدنا خالد بن ولیدؓ اسلامی لشکر کے سپہ سالار کے طور پر ابھرے۔
فتح مکہ کے موقع پر کہ جب حضورﷺ لشکر لے کر مکہ کی جانب روانہ ہوئے تو تمام صحابہؓ آپکے ہمراہ تھے۔ سیدنا خالد بن ولیدؓ کو بھی ایک لڑاکادستہ دیا گیا تھا۔جب مسلمان فوجیں نواطراف سے مکہ میں داخل ہوئیں ، تو آٹھ اطراف سے تو کفار نے کوئی مزاحمت نہ کی،مگر سیدنا خالد بن ولیدؓ کے دستے کی کفار سے شدید جھڑپ ہوئی۔ اس مزاحمت میں کئی کافر مارے گئے۔ اسکے بعدآپؓ فاتحانہ شان سے زرہ پہنے، سر پر فولادی خود رکھے،تلوار تھامے، حضورﷺ کے سامنے سے گزرے تو حضورﷺ نے صحابہؓ سے پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ صحابہؓ نے تعارف کروایا کہ یہ خالد بن ولیدؓ ہیں۔
خالد بن ولیدؓ کی صلاحیتوں،جانبازی ،دلیری ، خود اعتمادی اور آزاد طبیعت کو حضورﷺبہت پسند فرماتے تھے۔ ان غلطیوں پر کہ جن پر کسی اور صحابی کی سخت سرزنش کی جاتی ، سیدنا خالدؓ سے درگزر کرلیا جاتا تھا ۔ فتح مکہ کے موقع پر حضورﷺ نے منع فرمایا تھا کہ کوئی جھڑپ نہ ہو، اس کے باوجود بھی سیدنا خالدؓ نے کفار سے جھڑپ کی، توآپؓ سے اس بارے میں سوال کیا گیا۔ انہوں نے فرمایا کہ یا رسول اللہﷺ! انہوں نے ہم پر حملہ کرکے ہمیں لڑنے پر مجبور کیا۔اس پر حضورﷺنے بات کو بہت پیار سے ٹال دیا کہ جو ہواسو ہوا، اور سیدنا خالدؓ کی کوئی مزیدسرزنش نہیں کی گئی۔ اسی طرح ایک موقع ایسا بھی آیا کہ جب سیدنا خالدؓ کی تلوار سے کچھ ایسے لوگ قتل ہوگئے کہ جن کے بارے میں شک تھا کہ وہ کافر ہیں یامسلمان۔ جب اسکی اطلاع حضورﷺتک پہنچی تو آپﷺ کو بہت دکھ ہوا، لیکن پھر بھی سیدنا خالد بن ولیدؓ کوکچھ نہیںکہا گیااور جو لوگ قتل ہوئے تھے، انکے ورثاءکو اسکی دیت یعنی خون بہا بھجوا دیا گیا ۔
حضرت خالد بن ولیدؓکیساتھ معاملات کرتے وقت بہت احتیاط سے برتاﺅ کرنا پڑتا تھا۔ ظاہر ہے کہ جو شخص اتناآزاد ، دلیر، شجاع ہو اور اپنی ایک منفردرائے رکھتا ہو، پھر اسکو یہ اعتماد بھی ہو کہ اللہ اور اسکے رسولﷺ اس سے محبت کرتے ہیں ، تو پھروہ کسی اور کے قابو میں آنے والا نہیں ہوتا۔ حضورﷺ کے بعد سیدنا ابو بکر صدیقؓ بھی ان سے بہت احتیاط سے برتاﺅ کرتے تھے ،اور اس دور میں بھی حضرت خالدؓ اپنی جنگی کارروائیوں میں بہت حد تک خود مختارتھے۔ سیدنا عمرؓ چونکہ انکے دوست ، رشتہ داراور ہم عمر بھی تھے،لہذا ان کے ساتھ عمرؓ کا بحث مباحثہ ہوجایا کرتا، مگر اس کے باوجود آپس میں ادب، پیار اور محبت بے انتہا تھی۔ فتح مکہ کے بعد حضورﷺکے ہر غزوہ میں سیدنا خالدؓ آپﷺ کے ہم رکاب رہے۔
غزوہ حنین ،کہ جسکا ذکر قرآن میں بھی آیا ہے،کے موقع پر کہ جب مسلمان ایک کثیر تعداد کے ساتھ آگے بڑھے، تو ایک پہاڑی درّے میں دشمن نے پہاڑوں کے پیچھے سے مسلمانوں پر تیروں کی بارش کردی اور مسلمانوں کو شدید نقصان اٹھانا پڑا۔ ایک موقع تو ایسا بھی آیا کہ حضورﷺ چند صحابہؓ کے ساتھ بالکل تنہا رہ گئے تھے ۔تب انہوں نے مسلمانوں کو پکار کر اپنی طرف بلایا۔اسکے بعد مسلمانوں نے از سرِ نو صف بندی کی اور دوبارہ دشمن پر شدید حملہ کیا۔پھر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح عطا فرمائی۔ اس جنگ میں بھی خالد بن ولیدؓ بے جگری سے لڑے اور شدید زخمی ہوئے ۔ حضورﷺ بہت عرصے تک آپ کی عیادت فرماتے رہے اور آپ کے لیے دعا فرمائی۔
اسکے بعد غزوہ تبوک کی مہم میں بھی سیدنا خالدؓ نے شمولیت اختیار کی۔ اس غزوہ کا ذکر بھی قرآن پاک میں آیا ہے۔ تبوک کی مہم کے دوران ہی حضورﷺ نے ایک چھوٹا سا دستہ تبوک سے دومتہ الجندل( شام کا ایک علاقہ) کی طرف روانہ کیا۔ حضرت خالد بن ولیدؓ کو اس دستے کے ساتھ بھیجا گیا۔اس ساری مہم کی قیادت سیدنا خالدؓ کے پاس تھی۔(جاری ہے)
حضرت خالدبن ولیدؓ۔اسلام کے عظیم سپہ سالار کے حالات زندگی... قسط 3 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں